ہماری غلطیاں رنگ لا رہی ہیں

افغانستان کے معاملے میں ہمارا معذرت خواہانہ رویہ شروع سے ہی ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔


عثمان دموہی September 16, 2015
[email protected]

PESHAWAR: افغانستان کے معاملے میں ہمارا معذرت خواہانہ رویہ شروع سے ہی ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ بلاشبہ ہم نے افغان عوام کے لیے جتنی قربانیاں دی ہیں کوئی اور قوم نہیں دے سکتی۔

ہم نے افغانستان کی سلامتی اور امن کی خاطر اپنے ملک کو تباہ و برباد کرا لیا ہے، ایک لاکھ سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں اور معیشت کا بھٹہ بیٹھنے کے باوجود بھی افغان حکومت اور طالبان کے مابین مصالحت کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر صد افسوس کہ ہماری قربانیوں اور مخلصی کو پہلے کرزئی نے مذاق سمجھا۔ اس نے ہمارا احسان ماننے کے بجائے ہمیں طالبان کی دہشت گردی کا شریک کار ٹھہرایا۔ بھارت کی شہ پر ہر سطح پر ہمیں بدنام کرنے کی مہم چلائی اس کے بعد جب اشرف غنی نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو یہ امید ہو چلی تھی وہ کرزئی کی طرح بھارت نواز، تنگ نظر اور پاکستان مخالف جذبات سے مغلوب نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کریں گے۔

شروع میں ان کے افغان معاملات کو کرزئی سے مختلف انداز میں دیکھنے کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف نے کابل کا دورہ کیا۔ اشرف غنی نے پاکستانی وفد کا شاندار استقبال کیا۔ دونوں طرف سے خوشگوار ماحول میں مذاکرات ہوئے۔ دونوں نے طالبان کو مشترکہ دشمن قرار دیا اور ان کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس خوشگوار اور مفید ملاقات کے بعد اشرف غنی پاکستان کے دورے پر آئے۔

یہاں انھوں نے پاکستان کے دشمنوں کو افغانستان کا دشمن قرار دیتے ہوئے افغان کاز کے لیے پاکستان کی قربانیوں کو دل کھول کر سراہا ساتھ ہی پاکستان سے مزید تعاون بڑھانے کا اعلان کیا۔ ادھر افغانستان میں موجود پاکستان مخالف لابی اشرف غنی کے اس پاکستان موافق رویے سے تلملا اٹھی۔ اشرف غنی کے پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات نے کرزئی سمیت شمالی اتحاد کے تمام لیڈروں کو سیخ پا کر دیا کیونکہ وہ تو سب مل کر پاکستان مخالف مہم چلا رہے تھے اور اشرف غنی نے ان کی مہم کو الٹ کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ اشرف غنی کو اپنی طرح پاکستان مخالف بنانے کے لیے ''را'' کی مدد سے افغان پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کا ایک سازشی منصوبہ تیار کیا گیا۔ ''را'' پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے پہلے ہی اپنی پارلیمنٹ پر اپنے ہی دہشت گردوں سے حملہ کرا چکی تھی۔

افغان پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران یہ حملہ اتنا خوفناک تھا کہ اشرف غنی بھی دہشت زدہ ہو گئے۔ گرفتاری کے بعد کرائے کے دہشت گردوں نے بیان دیا کہ انھیں آئی ایس آئی نے بھیجا تھا۔ پھر کیا تھا اشرف غنی بھی عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم اور کرزئی جیسا پاکستان مخالف زہر آلود بیانات دینے لگیکہ ''پاکستان سے امن کی بجائے جنگ کے پیغامات آ رہے ہیں۔ افغان صدر کے یہ ریمارکس پاکستان کے احسانوں کا کیا خوب بدلہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی احسان فراموش افغان قیادت کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائی گئی۔ عام افغانوں کی مصیبت اور دکھ درد کے حساب سے ضرور ہماری پالیسی اسلامی اخوت بھائی چارے کے عین مطابق ہے مگر بھارتی اثر و نفوذ میں گرفتار افغان قائدین کی ذہنیت کے حساب سے قطعی غیر منطقی ہے اور سراسر خسارے کا سودا ہے۔ اس سے پہلے بھی افغان قائدین پاکستان کو اپنا دشمن تصور کرتے رہے ہیں۔

1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد افغانستان نے تو پاکستان کے قیام کو ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔ کبھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو کبھی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو علیحدگی پر اکسایا۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو افغان قیادت روس کی ہمنوا بن گئی امریکا کی جانب سے افغان عوام کو روس کی جارحیت سے آزاد کروانے کا غصہ پاکستان پر اتارا گیا۔ پاکستان کے کئی شہروں میں 'خاد'' کے ایجنٹوں سے دھماکے کرائے گئے، مگر یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانوں کو روسی غلامی سے نجات دلائی تھی۔ پھر طالبان کا زمانہ آیا۔ ان کی خاطر ہم نے شمالی اتحاد والوں سے دشمنی مول لی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ ایک طرف طالبان پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب شمالی اتحاد والے بھارت سے مل کر پاکستان پر مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں۔ اب اس وقت بھی افغانستان میں پاکستان دشمنی عروج پر ہے۔

پاکستان کے خلاف روز ہی مظاہرے کرائے جا رہے ہیں پاکستانی پرچم نذر آتش اور بھارتی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرانے اور بھارتی اشیا کو ترجیح دیے جانے کی مہم سرکاری سرپرستی میں زور دار طریقے سے جاری ہے۔ پاکستانی مزدوروں کو فارغ کیا جا رہا ہے پاکستانی تاجروں کو ویزے کا حصول مشکل بنایا جا رہا ہے کراچی بندرگاہ کے ذریعے سامان امپورٹ کرنے کے بجائے ایرانی بندرگاہوں کو ترجیح دی جا رہی ہے پھر سب سے بڑھ کر پاکستانی سفارتی عملے کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ چکی ہے انھیں جان سے مارنے اور اغوا کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں چنانچہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں خلل پڑ رہا ہے اور وہ سفارت خانے کے کمپاؤنڈ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

افغان حکومت سب کچھ دیکھ رہی ہے مگر اس کے تدارک کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جا رہا دراصل یہ شدید ترین پاکستان دشمنی ہماری ہی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کاش کہ ہم نے افغان قائدین کو اپنے احسانات کا شروع سے احساس دلایا ہوتا اور انھیں ان کی اوقات میں رکھا ہوتا پھر سب سے بڑھ کر جب امریکا نے افغانستان پر حملے کے وقت طالبان کے خلاف ہماری مدد مانگی تھی کاش کہ ہم نے بھارت کو افغانستان سے دور رکھنے کی شرط منوا لی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس وقت افغان قیادت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے اور ان کے ہاں دہشت گردی پاکستان سے آئی ہے یہ بات حقائق کو مسخ کرنے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

دراصل افغان قیادت کا دماغ خراب کرنے میں ایک طرف بھارت کا ہاتھ ہے تو دوسری جانب امریکی حکومت کے بعض عہدیدار بھی اس میں ملوث ہیں۔ جب ہیلری کلنٹن امریکی وزیر خارجہ تھیں طالبان کو ٹھکانے لگانے کی تمام تر ذمے داری پاکستان پر ڈال دی گئی تھی پاکستان کو ہر وقت ڈو مور کا حکم دیا جاتا تھا جب کہ افغانستان میں جہاں طالبان کا اصل ٹھکانہ ہے وہاں کی قیادت اور نیٹو کے فوجی افسروں کو کبھی ڈو مور کا حکم جاری نہیں کیا۔ ڈو مور کے حکم نے دراصل پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کیا پھر یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا کہ طالبان اور پاکستان میں باہمی گٹھ جوڑ قائم ہے۔ اس مغربی تاثر نے افغان قیادت کا بھی دماغ خراب کر دیا اور وہ پاکستان کو غیر اہم خیال کرنے لگے۔

کرزئی تو پہلے ہی بھارت کی شہ پر پاکستان مخالف مہم چلا رہا تھا پاکستان کے خلاف ماحول پا کر پاکستان پر کھل کر تنقید کرنے لگا پھر وہ جب تک صدارت کے عہدے پر فائز رہا پاکستان کو بدنام کرتا رہا اور بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے بھرپور تعاون دراز کرتا رہا، بھارت بھی موقع غنیمت جان کر دل کھول کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا اور اب اشرف غنی کے دور میں بھی وہ اپنا الو سیدھا کر رہا ہے چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی پر غور و خوض کرے کیونکہ پاکستان کی نیکی بدی میں تبدیل ہو چکی ہے۔

مغربی ممالک میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے یہ تاثر کہیں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہے کہ ہم طالبان کو مصالحت کی میز پر لانے کے ہمیشہ دعویدار رہے ہیں جس سے ہماری طالبان سے قربت ظاہر ہو رہی ہے۔ اب جب کہ ملک میں طالبان کے خلاف بلاامتیاز ضرب عضب آپریشن جاری ہے تو پھر ہماری طالبان سے قربت کیا معنی رکھتی ہے؟ وزارت خارجہ کو اس پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں