شہروں کا عروج و زوال
بحرین ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ ہے، جس کی آبادی 5 یا 6 لاکھ ہو گی
بحرین ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ ہے، جس کی آبادی 5 یا 6 لاکھ ہو گی، 50 فی صد مقامی لوگ ہیں۔ تعلیم، خصوصاً خواتین کی تعلیم عام ہے۔ اگر گاڑی میں بیٹھ کر آپ گھومنے نکلیں، تو بحرین کی لمبائی میں ایک گھنٹہ اور چوڑائی میں آدھے گھنٹے میں چکر لگا کر واپس آ سکتے ہیں، بحرین کی تاریخ نہایت قدیم ہے، جس طرح ہمارے ہاں موئن جو داڑو ہے۔
اسے دلمون تہذیب کہتے ہیں۔ وہاں تیل کے کنوئیں بھی ہیں اور دنیا بھر کے ملکوں کی بینک شاخیں بھی، جن میں روایتی بینکنگ کے علاوہ off shore banking بھی ہوتی تھی۔ پاکستان سے یونائیٹڈ بینک (یو بی ایل) کی 3 شاخیں تھیں اور حبیب اور نیشنل بینک کی off shore برانچیں ہوتی تھیں۔ روایتی بینک بحرین کی کرنسی میں کام کرتے ہیں اور off shore برانچیں دنیا بھر کی باقی کرنسیوں میں کام کرتی ہیں۔ راقم کو یو بی ایل کے جنرل منیجر کے طور پر کام کرنے کا شرف ملا۔
وہاں جا کر پہلا کام جو کیا وہ یہ تاریخی مقام دیکھنا تھا۔ ان میں ایک life of Tree بھی تھا۔ لیکن ایسے درخت تو ہمارے ملک میں عام ہوتے ہیں۔ البتہ بحرین کے صحرائی جزیرہ کے لیے ایک بڑے درخت کا ہونا بڑی بات ہے۔
مجھے وہاں سندھ کے ہندو بیوپاریوں سے ملاقات کا موقعہ ملا، جن کے آباو اجداد 200 سال پہلے ٹھٹھہ سے موتیوں کے بیوپار کے سلسلے میں وہاں آ کر آباد ہوئے۔ حیدرآباد کے ایک مشہور حکیم صاحب جو میرے بھی دوست ہیں، وہاں موتی خریدنے کے لیے آئے تھے۔
1932ء میں بحرین میں پہلا تیل کا کنواں دریافت ہوا تھا۔ تیل کے کنویں ہمارے ملک میں ہینڈ پمپ کی طرح ہوتے ہیں جو بجلی پر چلتے ہیں۔ تیل صاف کرنے لیے وہاں ایک ریفائنری بھی ہے۔
بحرین ایک خوبصورت ملک بھی ہے اور شہر بھی۔ وہ پورا جزیرہ ہے، چاروں طرف سمندر ہے اور شہر اس لیے کہ وہی دارالحکومت ہے اور وہ ہی پورا شہر ہے۔ ویسے شہر کے ایک علاقے منامہ کو اس کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔
منامہ کا عربی ترجمہ ہے جہاں نیند آئے اور سکون ملے۔ بحرین اور سعودی عرب کے درمیان سمندر پر بنا ہوا ایک پل ہے، جس کو Causeway کہا جاتا ہے، جو 25 کلو میٹر لمبا ہے، آدھا ایک ملک کے علاقے میں اور آدھا دوسرے ملک کے علاقے میں۔ میرے ایک جاننے والے پاکستانی دوست ہر ہفتے اور بدھ کی شام اپنی نوکری کا وقت ختم کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جا کر جمعے کی شام کو واپس آتے تھے، جو کہ تقریبا 4000 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
بدقسمتی سے وہاں بھی 1990ء کی دہائی میں کچھ بے چینی شروع ہوئی، جس کی وجہ سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا رجحان متحدہ عرب امارات، خصوصاً دبئی کی طرف ہو گیا۔
ویسے تو پورا متحدہ عرب امارات ہی خوبصورت ہے، جس کی 7 ریاستیں ہیں، لیکن عام طور پر لوگ دبئی کو ہی زیادہ جانتے ہیں۔ دبئی کے حکمران ہز ہائی نیس شیخ محمد بن راشد المکتوم تو اپنی ریاست سے اتنا عشق کرتے ہیں، جتنا کوئی عاشق اپنے معشوق سے کرتا ہے۔ اس کا مشن ہے کہ دنیا کی جو بھی کوئی بڑی چیز ہو، دبئی میں اس سے بھی بڑی چیز ہو، جس کی مثال برج العرب ہے۔
لیکن وہ صاحب چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی اتنا ہی خیال کرتے ہیں۔ وہ اکثر اپنا روایتی عربی لباس چھوڑ کر دوسرا لباس پہن کر ٹیکسیوں میں بطور مسافر سفر کرتے ہیں اور ڈرائیوروں سے ملک کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کبھی صبح سویرے کسی اسپتال میں جا کر دیکھتے ہیں کہ آیا ڈاکٹر صاحبان وقت پر پہنچتے ہیں یا نہیں۔ اس طرح اور بھی ایسے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔
ویسے متحدہ عرب امارات کی ساتوں ریاستوں کے حکمران اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں۔ ان سے ملنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ وہ روزانہ صبح کے وقت اپنے دیوانِ امیری میں بیٹھتے ہیں، جہاں نا صرف ان کے اپنے لوگ، بلکہ ریاست میں رہنے والے دیگر ممالک کے لوگ بھی، ان سے بلا روک ٹوک کے مل سکتے ہیں۔ وہاں کوئی پولیس والا یا گارڈ گیٹ پر کھڑا نہیں ہوتا۔
عدالتوں میں قاضی صاحبان سادہ لباس میں آتے ہیں، بغیر کسی طمطراق کے۔ ان کے ساتھ کوئی اردلی وغیرہ نہیں ہوتا۔ وہ صاحبان مقدمے چلانے کے وقفوں کے دوران باہر نکل کر راہداریوں میں کھڑے لوگوں سے دریافت کرتے ہیں اور ماتحتوں سے ان کے مقدمات میں دیر کی وجوہات پوچھتے ہیں اور ان کا ازالہ کرتے ہیں۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ ایک رات میں ام القوین ریاست کی ایک مسجد میں ایک دوست کے ساتھ عشا کی نماز پڑھنے گیا۔ جماعت کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ صف میں میرے برابر وہاں کے حکمران نے نماز ادا کی اور اس کے بعد اٹھ کر چلا گیا۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے کہا مسجد کے باہر نا تو کوئی ایسی گاڑی نظر آئی، نا تو کوئی پولیس والا اور نا ہی کوئی گارڈ نظر آیا، جس سے معلوم ہوکہ اتنا بڑا آدمی نماز پڑھنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ اور نا ہی لوگ اس کے ارد گرد جا کر جمع ہوئے، جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی بھولے سے جمعے کی نماز پڑھنے آ جائے تو لوگ اس کے چاروں طرف مصافحہ کرنے، ہاتھ چومنے یا پاؤں چھونے کو جمع ہو جاتے ہیں۔
صحت عامہ، مثلا صفائی، صاف پینے کا پانی وغیرہ کی طرف بہت توجہ کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری پائپ لائنوں سے خواہ ٹینکروں سے گندہ پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ نام کو بتایا جاتا ہے کہ پانی میں کلورین ڈالی جاتی ہے، جس کا اندراج سرکاری بہی کھاتوں میں تو دکھایا جاتا ہے لیکن اصل میں وہ نہیں ڈالی جاتی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ نیگلیریا کی بیماری سے اموات ہو رہی ہیں، جب کہ وہاں نلکوں میں آنے والا پانی بھی اتنا صاف اور شفاف ہوتا ہے کہ پینے کو جی چاہتا ہے، لیکن وہ پانی پینے کی ممانعت کی جاتی ہے۔ نلکوں کے پانی کے سلسلے میں مرحوم رنگیلے کا ایک ڈائیلاگ جو بہت مشہور ہوا، وہ تھا، میں نے ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہوا ہے۔
اب آتے ہیں اپنے پیارے کراچی کی طرف۔ کراچی کا دن 11 بجے نکلتا تھا، کیونکہ تب تک بادل چھائے ہوئے ہوتے تھے۔ آدھی رات کے بعد فلم کا دوسرا شو دیکھ کر لوگ خراماں خراماں گاڑیوں، بسوں، ٹیکسیوں، رکشاؤں اور تانگوں (گھوڑے گاڑیوں) میں اور پیدل گھومتے گھامتے ہوئے گھر پہنچتے تھے۔ تھوڑے کچھ شوقین کچھ ہوٹلوں میں شو دیکھنے کے لیے 10 بجے کے بعد ہی بن ٹھن کے گھر سے نکلتے تھے اور تین چار بجے گھر لوٹتے تھے۔
ڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی (موٹر سائیکل شاذ و نادر ہی کسی کے پاس ہوتی تھی اور اگر ہوتی بھی تھی تو صرف اپنے سفرکے لیے، لوگوں سے پیسے لوٹنے کے لیے نہیں۔ ڈبل سواری بھی ہوتی تھی تو دوسرے آدمی کے پاس پستول نہیں ہوتا تھا۔ گو کہ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے، پیسے تو لوگوں کے جیبوں میں ہوتے تھے اور وہ تو لوٹے جا سکتے تھے، لیکن ایسا بھی نہیں تھا۔ اب تو ڈبل نہیں ٹرپل سواری چل رہی ہے۔ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں مسلح ہوتے ہیں۔
کاش اگر کسی کے سمجھ میں یہ بات آئے کہ ایک سال کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگا کر دیکھی جائے اور اس پر مکمل عمل بھی کرایا جائے، تو اس کے نتائج خود بہ خود سامنے آ جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل غریبوں کی سواری ہے۔ چلو یہ بات مان بھی لیں، لیکن جس گھر میں ڈبل یا ٹرپل سواری کے نشانے سے کسی گھر میں اچانک کسی پیارے کی لاش پہنچتی ہو گی، تو اس گھر کا کیا حال ہوتا ہو گا، کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے۔؟
اسے دلمون تہذیب کہتے ہیں۔ وہاں تیل کے کنوئیں بھی ہیں اور دنیا بھر کے ملکوں کی بینک شاخیں بھی، جن میں روایتی بینکنگ کے علاوہ off shore banking بھی ہوتی تھی۔ پاکستان سے یونائیٹڈ بینک (یو بی ایل) کی 3 شاخیں تھیں اور حبیب اور نیشنل بینک کی off shore برانچیں ہوتی تھیں۔ روایتی بینک بحرین کی کرنسی میں کام کرتے ہیں اور off shore برانچیں دنیا بھر کی باقی کرنسیوں میں کام کرتی ہیں۔ راقم کو یو بی ایل کے جنرل منیجر کے طور پر کام کرنے کا شرف ملا۔
وہاں جا کر پہلا کام جو کیا وہ یہ تاریخی مقام دیکھنا تھا۔ ان میں ایک life of Tree بھی تھا۔ لیکن ایسے درخت تو ہمارے ملک میں عام ہوتے ہیں۔ البتہ بحرین کے صحرائی جزیرہ کے لیے ایک بڑے درخت کا ہونا بڑی بات ہے۔
مجھے وہاں سندھ کے ہندو بیوپاریوں سے ملاقات کا موقعہ ملا، جن کے آباو اجداد 200 سال پہلے ٹھٹھہ سے موتیوں کے بیوپار کے سلسلے میں وہاں آ کر آباد ہوئے۔ حیدرآباد کے ایک مشہور حکیم صاحب جو میرے بھی دوست ہیں، وہاں موتی خریدنے کے لیے آئے تھے۔
1932ء میں بحرین میں پہلا تیل کا کنواں دریافت ہوا تھا۔ تیل کے کنویں ہمارے ملک میں ہینڈ پمپ کی طرح ہوتے ہیں جو بجلی پر چلتے ہیں۔ تیل صاف کرنے لیے وہاں ایک ریفائنری بھی ہے۔
بحرین ایک خوبصورت ملک بھی ہے اور شہر بھی۔ وہ پورا جزیرہ ہے، چاروں طرف سمندر ہے اور شہر اس لیے کہ وہی دارالحکومت ہے اور وہ ہی پورا شہر ہے۔ ویسے شہر کے ایک علاقے منامہ کو اس کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔
منامہ کا عربی ترجمہ ہے جہاں نیند آئے اور سکون ملے۔ بحرین اور سعودی عرب کے درمیان سمندر پر بنا ہوا ایک پل ہے، جس کو Causeway کہا جاتا ہے، جو 25 کلو میٹر لمبا ہے، آدھا ایک ملک کے علاقے میں اور آدھا دوسرے ملک کے علاقے میں۔ میرے ایک جاننے والے پاکستانی دوست ہر ہفتے اور بدھ کی شام اپنی نوکری کا وقت ختم کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جا کر جمعے کی شام کو واپس آتے تھے، جو کہ تقریبا 4000 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
بدقسمتی سے وہاں بھی 1990ء کی دہائی میں کچھ بے چینی شروع ہوئی، جس کی وجہ سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا رجحان متحدہ عرب امارات، خصوصاً دبئی کی طرف ہو گیا۔
ویسے تو پورا متحدہ عرب امارات ہی خوبصورت ہے، جس کی 7 ریاستیں ہیں، لیکن عام طور پر لوگ دبئی کو ہی زیادہ جانتے ہیں۔ دبئی کے حکمران ہز ہائی نیس شیخ محمد بن راشد المکتوم تو اپنی ریاست سے اتنا عشق کرتے ہیں، جتنا کوئی عاشق اپنے معشوق سے کرتا ہے۔ اس کا مشن ہے کہ دنیا کی جو بھی کوئی بڑی چیز ہو، دبئی میں اس سے بھی بڑی چیز ہو، جس کی مثال برج العرب ہے۔
لیکن وہ صاحب چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی اتنا ہی خیال کرتے ہیں۔ وہ اکثر اپنا روایتی عربی لباس چھوڑ کر دوسرا لباس پہن کر ٹیکسیوں میں بطور مسافر سفر کرتے ہیں اور ڈرائیوروں سے ملک کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کبھی صبح سویرے کسی اسپتال میں جا کر دیکھتے ہیں کہ آیا ڈاکٹر صاحبان وقت پر پہنچتے ہیں یا نہیں۔ اس طرح اور بھی ایسے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔
ویسے متحدہ عرب امارات کی ساتوں ریاستوں کے حکمران اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں۔ ان سے ملنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ وہ روزانہ صبح کے وقت اپنے دیوانِ امیری میں بیٹھتے ہیں، جہاں نا صرف ان کے اپنے لوگ، بلکہ ریاست میں رہنے والے دیگر ممالک کے لوگ بھی، ان سے بلا روک ٹوک کے مل سکتے ہیں۔ وہاں کوئی پولیس والا یا گارڈ گیٹ پر کھڑا نہیں ہوتا۔
عدالتوں میں قاضی صاحبان سادہ لباس میں آتے ہیں، بغیر کسی طمطراق کے۔ ان کے ساتھ کوئی اردلی وغیرہ نہیں ہوتا۔ وہ صاحبان مقدمے چلانے کے وقفوں کے دوران باہر نکل کر راہداریوں میں کھڑے لوگوں سے دریافت کرتے ہیں اور ماتحتوں سے ان کے مقدمات میں دیر کی وجوہات پوچھتے ہیں اور ان کا ازالہ کرتے ہیں۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ ایک رات میں ام القوین ریاست کی ایک مسجد میں ایک دوست کے ساتھ عشا کی نماز پڑھنے گیا۔ جماعت کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ صف میں میرے برابر وہاں کے حکمران نے نماز ادا کی اور اس کے بعد اٹھ کر چلا گیا۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے کہا مسجد کے باہر نا تو کوئی ایسی گاڑی نظر آئی، نا تو کوئی پولیس والا اور نا ہی کوئی گارڈ نظر آیا، جس سے معلوم ہوکہ اتنا بڑا آدمی نماز پڑھنے کے لیے آیا ہوا ہے۔ اور نا ہی لوگ اس کے ارد گرد جا کر جمع ہوئے، جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی بھولے سے جمعے کی نماز پڑھنے آ جائے تو لوگ اس کے چاروں طرف مصافحہ کرنے، ہاتھ چومنے یا پاؤں چھونے کو جمع ہو جاتے ہیں۔
صحت عامہ، مثلا صفائی، صاف پینے کا پانی وغیرہ کی طرف بہت توجہ کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری پائپ لائنوں سے خواہ ٹینکروں سے گندہ پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ نام کو بتایا جاتا ہے کہ پانی میں کلورین ڈالی جاتی ہے، جس کا اندراج سرکاری بہی کھاتوں میں تو دکھایا جاتا ہے لیکن اصل میں وہ نہیں ڈالی جاتی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ نیگلیریا کی بیماری سے اموات ہو رہی ہیں، جب کہ وہاں نلکوں میں آنے والا پانی بھی اتنا صاف اور شفاف ہوتا ہے کہ پینے کو جی چاہتا ہے، لیکن وہ پانی پینے کی ممانعت کی جاتی ہے۔ نلکوں کے پانی کے سلسلے میں مرحوم رنگیلے کا ایک ڈائیلاگ جو بہت مشہور ہوا، وہ تھا، میں نے ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہوا ہے۔
اب آتے ہیں اپنے پیارے کراچی کی طرف۔ کراچی کا دن 11 بجے نکلتا تھا، کیونکہ تب تک بادل چھائے ہوئے ہوتے تھے۔ آدھی رات کے بعد فلم کا دوسرا شو دیکھ کر لوگ خراماں خراماں گاڑیوں، بسوں، ٹیکسیوں، رکشاؤں اور تانگوں (گھوڑے گاڑیوں) میں اور پیدل گھومتے گھامتے ہوئے گھر پہنچتے تھے۔ تھوڑے کچھ شوقین کچھ ہوٹلوں میں شو دیکھنے کے لیے 10 بجے کے بعد ہی بن ٹھن کے گھر سے نکلتے تھے اور تین چار بجے گھر لوٹتے تھے۔
ڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی (موٹر سائیکل شاذ و نادر ہی کسی کے پاس ہوتی تھی اور اگر ہوتی بھی تھی تو صرف اپنے سفرکے لیے، لوگوں سے پیسے لوٹنے کے لیے نہیں۔ ڈبل سواری بھی ہوتی تھی تو دوسرے آدمی کے پاس پستول نہیں ہوتا تھا۔ گو کہ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے، پیسے تو لوگوں کے جیبوں میں ہوتے تھے اور وہ تو لوٹے جا سکتے تھے، لیکن ایسا بھی نہیں تھا۔ اب تو ڈبل نہیں ٹرپل سواری چل رہی ہے۔ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں مسلح ہوتے ہیں۔
کاش اگر کسی کے سمجھ میں یہ بات آئے کہ ایک سال کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگا کر دیکھی جائے اور اس پر مکمل عمل بھی کرایا جائے، تو اس کے نتائج خود بہ خود سامنے آ جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل غریبوں کی سواری ہے۔ چلو یہ بات مان بھی لیں، لیکن جس گھر میں ڈبل یا ٹرپل سواری کے نشانے سے کسی گھر میں اچانک کسی پیارے کی لاش پہنچتی ہو گی، تو اس گھر کا کیا حال ہوتا ہو گا، کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے۔؟