زرعی پیکیج پر شفاف عملدرآمد ناگزیر
وزیراعظم نوازشریف نے کسانوں کے لیے 341 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے
وزیراعظم نوازشریف نے کسانوں کے لیے 341 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے دنیا بھر میں منائے گئے یوم جمہوریت کے حوالے سے کہا کہ جمہوریت ہی ہماری پہچان، فلاح اور بقا ہے، ہمارا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، انھوں نے جمہوریت کی مضبوطی اوردوام کے لیے جدوجہد کرتے رہنے کا عہد کیا۔
زرعی پیکیج بلاشبہ سیاسی تالاب میں ارتعاش پیدا کرچکا ہے، ملک کی زرعی معیشت ، اجتماعی پسماندگی اور مصائب کا شکار دیہی عوام ایسے کسی اعلان اور ریلیف کے زمانے سے منتظر تھے مگر جس چیز پر شدت کے ساتھ سیاسی حلقے اور زرعی شعبے کے ماہرین زور دے رہے ہیں زرعی پیکیج پر مکمل شفافیت کے ساتھ بروقت عمل درآمد ہے ۔
وزیراعظم نے منگل کو اسلام آباد میں کنونشن سینٹر میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے پیکیج کا اعلان کیا جو زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلی اور دہقانوں کو درپیش مسائل کے حل ، منڈی کی مثبت حرکیات اور کسانوں کی زندگی میں تبدیلی کی نوید لے کر آئے تب ہی اس حکومتی پیشکش کی افادیت سامنے آئیگی۔
تاہم ملکی زراعت کے تاریخی عروج و زوال کے حوالے سے زرعی ریلیف پر مبنی پیکیج کی اہمیت ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی و رونما ہونے والے استحکام کی روشنی میں ہمہ گیر ہے اور اگر اس پر حکومتی مشینری اور زرعی شعبہ سے وابستہ ارباب بست و کشاد نے تن دہی سے عملدرآمد کرایا تو ملک میں زرعی شعبہ کی ترقی اور کسانوں کی حالت میں یقیناً بنیادی تبدیلی لائی جا سکے گی مگر شرط یہ ہے کہ ریلیف نوکر شاہی کی فائلوں اور زراعت کو نئی زندگی عطا کرنے کے سطحی وعدوں اور نعروں یا دفتری کاغذوں کے انبار میں گم نہ ہو ۔
کیونکہ ہمارے زرعی شعبہ کو صنعتی ترقی ، سرمایہ داری اور استحصالی اقتصادی نظام کی بالادستی اور کاروباری اور تجارتی مسابقت میں جس بیدردی سے آسمان سے اٹھا کر زمین کی پستیوں میں پھینکا گیا ہے وہ کسانوں کی غربت ، پسماندگی اور بڑے زمیں داروں ، جاگیرداروں ، سیاسی اشرافیہ اور آڑھتیوں کی اجارہ داری کے آئینہ میں ایک دلگداز داستان کی طرح ہے جس میں کسانوں کے دکھ درد اور ان کے ٹوٹے اور بکھرے خواب نمایاں ہیں۔ ارباب اختیار کو تسلیم کرنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی معیشت زرعی شعبے کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کسان زرعی تاریخ کا اہم انفرادی کردار ہے۔
اس کے تمدن اور تہذیب پر کئی احسانات ہیں، اسی طبقہ نے پاکستان کی سیاسی اساس کو سماجی ، معاشی اور زرعی شناخت اور طاقت عطا کی ہے، روٹی روزگار کا ابتدائی تصور زرعی شعبہ سے وابستہ ہے اور کسانوں کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے جتنا بھی ہوسکتا ہے حکومت کو کرنا چاہیے، پیکیج تو ایک فوری پیشکش ہے جب کہ ملکی زرعی نظام اور زرعی معیشت کے استحکام کو ریاستی اسٹرٹیجی میں اولیت ملنی چاہیے۔
کسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کے چار حصے ہیں۔ پہلا حصہ براہ راست مالی تعاون کا ہے، دوسرا حصہ پیداواری لاگت کو کم کرنے کا ہے، تیسرا حصہ زرعی قرضوں کی فراہمی کا ہے اور آخری حصہ قرضے کے حصول کو آسان بنانے کے لیے ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لیے 20 ارب روپے کا فنڈ قائم کر رہی ہے ۔
پیکیج سے پاکستان بھر میں کسانوں، خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو147ارب روپے کا براہ راست فائدہ ہوگا، وزیراعظم نے کہا کہ ایک وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر کے لیڈروں کے فون آرہے تھے دھماکے نہ کریں، جب ان کی بات نہ مانی تو5 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی پیشکش کی گئی، بلاشبہ یہ موازنہ مناسب اور باجواز ہے تاہم حکومتی پیکیج کی لاج رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کسان ریاستی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ترجیح بن جائیں۔
وزیراعظم نے اس اندیشے کا بھی ذکر کیا کہ بہت سے لوگ ریلیف پیکیج سے خوش نہیں، وہ نہیں چاہتے کہ کسانوں کی خدمت کی جائے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نوازشریف کو نکالاجائے اور ہمیں لایا جائے، تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ کراچی آپریشن ہو' بجلی بحران و گیس کی قلت پر قابو پانا یا سڑکوں کی تعمیر اور کسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان ہو، یہ ذمے داری ہم نے محسوس کی ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 341 ارب روپے کے تاریخ ساز ریلیف پیکیج کا اعلان کر کے کاشتکاروں اور کسانوں کو ان کا حق دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتی کسان پیکیج کے حوالے سے جو ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے وہ حکومت کو باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ اس پر عمل درآمد میں ماضی جیسی کوئی کوتاہی یا وعدہ خلافی نہیں ہونی چاہیے، کسان تنظیموں، دہقانوں کے رہنماؤں اور سیاسی مین اسٹریم سے پیکیج پر جو تبصرے آرہے ہیں۔
وہ زرعی شعبہ کی تقدیر بدلنے کے لیے ایک گریٹر ڈائیلاگ کی سمت جاتے نظر آتے ہیں، پیکیج اچھا ہے، اگر بعض سیاسی رہنما اسے پری پول رگنگ سے تعبیر کرتے ہیں تو حکومت اس تاثر کو مٹانے کی مثبت کوشش کرے، سوئیڈن کے عالمی شہر یافتہ معاشی فلسفی گنار مرڈال نے اپنی عہد آفریں کتاب ''ایشین ڈراما '' میں کہا تھا کہ زرعی شعبہ ہی وہ میدان ہے جہاں طویل المدتی اقتصادی ترقی کی جنگ جیتی یا ہاری جاسکتی ہے۔
زرعی پیکیج بلاشبہ سیاسی تالاب میں ارتعاش پیدا کرچکا ہے، ملک کی زرعی معیشت ، اجتماعی پسماندگی اور مصائب کا شکار دیہی عوام ایسے کسی اعلان اور ریلیف کے زمانے سے منتظر تھے مگر جس چیز پر شدت کے ساتھ سیاسی حلقے اور زرعی شعبے کے ماہرین زور دے رہے ہیں زرعی پیکیج پر مکمل شفافیت کے ساتھ بروقت عمل درآمد ہے ۔
وزیراعظم نے منگل کو اسلام آباد میں کنونشن سینٹر میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے پیکیج کا اعلان کیا جو زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلی اور دہقانوں کو درپیش مسائل کے حل ، منڈی کی مثبت حرکیات اور کسانوں کی زندگی میں تبدیلی کی نوید لے کر آئے تب ہی اس حکومتی پیشکش کی افادیت سامنے آئیگی۔
تاہم ملکی زراعت کے تاریخی عروج و زوال کے حوالے سے زرعی ریلیف پر مبنی پیکیج کی اہمیت ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی و رونما ہونے والے استحکام کی روشنی میں ہمہ گیر ہے اور اگر اس پر حکومتی مشینری اور زرعی شعبہ سے وابستہ ارباب بست و کشاد نے تن دہی سے عملدرآمد کرایا تو ملک میں زرعی شعبہ کی ترقی اور کسانوں کی حالت میں یقیناً بنیادی تبدیلی لائی جا سکے گی مگر شرط یہ ہے کہ ریلیف نوکر شاہی کی فائلوں اور زراعت کو نئی زندگی عطا کرنے کے سطحی وعدوں اور نعروں یا دفتری کاغذوں کے انبار میں گم نہ ہو ۔
کیونکہ ہمارے زرعی شعبہ کو صنعتی ترقی ، سرمایہ داری اور استحصالی اقتصادی نظام کی بالادستی اور کاروباری اور تجارتی مسابقت میں جس بیدردی سے آسمان سے اٹھا کر زمین کی پستیوں میں پھینکا گیا ہے وہ کسانوں کی غربت ، پسماندگی اور بڑے زمیں داروں ، جاگیرداروں ، سیاسی اشرافیہ اور آڑھتیوں کی اجارہ داری کے آئینہ میں ایک دلگداز داستان کی طرح ہے جس میں کسانوں کے دکھ درد اور ان کے ٹوٹے اور بکھرے خواب نمایاں ہیں۔ ارباب اختیار کو تسلیم کرنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی معیشت زرعی شعبے کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کسان زرعی تاریخ کا اہم انفرادی کردار ہے۔
اس کے تمدن اور تہذیب پر کئی احسانات ہیں، اسی طبقہ نے پاکستان کی سیاسی اساس کو سماجی ، معاشی اور زرعی شناخت اور طاقت عطا کی ہے، روٹی روزگار کا ابتدائی تصور زرعی شعبہ سے وابستہ ہے اور کسانوں کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے جتنا بھی ہوسکتا ہے حکومت کو کرنا چاہیے، پیکیج تو ایک فوری پیشکش ہے جب کہ ملکی زرعی نظام اور زرعی معیشت کے استحکام کو ریاستی اسٹرٹیجی میں اولیت ملنی چاہیے۔
کسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کے چار حصے ہیں۔ پہلا حصہ براہ راست مالی تعاون کا ہے، دوسرا حصہ پیداواری لاگت کو کم کرنے کا ہے، تیسرا حصہ زرعی قرضوں کی فراہمی کا ہے اور آخری حصہ قرضے کے حصول کو آسان بنانے کے لیے ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لیے 20 ارب روپے کا فنڈ قائم کر رہی ہے ۔
پیکیج سے پاکستان بھر میں کسانوں، خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو147ارب روپے کا براہ راست فائدہ ہوگا، وزیراعظم نے کہا کہ ایک وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر کے لیڈروں کے فون آرہے تھے دھماکے نہ کریں، جب ان کی بات نہ مانی تو5 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی پیشکش کی گئی، بلاشبہ یہ موازنہ مناسب اور باجواز ہے تاہم حکومتی پیکیج کی لاج رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کسان ریاستی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ترجیح بن جائیں۔
وزیراعظم نے اس اندیشے کا بھی ذکر کیا کہ بہت سے لوگ ریلیف پیکیج سے خوش نہیں، وہ نہیں چاہتے کہ کسانوں کی خدمت کی جائے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نوازشریف کو نکالاجائے اور ہمیں لایا جائے، تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ کراچی آپریشن ہو' بجلی بحران و گیس کی قلت پر قابو پانا یا سڑکوں کی تعمیر اور کسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان ہو، یہ ذمے داری ہم نے محسوس کی ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 341 ارب روپے کے تاریخ ساز ریلیف پیکیج کا اعلان کر کے کاشتکاروں اور کسانوں کو ان کا حق دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومتی کسان پیکیج کے حوالے سے جو ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے وہ حکومت کو باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ اس پر عمل درآمد میں ماضی جیسی کوئی کوتاہی یا وعدہ خلافی نہیں ہونی چاہیے، کسان تنظیموں، دہقانوں کے رہنماؤں اور سیاسی مین اسٹریم سے پیکیج پر جو تبصرے آرہے ہیں۔
وہ زرعی شعبہ کی تقدیر بدلنے کے لیے ایک گریٹر ڈائیلاگ کی سمت جاتے نظر آتے ہیں، پیکیج اچھا ہے، اگر بعض سیاسی رہنما اسے پری پول رگنگ سے تعبیر کرتے ہیں تو حکومت اس تاثر کو مٹانے کی مثبت کوشش کرے، سوئیڈن کے عالمی شہر یافتہ معاشی فلسفی گنار مرڈال نے اپنی عہد آفریں کتاب ''ایشین ڈراما '' میں کہا تھا کہ زرعی شعبہ ہی وہ میدان ہے جہاں طویل المدتی اقتصادی ترقی کی جنگ جیتی یا ہاری جاسکتی ہے۔