امریکا میں ذہین مسلمان طالب علم اسکول میں بم لانے کے شبے میں پولیس کے حوالے
امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں اسی طرح کا ایک تازہ واقعہ ٹیکساس کے ایک اسکول میں سامنے پیش آیا جہاں ایک 14 سالہ مسلمان طالب علم کی گھریلو ساختہ گھڑی کو بم سمجھ کر اسکول انتظامیہ نے اسے پولیس کے حوالے کردیا۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر اروینگ کے میکارتھر ہائی اسکول میں ایک 14 سالہ سوڈانی نژاد مسلمان طالب علم محمد احمد اپنی بنائی ہوئی گھڑی لے کر اسکول آیا تاکہ وہ اسے اپنے سائنس کے استاد کو دکھاسکے۔ احمد کے مطابق اس کے ٹیچر نے گھڑی دیکھنے کے بعد اسے کہا کہ وہ اس کا ذکر اسکول میں کسی سے نہ کریں تاہم جب دوسرے پیریڈ کے دوران اس کی گھڑی کی آواز سن کر اس کے ٹیچر نے بیگ کی تلاشی لی اورگھریلو ساختہ گھڑی نکلنے پر اس کو بم سمجھتے ہوئے پولیس کو اطلاع کردی ۔
پولیس نے اسکول ہی کے ایک کمرے میں احمد سے ابتدائی تفتیش کی اور اسے سب کے سامنے ہتھکڑی لگا کر تھانے لے گئے تاہم جب اصل حقیقت سامنے آئی تو اسے رہا کردیا گیا۔ پولیس کی جانب سے احمد پر کوئی مقدمہ تو نہیں بنایا گیا تاہم اسکول انتظامیہ نے احمد کو 3 دن کے لیے معطل کردیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جب احمد کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی تو اس کی ہمدردی میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا اور عوام نے احمد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مختلف تصاویر پوسٹ کیں جس میں امریکی پولیس اور اسکول انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
احمد کے مطابق الیکڑونکس اس کا پسندیدہ مضمون ہے اس نے چند دنوں قبل ہی میکارتھر ہائی اسکول ٹیکساس میں داخلہ لیا تھا اور الیکڑونکس کی اپنی ایجاد نئی ٹیچر کو دکھانا چاہتا تھا۔ احمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ذاتی ریڈیو اور بلو ٹوتھ اسپیکر بھی بنا چکا ہے۔
بعد ازاں امریکی صدر باراک اوباما نے احمد کی بنائی ہوئی گھڑی کی تعریف کرتے ہوئےاسے وائٹ ہاؤس میں ملنے کی بھی دعوت دی۔ امریکی صدر نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہمیں دیگر بچوں کو بھی ترغیب دینی چاہیئے تاکہ وہ تمہاری طرح سائنس میں دلچسپی لیں،کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو امریکا کو عظیم بناتی ہے۔
دوسری جانب فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے بھی فیس بک پر اپنے پیغام میں کہا کہ مستقبل احمد جیسے باصلاحیت نوجوانوں کا ہے ایسے افراد بجائے گرفتار کرنے کے تعریف کے لائق ہیں،احمد جب بھی میرے آفس آنا چاہے آسکتے ہیں مجھے ان سے مل کر خوشی ہوگی۔
طالب علم کے والد، محمد احسان محمد جو کہ افریقی ملک سوڈان سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہےکہ یہ واقعہ ان کے بچے کی نام کی وجہ سے پیش آیا،جب کہ امریکی مسلمانوں کی تنظیم کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن کی نائب صدر ثروت حسین نے بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالب علم کا نام احمد محمد نہیں ہوتا تو ایسے کسی واقعے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا تھا۔