عدنان خان کے قتل نے ہابیل اورقابیل کی یاد تازہ کردی

حسین ،نیک سیرت اور ہنس مکھ ہونے کی وجہ سے عدنان سب کی آنکھ کا تارا تھا.

حسین ،نیک سیرت اور ہنس مکھ ہونے کی وجہ سے عدنان سب کی آنکھ کا تارا تھا. فوٹو : فائل

ہابیل اورقابیل کے قصے سے کون واقف نہیں ہے، ایک آدم کی اولادہے ایک دوسرے کے دشمن ہوے، علاقہ یارحسین ضلع صوابی میں بھی گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی دردناک واقعہ پیش آیا جس نے پورے علاقے کو جھنجھوڑ کررکھ دیا۔

ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے دو بڑے سگے بھائیوں نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اپنے چھوٹے بھائی کوخون میں نہلادیااور چچا زاد بھائی کو زخمی کر دیا مقتول کے عزیزوں ، دوستوں اور اہلیان علاقہ حیران اور پریشان اور یوںپورے علاقے میں کہرام سا مچ گیا،عدنان خان کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ عدنان خان آج سے بیس بائیس سال پہلے یارحسین مسکین آبادکے فیروز خان کے گھر پیدا ہوا جس پر خاندان کے تمام افراد نے خوشیاں منائیں بچے تو سب کے ہی پیارے خوبص ہوتے ہیںلیکن عدنان خان کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔

حسین ،نیک سیرت اور ہنس مکھ ہونے کی وجہ سے عدنان سب کی آنکھ کا تارا تھا بعض اوقات انہی خوبیوں کی وجہ سے اسے نظر بد بھی لگ جاتی تھی اور ہوں وہ بیمار بھی ہوجاتا تھا ایسے میں والدین اور بہن بھائی اپنے لاڈلے کو نظر بد سے بچانے کی ہر ترکیب کرتے۔ جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو آہستہ آہستہ ان کی چھوٹی چھوٹی، میٹھی میٹھی باتوں اور شرارتوں سے نہ پورے خاندان بل کہ پورا محلے کو گرویدہ کر لیا ،چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس کازیادہ وقت اپنے گھر کی بجائے پڑوسیوں کے گھروں میں گزرنے لگا تھا۔ آخرکار وہ سکول جانے لگا تو وہ جلد ہی سکول کے ماحول میں مگن ہوگیا ، سکول اس کا دوسرا گھرتھا۔

نرسری کلاس ہی سے اس نے اپنی شرافت اور خوش مزاجی سے نہ صرف اپنے ہم عمر طالب علم بلکہ اساتذہ کرام کے دل بھی جیت لیے اور اپنی خدادادصلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے ہر سال وہ کلاس میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتا۔پرائمری،مڈل اور میٹرک اپنے ہی گائوں کے سکول سے اورپھر مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی چونکہ پچپن ہی سے اسے کمپیوٹر اور شوبز کی دنیا میں نام کمانے کا شوق تھا اس لیے کم عمری میںکمپیوٹر میں مہارت اختیار کرلی ا ور بلا معاوضہ اپنے دوستوں،عزیزوں کے کمپیوٹرز کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے مسائل حل کرنے لگا ۔ وہ تخلیقی اور تحقیقی ذہن کا مالک تھا مگر زندگی کی نہ روکنے والی بے رحم گاڑی بھی رواں دواں تھی۔ عدنان خان اپنے آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجا کر آگے بڑھ رہا تھا ۔


اس دوران اس نے پروڈکشن ،رائٹینگ اور ڈائرکشن کے میدان میں ایک کامیاب سی ڈی ڈرامہ میکر کی حثیت س علاقے میں شہرت حاصل کر لی ۔ والدین کو اس کی جوانی کا احساس ہوا تو بڑی دھوم دھام سے والدین نے اس کی منگنی کی تقریب کی وڈیو تیار ہوئی پھر تھوڑا عرصہ بعد والدین نے اسے شادی کی نوید سنائی اور شادی کی تاریخ 6اکتوبر2012 مقررہوئی شادی میں صرف آٹھ دن باقی تھے کہ اچانک عدنان خان کے موت اور ان کے چچا زاد بھائی عامر سہیل کے زخمی ہونے کی خبر علاقے میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور یوں وقت ایک لمحے کے لیے رک گیا۔کسی کو یقین نہیں آرہا تھا، گھر والے اور دوست توشادی کی تیاری کررہے تھے لیکن اب جنازے کی تیاری کرنا تھی۔

تھانہ یارحسین کی رپورٹ کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مقتول عدنان خان ولد فیروز خان ساکن مسکین آباد یارحسین(صوابی) اپنے چچا امبارس خان کے گھر گیاتھاکہ مقتول کے بھائیوں فرمان علی اور منظور علی نے مبینہ طور پر اندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے ہی چھوٹے بھائی عدنان خان (عمر تقریبا بائیس سال) کو قتل کر دیا جبکہ چچا زاد بھائی عامر سہیل کو زخمی ۔ پولیس نے زخمی عامر سہیل ولد امبارس خان کی رپورٹ پر مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی،وجہ تنازعہ گھریلو نا چا قی بتائی جا رہی تھی شادی والے گھر میں صف ماتم بچھ گئی شہنائیوں اور رنگ ونور کی تقریب آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوگئی۔ دوست اور رشتہ دار ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے اور اکثر کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار اور چمک دار رنگین سہروں کی دیدہ زیب لڑیاںتھیں، لیکن افسوس یہ ہار اب ڈولی سجانے کے لیے نہیںبلکہ قبر پر رکھنے کے لیے تھے ۔ شہنائیوں کی بجائے صرف آہیں اور سسکیاں تھیں۔

عدنان ابدی نیند سو رہا تھا اس کے چہرے پر بکھری مسکان سے یوں معلوم ہورہا تھا جیسے وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہا ہو۔ دوستوں اور عزیزوں نے میت کو اپنے کندوں پر اٹھایا تو کہرام مچ گیا عدنا ن خان سفید کفن میں ملبوس تھا، اس کی شادی کا جوڑاخدا جا نے کہاں تھا؟ علاقے کی ہر آنکھ اشکبا ر تھی، عدنان خان کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے یارحسین میں سپرد خاک کردیا گیا۔ مرحوم کا پورا خاندان جدی پشتی شرافت اور علم و ہنر کی وجہ سے علاقہ میں مشہور تھا لیکن شاید اللہ کو یہ بھی منظور تھا کہ عین شادی کے دن گھر والوں کو مرگ سے واسطہ پڑے گا۔ طے شدہ بات ہے کہ جب کسی انسان کا رزق اس دنیا سے ختم ہوجاتا ہے تو وہ اس دنیا میں ایک پل بھی نہیں رہ سکتا ۔ اس سچی کہانی کی یہ آخری قسط نہیںہوگی اگر یارحسین کے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور با شعور طبقے نے کلاشکوف کلچر کے خاتمے کے لیے اپنی آیندہ نسل کو تعلیم کی طرف مائل نہ کیا۔

عدنان خان جیسے نوجوان زندگی کی بازی یوں ہی ہارتے رہیں گے اور ملک وقوم کا یہ سرمایا ہم سے بچھڑتا چلا جائے۔ آئو مل کر اس دھرتی کو امن ،قلم ،اخلاص،محبت،بھائی چارے اور برداشت کے ذریعے جنت نظیر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اگر ہماری ان کوششوں سے یہ دھرتی جنت نہ بن سکی تو کم از کم آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تویہ جنت ضرور ہونی چاہیے۔ ہم نے قلم ،امن ، دلیل اوربرداشت کی بجائے جب سے کلاشنکوف کے ذریعے مسئلے حل کرنے شروع کیے ہیں ملک میں بربریت دن بہ دن زیادہ ہو رہی ہے۔ کیا آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں دعائوں کی بجائے بد دعائیں دے کر ہماری قبروں پر جب تھوکیں گی تو ہمیں تب ہوش آئے گا۔
Load Next Story