17ستمبر… عہد تجدیدِ وفا کا دن
بلاشبہ اس وصف کا مقابلہ آج تک ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین میں سے کوئی نہ کر سکا
یہ 1953ء کی بات ہے کہ جب آگرہ کے مفتی اور جید عالمِ دین محمد رمضان کے بیٹے نذیر حسین کے گھر 17 ستمبر کو ایک ایسے لائق فرزند نے جنم لیا جن کے بارے میں کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ وہ خورشید بیگم جیسی بلند اوصاف و کردار کی مالک کی سادہ پرورش اور مذہبی و اخلاقی بنیادوں پر دی گئی اعلیٰ تربیت کا حق اس طرح ادا کریں گے کہ ایک دن ملک بھر کے غریب و متوسط طبقے کی نمایندگی کرنے والے مخلص اور سچے رہنما بن کر دنیا بھر کے سامنے اپنی بے باک اور نڈر قیادت کا لوہا منوائیں گے جب کہ ان کی سیاست کا محور اور طاقت کا سرچشمہ حق اور سچ کی آواز بلند کر کے ملک میں برسوں سے موجود ظالمانہ اور فرسودہ جاگیردارانہ نظام کی مکروہ بساط کو لپیٹ کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانا ہو گا۔
ایم کیوایم کے قائد کی قد آور شخصیت، ان کی سیاسی اور سماجی جدوجہد اپنے مقصد اور تحریک سے ان کی گہری جذباتی و نظریاتی وابستگی، 98 فی صد عوام کے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے دی گئی ان کی لازوال قربانیاں جس میں خود ان کے بھائی اور جواں سال بھتیجے کی شہادت، قید و بند کی مصیبتیں اور بائیس سالہ جلاوطنی کا عذاب بھی شامل ہے لہذا یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دورِ حاضر میں ان جیسا مخلص، محبِ وطن رہنما اور سیاست دان کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت کا سب سے اعلیٰ کمال تو یہ ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے عہدے کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا اور نہ ہی اپنے خاندان کے کسی فرد کے لیے کوئی مراعات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
بلاشبہ اس وصف کا مقابلہ آج تک ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین میں سے کوئی نہ کر سکا۔ ان کی امتیازی شخصیت سے جڑی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ صرف اے پی ایم ایس او کے بانی اور تحریک کے قائد ہی نہیں بلکہ اس جدید و ترقی یافتہ دور کے ایک ایسے دانشور، مفکر، مدبر، فلسفی، صاحب علم و فراست، مستقبل بینی کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال، اعلیٰ انسانی و اخلاقی اور تہذیبی و علمی اقدار کے پیشرو، اتحاد بین المسلمین کے داعی جب کہ اپنے کردار و عمل کے دامن میں صداقت، نفاست، ذہانت، استقامت، دیانت، ظرافت اور انسانیت کے گوہر نایاب سمیٹے، پامردی سے خونی تحریک کی طویل جدوجہد کو نہایت صبر و تحمل، حوصلہ و ہمت اور لازوال قربانیوں کے بل پر جاری رکھنے والے عظیم قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے جو نہ کبھی جھکے نہ بکے ہیں۔
ان کی شخصیت میں سیاست اور سماجی خدمت کے حوالے سے بہت سی روشن اور بے نظیر سچائیاں تاریخ نے اپنے صفحات پر رقم کر رکھی ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد کی جاگیردارانہ اور وڈیرانہ طرزِ سیاست و حکومت کے خلاف دلیرانہ آواز اٹھانے والے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہاجر قوم کو شعور دینے اور ان کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں، ناانصافیوں اور زیاتیوں کو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے اجاگر کرنے والے جب کہ مہاجر قوم کے حقوق غضب کر کے جبراً انھیں ملک کا دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری گردانے والے اس ملک کے اربابِ اختیار و اقتدار اور متعصبانہ سلوک کرنے والی قومتیوں کو حق پرستی کا علم تھام کر نڈر ہو کر للکارنے والے اے پی ایم ایس او کے بانی و چیئرمین اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنا سفر چند ساتھیوں کے ساتھ 11 جون 1978ء کو جامعہ کراچی کی آغوش سے شروع کیا اور پھر قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک کی 98 فی صد عوام کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کی خاطر 26 جولائی 1997ء کو متحدہ قومی موومنٹ بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے لیڈر ہیں جو ہر قسم کی مصلحتوں اور ہر طرح کے تعصب سے بالا تر ہو کر ملک میں موجود تمام قومیتوں کے مظلوم عوام کی داد رسی چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کی 2 فی صد مراعات یافتہ طبقے کو سامنے سے آ کر چیلنج کرنے کی اس جسارت کو 2 فی صد مراعاتی طبقہ جس میں جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار شامل ہیں، نے اپنے خلاف اعلانِ بغاوت تصور کرتے ہوئے قائد تحریک کے خلاف کبھی کھل کر اور کبھی درپردہ سازشوں کا آغاز کر دیا تھا تا کہ اس تحریک کو اور حق پرستی کے پیغام کو ملک میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس ملک کے وسائل، دولت اور اقتدار پر جمہوریت کے نام پر قبضہ کرنے والی طاغوتی قوتیں ایم کیو ایم کی دشمنی میں اتنی اندھی ہو چکی ہیں کہ ایک جانب ایم کیو ایم کو دہشتگرد جماعت قرار دلوانے کے لیے جب کہ دوسری جانب ان کو غدارِ وطن کا لقب دے کر ان کی قیادت کا سورج گہنانے کے لیے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جا رہا۔ لیکن اس سے پہلے بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں کئی قائدین کو غدارِ وطن قرار دیا جاتا رہا تا کہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاتا رہے۔
ملک کی تقدیر کے لیے اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ جن سرمایہ داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں نے بے ایمانی سے حکومت کو چلا کر ملک کے وسائل، دولت مراعات اور اقتدار کو اپنے گھر کی باندی بنا کر ملکی استحکام، معیشت اور وقار و سلامتی کو داؤ پر لگا دیا وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ کسانوں، مزدوروں اور غریب عوام کا خون چوسنے والے، ملک کو امریکا اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں قرضوں کی صورت میں گروی رکھنے والے کیا محب وطن کہلائے جانے کے لائق ہیں۔
پاکستان کے مظلوم و محکوم عوام کے لیے یہ بات کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں کہ 17 ستمبر 1953ء کو جنم لینے والے متحدہ کے قائد کا آج 62 واں یومِ پیدائش ایک ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب غریب و متوسط طبقے کی نمایندگی کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کو ہمہ وقت یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مائنس ون کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اور قائد تحریک سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ لیکن یہ اقتدار کی ہوس کے مارے، اپنے مفادات اور خواہشات کو ہر چیز پر مقدم جاننے والے سیاست داں شاید اس بات کی گہرائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں کہ قائد کے بغیر ایم کیو ایم کی سیاست کا کوئی مطلب نہیں۔ ایم کیو ایم ایک نظریاتی تحریک ہے۔
میدانِ سیاست اور سماجیت کے 37 سال گزرنے کے بعد بھی قائدِ تحریک کے خلاف ہونے والی سازشوں کے ساتھ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کا مکروہ سلسلہ آج تک نہیں رک سکا بلکہ ایم کیوایم کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام جاری ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سازشوں کے تانے بانے ہیں تو دوسری طرف ملک کے اندر ایم کیو ایم کے خلاف جاری غیر اعلانیہ ریاستی ٹارگٹڈ آپریشن ہے جو ایک خاص تسلسل سے جاری ہے۔
لیکن ان تمام حالات و اقعات کی موجودگی میں آج ایک بار پھر ہر سال کی طرح ایم کیوایم کے ذمے داران، کارکنان اور حق پر ست عوام دنیا بھر میں پورے جوش ولولے کے ساتھ اپنے قائد کا یومِ پیدائش منا کر تجدید عہدِ وفا دہرا رہے ہیں ۔ ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی درازی عمر کے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں... اس یقین کے ساتھ کہ۔
دیارِ شب میں چمکتی کتاب لائے گا
نقیبِ انقلاب، انقلاب لائے گا
یہ داستانِ ستم اپنے اختتام کو ہے
لہو شہیدوں کا عملی نصاب لائے گا
بہت عظیم ہے یہ فکر و فلسفہ مائلؔ
جو حق پرستوں کا عہدِ شباب لائے گا