احمد شناس اور احمد سوز
میرے نزدیک بہتر اور ساز گار حالات کی موجودگی کی صورت میں یہ دوست کہیں زیادہ بہتر شاعری کرنے کے اہل تھے اور ہیں۔
انفرمیشن کے ذرایع کے اس قدر فروغ اور پھیلاؤ کے باوجود بھارت اور پاکستان جیسے دو بہت قریبی ہمسایہ ملک ایک دوسرے کے عوام اور اہل فکر و نظر کے جذبات خیالات اور حالات سے بہت کم واقف ہیں کہ میڈیا پر صرف چند مخصوص موضوعات پر اپنے اپنے ''سرکاری'' اور ''قومی'' نقطہ نظر سے بات کی جاتی ہے جس کا سچ جزوی بھی ہوتا ہے اور کسی حد تک متنازعہ بھی، سو ایسے میں اگر وہاں کے جدید ادب اور ادبی رجحانات سے متعلق کوئی اچھی کتاب یا تحریر ہاتھ آ جائے تو معاملات حیات کی ایک ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو مشاعراتی شاعری اور میڈیائی بیانات سے بہت مختلف اور زیادہ سچی ہوتی ہے۔
اسی حوالے سے بہت دنوں سے میں مقبوضہ جموں کشمیر کے شاعر احمد شناس اور ممبئی میں مقیم سینئر شاعر احمد سوز کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر دیگر موضوعات کے دباؤ کی وجہ سے موقع نہیں نکل رہا تھا سو آج اس جان پر رکھے ہوئے قرض کو چکانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ان دونوں کی شاعری میں پیرایہ اظہار کے فرق کے باوجود فکری سطح پر ایک اشتراک کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور احمد شناس صاحب کا ''پس آشکار'' کے بعد یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ''صلصال'' کے ایک قدرے نامانوس مگر بہت معنی خیز نام سے شایع ہوا ہے جب کہ احمد سوز سے میری باقاعدہ ملاقات چند ماہ قبل فیس بک فرینڈ شپ کے حوالے سے ہوئی اور ان کا کلام میں ابھی تک کتابی صورت میں نہیں دیکھ سکا البتہ ان دونوں کو پڑھ کر یہ حیرت دو چند ہوجاتی ہے کہ بھارتی ادبی' بالخصوص مشاعروں کی سطح پر جن احباب کے نام اکثر دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں۔
ان میں اس طرح کے نام نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں یا 80ء کی دہائی تک فراق گورکھ پوری، اخترالایمان ' علی سردار جعفری' کیفی اعظمی' ساحر لدھیانوی' مجروح سلطانپوری'شہریار' عرفان صدیقی' داراب بانو وفا، شعری حیدر آبادی اور جمیل مظہری سمیت کئی اہم اردو شاعر کتاب اور مشاعرہ دونوں سطحوں پر نمایاں نظر آتے تھے مگر پھر مشاعرے کی فوری داد کا طالب مزاج حاوی ہوتا چلا گیا اور آج کے بہت سے اچھے شاعروں کو بھی اس کی رو میں بہنا پڑ گیا اور وہ اس دباؤ سے مجبور ہو کر یک رخی اور یک سطحی شاعری کرنے لگے یہ فہرست بہت لمبی ہے محض مثال کے طور پر بشیر بدر' وسیم بریلوی' منور رانا' اظہر عنائتی اور ندا فاصلی کے نام لیے جا سکتے ہیں کہ میرے نزدیک بہتر اور ساز گار حالات کی موجودگی کی صورت میں یہ دوست کہیں زیادہ بہتر شاعری کرنے کے اہل تھے اور ہیں۔
آئیے اب پہلے احمد شناس کے مجموعے ''صلصال'' کے کچھ منتخب اشعار پر نظر ڈالتے ہیں جن میں تصوف کے حوالے سے ''موجود'' کی غایت اور ''مابعد'' کی ہئیت کے بارے میں بہت سادگی سے کئی فکر انگیز سوال اٹھائے گئے ہیں لیکن اس ''عالم گیر'' حیرت کے اظہار میں عام طور پر شعریت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ سادگی یا موضوع کی رعایت سے استعاراتی پیچیدگی ضرور در آتی ہے مگر اس نواح میں ایسا اکثر ہو جاتا ہے کہ اس شہادت گہہ الفت میں بڑے بڑوں کے قدم بھی شروع شروع میں ایسے ہی پڑتے دیکھے گئے ہیں
صبح وجود ہوں کہ شب انتظار ہوں
میں آشکار ہوں کہ پس آشکار ہوں
کیسے کھڑا ہوں' کس کے سہارے کھڑا ہوں میں!
اپنا یقین ہوں کہ ترا اعتبار ہوں
زندہ انساں اسے آباد کیا کرتے ہیں
گھر کسی خواب سے معمور نہیں ہو سکتا
اسی کی چاہت' اسی کی حسرت' پروں سے لپٹی ہوئی ہے میرے
اڑان بھرنے لگوں توگردوغبار مٹی کا بولتا ہے
بدل کے دیکھو کبھی نسبتوں کی دنیا کو
بدن کو روح کے خانے میں ڈال کر دیکھ
امروز کی کشتی کوڈبونے کے لیے ہوں
کل اور کسی رنگ میں ہونے کے لیے ہوں
کیا خبر مجھ کو کتابوں میں ہے کیا لکھا ہوا
باندھ رکھا ہے مجھے ملا نے افواہوں کے ساتھ
ہے واہموں کا تماشا مہماں وہاں دیکھو
ہمارے پاس مکمل خدا کہاں دیکھو
یہ دنیا ایک لمحے کا تماشا
نہ جانے دوسرا لمحہ کدھر ہے
ریت کی چادر اوڑھ کے سویا
دریاؤں پر چلنے والا
یہ مکاں کہ دیکھنے میں بند ہے
کھولیے تو ہیں ہزاروں کھڑکیاں
اشعار تو اور بھی بہت سے درج کیے جا سکتے ہیں لیکن گنجائش کی کمی کی وجہ سے اب میں احمد سوز کی طرف آتا ہوں ان کی شاعری میں لہجے کی بو قلمونیوں کے ساتھ ساتھ ہلکے طنز کا ایک ایسا رنگ ہے جو کہیں کہیں بہت گہرا بھی ہو جاتا ہے ان کی غزلوں میں روایت پرستی اور روایت شکنی کے دونوں رویے ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ان کی ایک تازہ غزل دیکھئے جس میں یہ دونوں رنگ نمایاں ہیں یہ بات آپ کو قدرے بدلی ہوئی شکلوں میں نظیر اکبر آبادی' اکبر الہ آبادی' یگانہ چنگیزی' شاد عارفی' مظفر حنفی' ظفر اقبال اور پروین کمار اشک کے ہاں بھی نظر آئے گی مگر وہاں اس طرح کے پیرائے شائد کم نظر آئیں کہ
دوست دشمن سے ہو گئے ہیں مجھے
جو نہیں میں' وہ سوچتے ہیں مجھے
میتھامیٹکس سے میں ہوں نا واقف
اس لیے لوگ چھل رہے ہیں مجھے
ہم سے کل شب نہ چھپایا گیا سر تک اپنا
جسم تڑپا کیا سردی سے سحر تک اپنا
ایک وہ لاشے کہ تعمیر ہوئے جن پہ محل
ایک ہم ہیں کہ بنا ہم سے نہ گھر تک اپنا
لگا کے پنکھ اڑے جا رہے ہیں روز و شب
نہیں ہے وقت ابھی حال دل سنانے کا
اور اب آخر میں ایک مکمل غزل لیکن اس سے پہلے ایک دلچسپ اور عجیب بات جو مجھے احمد سوز کے پروفائل سے معلوم ہوئی کہ یہ اپنے طرز کی مختلف اور کٹیلی غزلیں زیادہ تر طرحی مشاعروں کے لیے لکھی گئی ہیں جب کہ ان کا مزاج طرحی مشاعروں کے سراسر خلاف ہے۔ غزل دیکھیے
مسلسل جنگ سی ہے
یہ کیسی زندگی ہے!
ہماری انگلیوں کی
یہ سب جادوگری ہے
بدل جاتے ہیں پیکر
مگر انساں وہی ہے
نہ کھونے کا کوئی غم
نہ ہونے کی خوشی ہے
ابھی تک صفر ہیں ہم
ابھی تک سب خفی ہے
نہیں سنتی کسی کی
تمنا سر پھری ہے