شیرو جبرو اور فیقا

’’شیرو‘‘ اور ’’جبرو‘‘ بکروں کی اُس دیسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صرف صنعت کار کی دسترس تک رہ گئے۔


شہباز علی خان September 18, 2015
جبرو، شیرو اور فیقے نے اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دوستی اور مفاہمت کی ایک اعلی مثال قائم کی تھی ۔فوٹو :فائل

یہ کہانی ہے ''شیرو'' اور ''جبرو'' دو بکروں کی جو کہ اس دیسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صرف صنعت کار کی دسترس تک رہ گئے تھے۔ عام اعلیٰ سے اعلیٰ مقام رکھنے والے اشرافیہ کی آنکھیں صرف خوابوں ہی میں ان سے لاڈ کرسکتی ہیں، یا بہت ہوا تو کسی ٹی وی چینل پر ان کی قیمتیں سن کر نرم، سرد اور خاموش آہیں بھر سکتی ہے۔ شیرو اور جبرو کا ایک دوست بھی تھا نام تو اسکا رفیق تھا مگر گوشت خور طبقہ ''فیقا قصائی'' کے نام سے جانتا تھا۔

فیقے کو خدا نے یہ صلاحیت دی تھی کہ وہ بکروں کی بولی سمجھ بھی لیتا تھا اور بول بھی لیتا تھا۔ آپ بھی حیران ہو رہے ہونگے کہ قصائی اور بکروں کی دوستی قائم ہی کیسے رہ سکتی ہے؟ تو جناب آپ کی حیرت دور کر دیتا ہوں کہ ان تینوں میں میثاقِ جمہوریت یا این آر او طرز کا ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ شیرو اور جبرو کی آزادی اور بہترین خوراک کی ذمہ داری فیقا قصائی اٹھائے گا اور اسکے عوض میں شیرو اور جبرو گاؤں گاؤں، شہر شہر گھوم کر اسے بیمار، لاچار اور دم توڑتے مویشیوں کے بارے میں نہ صرف اطلاعات مہیا کریں گے بلکہ سہولت کار کا اضافی چارج بھی سنبھالیں گے۔

انہوں نے اپنے اپنے مفاد طے کرکے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے ہوئے دوستی اور مفاہمت کی ایک اعلی مثال قائم کی تھی اور یوں زندگی کا سفر جاری تھا۔ فیقے نے دو چار عوامی نسل کے بکرے بھی رکھے ہوئے تھے، جن کی تعداد میں حالات و واقعات کی بنا پر کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ ان عوامی نسل بکروں کا کمال یہ تھا کہ فیقا انہیں گھر سے منڈی لاتے ہوئے بیسن اور کبھی آٹے کا اتنا پانی پلا دیتا کہ جو کبھی ہڈیوں اور کھال کا مجموعہ ہوتے تھے وہ منڈی آتے آتے اتنے گول مٹول ہوجاتے کہ ان کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ انکی خواہش مند بن جاتی مگر جیسے جیسے دن ڈھلنا شروع ہوتا اور ان کی مینگنیوں کی برسات میں تیزی آتی، ساتھ ہی ان کا حسن بھی بہاؤ کے ساتھ اترنا شروع ہو جاتا۔ فیقا دن کے کسی حصے میں رعایا کی نظروں سے چوری چوری واردات کر ہی جاتا اور پھر سے ان کی جوانی عارضی ہی سہی مگر دم بھر کے لئے لوٹ آتی تھی اور اسی دوران کوئی نہ کوئی خریدار پھنس ہی جاتا تھا۔ رات کو پھر ان تینوں دوستوں کے قہقہے فیقے کے دالان میں گونج رہے ہوتے۔

فیقا قصائی ایک روز ہنستے ہنستے کہنے لگا، یار ہماری سرکار کے کاروبار بھی چائنا میں ہیں، کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح چائنا کے موبائل ہوتے ہیں بھاری بھرکم اور سستے اسی طرح چائنا بکرے بھی بناتا ہو جس میں بٹن لگے ہوں اور انہیں دباتے جاؤ اور وہ بڑے ہوتے جائیں، اندر بیشک ہوا بھری ہو بس کھال بکرے کی ہو اور ایک بٹن دبائیں تو وہ صحتمند اور توانا بکرے کی آواز نکالے یا کچھ بھی ایسا ہو کہ وہ دیکھنے میں چلنے میں اور بولنے میں بکرا لگے۔ یہ سن کر جبرو اور شیرو ایک ساتھ کہتے،
''استاد جی تسی ہن سو جاؤ بارہ وج گئے نیں''

جبرو نے شیرو سے کہا، یار شیرو منڈی میں وہ حرارت بیدار نہیں ہو رہی ہے مجھے تو ان مسکین، انسان نما بے کسوں پر ترس بھی آتا ہے جو اپنی بھاری بھرکم بیگمات اور چار پانچ بچوں کو کبھی چاند گاڑیوں پر تو کبھی موٹر سائیکلوں پر لادے منڈی آتے ہیں اور ہمارے ہی بھائی بندوں کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دام سننے کے بعد یوں بھاگتے ہیں جیسے شریف آدمی تھانہ کچہری سے، شیرو نے بھی چارہ چرتے ہوئے کہا، ہاں یار جبرو اور پھر یوں ہی ایک اسٹال سے دوسرے اسٹال تک بھاگتے بھاگتے واپس گھروں کی طرف بھاگ جاتے ہیں اس امید پر کہ کل پھر آئیں گے، ہوسکتا ہے ریٹ کم ہو۔ بے وقوفوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اس نام نہاد جمہوریت نے ان کے نصیبوں میں صرف محرومیاں ہی لکھ دی ہیں۔

جبرو سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا یار شیرو انسان بہت جلد باز اور خواہشات کا غلام ہے، یہ لالچ میں نہ صرف خود آجاتا ہے بلکہ اپنے بھائی بندوں کو بھی دھکیل دیتا ہے۔ ہمارا معاہدہ تو حلال جانوروں تک تھا مگر فیقا بھائی نے تو کتے، گدھے بھی اسلامی جمہوریہ کے باسیوں کو کھلا دئیے۔ سب کی کھال اتر جائے کہاں پہچان رہتی ہے اور جن اداروں کا پہچاننا کام تھا ان گوشت فروشوں نے انہیں بھی گدھوں کا گوشت دیسی بکرے کا کہہ کر کھلا کھلا کر گدھا ہی بنا دیا ہے۔

اچھا جذباتی نہ بنو، بکرا بنو شیرو نے جبرو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ کوئی ترکیب لڑاؤ کہ فیقا قصائی اپنی ان بد اعمالیوں سے باز آئے۔ میں نے سنا ہے کہ شہر کا ڈی سی بہت ایماندار آدمی ہے اور سب ہوٹلوں، بیکریوں اور قصابوں کو بھاری جرمانے بھی کر رہا ہے۔ کیوں نہ ہم اس کی شکایت درج کروائیں مجھے یقین ہے کہ قانون اب کی بار ان ظالموں کو سزا دلا کر ہے رہے گا۔

اگلی صبح وہاں سے بہانہ بنا کر دونوں نکلے اور جا کر درخواست دے دی اور پھر واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئے۔ اچانک منڈی پر حملہ ہوا اور عملہ فیقے کا پوچھتے پوچھتے وہاں آگیا اور دھر لیا اسے، پہلے تو سارا مال مویشی اٹھا کر منی ٹرک میں ڈالنے لگے مگر عوامی بکروں کی حالت خراب دیکھ کر شیرو اور جبرو کو اٹھا کر فیقے کے ساتھ ٹرک میں ڈالا۔ ڈی سی صاحب کی شخصیت بہت شاندار تھی شیرو اور جبرو کو یقین ہونے لگا کہ پاکستان بدل گیا ہے مگر انہیں کیا خبر کہ انسان کتنی خطرناک شے ہے۔ صاحب نے فیقے کو پہلے تو دو چار ہاتھ لگا دئیے کیونکہ انہیں یاد آیا کہ ان کا باورچی تو اسی سے گوشت لاتا رہا ہے۔ فیقے نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ وہ ایسا نہیں ہے اور کسی اپوزیشن والے نے جھوٹے کیس میں پھنسانے کی کوشش کی ہے، جانے ایک دم سے فیقے کے ذہن میں کیا آیا کہ اس نے صاحب کے پاؤں پڑ کر کہا کہ حضور میں تو صرف بکروں کا ہی کام کرتا ہوں، آپکے سامنے یہ دو بکرے موجود ہیں دیکھ لیں کتنے صحتمند ہیں، بس آپ جیسے اہلِ ایمان کی تلاش تھی آپ نے بھی تو قربانی کرنا ہی ہے ان کی کر دیں اور قیمت بھی مناسب ہے، 12 سو روپے کا ایک اور 2 ہزار کی جوڑی۔ صاحب نے حیرت سے کہا کہ یار یہ اتنی اعلیٰ نسل کے اور پلے ہوئے بکرے اتنے سستے؟ فیقا قصائی نے رونی شکل بنا کر کہا صاحب قسم سے میں نے اتنے کے ہی لئے تھے۔

شیرو اور جبرو تو ایک دم سے گھوم گئے کہ جب سے عید منڈی لگی تھی لوگ 20 ہزار ایک ایک کا ریٹ لگاتے تھے اور فیقا رعونت سے انکار کر دیتا تھا۔ انہیں سب سمجھ آگئی اور انہوں نے منمناتے ہوئے فیقے کو گہری دوستی کے واسطے دئیے کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے۔ صاحب بہادر نے جب اتنا شور سنا تو اس نے فیقے سے پوچھا کہ یار یہ بکرے ایک دم سے اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں اور چھلانگیں کیوں لگا رہے ہیں؟

اس پر فیقے نے جواب دیا، یہ کہہ رہے ہیں کہ حضور کا اقبال بلند رہے۔ آپ کی قربانی قبول ہوگی اور وہ خوش ہیں کہ آپ جیسا درویش صفت مالک جو مل گیا ہے۔ انکی زندگی کا مقصد پورا ہوا اب وہ اوپر جا کر حضور کے انصاف اور انتظامی صلاحیتوں کی مثالیں فرشتوں کو دیںگے اور آپکے حق میں خصوصی رحمتوں کی دعائیں بھی کریں گے اور شیرو اور جبرو اچھلتے اور شور مچاتے ہی رہ گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں