ہوش کے ناخن لیے جائیں
اقوام متحدہ کی اس غذائی اور زرعی تنظیم نے 1945ء سے بھی پہلے سے کام شروع کردیا تھا۔
اب سے چند دنوں پہلے 16 اکتوبر کو دنیا میں خوراک کا عالمی دن منایا جارہا تھا اور دنیا میں بھوک کے مارے انسانوں کے بارے میں گفتگوئیں ہورہی تھیں۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ 219 برس پہلے 16 اکتوبر کی یہی تاریخ تھی جب انقلاب فرانس کے ہنگامہ خیز اور خوں ریز زمانے میں ملکہ میری انتونیت اپنے قدموں سے چل کر اس جپوترے تک پہنچی تھی جس پر گلوٹین نصب تھی اور پھر ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں نے دیکھا کہ ملکہ کی گردن پر تیغہ گرا اور اس کا سر دور جاگرا تھا۔ یہ وہی نازوں کی پالی آسٹریا کی شہزادی اور شاہ فرانس کی چہیتی ملکہ تھی جسے فرانسیسی عوام اپنے تمام مسائل کا ذمے دار سمجھتے تھے اور اس سے نفرت کرتے تھے۔ اسی سے یہ جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ جب اس نے شاہی جھروکے سے روٹی مانگنے والی مفلوک الحال عورتوں اور بدحال کسانوں کے جلوس کو دیکھا تو کہا تھا کہ انھیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔
دنیا میں جب بھی بھوک اور قحط سے بدحال لوگ روٹی مانگنے نکلتے ہیں تو اس سماج میں کچھ ایسے پیٹ بھرے ضرور ہوتے ہیں جو اس قسم کے سفاکانہ جملے بولتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے اکثر کو اپنے اس جملے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھوک اور بھک مری کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود بھی کبھی بھوک برداشت کی ہوتی ہے اور زندگی ان لوگوں کے درمیان گزاری ہوتی ہے جو ان آفتوں سے دو چار رہتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ایک شاعر نظیر اکبر آبادی تھے۔ وہ ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب ہرطرف سودا، میر اور غالب کا غلغلہ تھا۔ شاعری دربار اور سرکار سے وابستہ تھی۔ ایسے میں نظیر ایسے عوامی شاعر کو بھلا کون اہمیت دیتا۔ وہ دربار کے بجائے بازار کے شاعر تھے۔ انھوں نے عوامی میلوں، ٹھیلوں کا سماں نظم میں باندھا۔ 'بندرکا بچہ' 'ہولی' 'دیوالی' 'عیدالفطر' 'چڑیوں کی تسبیح' جیسی نظمیں لکھتے ہوئے دنیا سے گزر گئے۔ ان کی نظم ''روٹی'' بہت مشہور ہوئی۔ جو نصاب میں بھی شامل رہتی ہے۔ اس کے 2 بند ملاحظہ ہوں۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہے روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
یہ نظم بارہا پڑھی ہے۔ اس مرتبہ یاد آئی تو خیال آیا کہ اگر یہ کہا جائے کہ یو این فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے علاوہ خوراک اور بھک مری کے معاملات سے جڑی ہوئی تنظیمیں جنھیں عرف عام میں این جی اوز کہا جاتا ہے انھوںنے نظیرسے یہ نظم لکھوائی ہے تو حیرت نہیںہونی چاہیے۔
اقوام متحدہ کی اس غذائی اور زرعی تنظیم نے 1945ء سے بھی پہلے سے کام شروع کردیا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب 6 برس تک کی بھیانک خون آشامی کے بعد دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تھی اور کروڑوں لوگ جہاںگولہ بارود سے مارے گئے تھے وہیں قحط اور غلے کی ذخیرہ اندوزی نے لاکھوں لوگوں کو نگل لیا تھا۔ ہم دور کیوں جائیں، غیر منقسم ہندوستان نے قحط بنگال جھیلا تھا اور کلکتے کی سڑکوںپر بھوک سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں میونسپل کارپوریشن کی گاڑیاں اٹھاتی تھیں۔ بھوک کی یہ آفت صرف اس لیے نازل نہیں ہوئی تھی کی خشک سالی نے فصلیں تباہ کردی تھیں، اس کی ایک بڑی وجہ غلہ کی ذخیرہ اندوزی اور برٹش سرکار کی نااہلی بھی تھی جو اپنے گوداموں میں موجود غلے کو ہنگامی طور پر قحط زدہ علاقوں میں نہیں پہنچا سکی تھی۔
خوراک کا عالمی دن اکتوبر 1982ء سے ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ امریکا میں آکسفام اسے اتوار کو رات کی ضیافت کے طور پر مناتی ہے جس میں ایمریٹس آرچ بشب ڈیسمنڈ ٹو ٹو اور ایک امریکی ادیب فرانس مور لاپے گزشتہ 7 برس سے بہ طور خاص حصہ لے رہے ہیں۔ یورپی یونین، افریقا، ایشیا اورلاطینی امریکا میں بھی یہ دن سرکاری اور غیر سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔
دانشوروں، ادیبوں اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا مؤقف ہے کہ زندہ رہنا انسان کا بنیادی حق ہے اور خوراک وہ چیز ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کا بنیادی حق ہے کہ اسے مختلف اقسام کی غذائی اجناس یعنی غلہ، سبزیاں، پھل، گوشت اور مچھلی مہیا ہوں تاکہ ایک متوازی غذا سے وہ فیض یاب ہو اور وقار اور عزت کی زندگی گزار سکے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قسم کی ارضی یا سماوی آفت نے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہ رکھا ہو کہ وہ اپنے طور پر اپنی خوراک خرید سکیں، یا جنگ کے دوران وہ جنگی قیدی بنالیے گئے ہوں، یا کسی الزام میں وہ جیل کاٹ رہے ہوں تو یہ متعلقہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کی غذائی ضرورتیں پوری کرے اورا نہیں صاف ستھری اور مناسب خوراک مہیا کرے۔
1996ء میں خوراک کے حوالے سے ایک عالمی چوٹی کانفرنس ہوئی تھی جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں جو 84 کروڑ لوگ بھوک اور ناکافی غذا کا شکار ہیں، ان کی تعداد کو 2015ء تک 40 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچانا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تعداد میں کمی ہونے کے بجائے اتنا اضافہ ہوا کہ سنہ 2000ء میں یہ تعداد لگ بھگ ایک ارب انسانوں تک پہنچ گئی تھی جو گزشتہ دس برسوں کے درمیان کم ہوکر 80 کروڑ 70لاکھ ہوئی۔
فائو (FAO) کا کہنا ہے کہ دنیا میں پھیلی ہوئی بھوک کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور جن کے لیے خوراک خریدنا کوئی مسئلہ نہیں وہ غذا کو بڑی بے دردی سے ضایع کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے پیٹ بھرے افراد 30 فیصد غلہ، سبزیوں اور پھلوں کا 40 فیصد سے 50 فیصد، گوشت ، پنیر اور انڈے کا 20 فیصد اور مچھلی کا 30 فیصد ضایع کردیتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک ارب انسانوں کو پیٹ بھر کھانا میسر نہ ہو، وہاں اس طرح کا ضیاع جرم اور گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔
اس وقت حقیقت حال یہ ہے کہ کہ دنیا کا ہر آٹھواں آدمی رات کوبھوکا سوتا ہے۔ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ ایشیا اورلاطینی امریکا میں بھوکوں اور ناکافی غذا ملنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جب کہ افریقہ کے سب صحارا ملکوں میں یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ہمارے یہاں بھوک اور ناکافی غذائیت ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد یونیسیف نے ہمارے صوبے کو چاڈ اور نائیجریا سے تشبیہہ دی تھی۔ سینیٹر اسرار اللہ زہری کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہماری 58 فیصد آباد ی کو غذائی تحفظ حاصل نہیں اور 30 فیصد شدید بھوک کا شکار ہے۔
یہ ذمے داری دنیا کے خوشحال ملکوں کی ہے کہ وہ زراعت کے شعبے میں کسانوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں، زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کریں اور اس شعبے میں روزگارکے ذرایع پیدا کریں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے پیٹ بھروں کو یہ ذہن نشین کرائیں کہ جرم اور گناہ یہ بھی ہے کہ کھانے کی اشیاء ضایع کی جائیں جب کہ کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہوں۔ آج دنیا انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جس آشوب میں گرفتار ہے اس کا بہت بڑا تعلق بھوک اور غذائی قلت سے بھی ہے۔
بھوک انسانوں سے امید چھین لیتی ہے۔ یہ امید کہ وہ اور ان کے بچے بھی اگلے دن تک زندہ رہیں گے۔ روٹی سے محرومی جیسی ناانصافی ان کے اندر غیض وغضب کو جنم دیتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ ذلت، جہل، بیروزگاری اور بیماری کو لاتی ہے۔ ہمارے مقتدرین اپنے لوگوں کی بھوک کا علاج نہ کرسکے لیکن وہ شکایت اس بات کی کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے اپنے چاروں طرف دشمن تخلیق کرلیے ہیں اور ان حقیقی فرضی دشمنوں سے لڑنے کی تیاریوں میں اپنے سارے وسائل جھونک دیے ہیں۔ وہ ملک جو اپنے 80 فیصد وسائل جنگی تیاریوں پر صرف کررہاہو وہاں غربت، بھوک کیوں نہ ہو اور انتہا پسند اور دہشت گرد اسے ترنوالہ سمجھ کر کیوں نہ ہڑپ کرجائیں۔لہٰذا ہوش کے ناخن لیے جائیں۔ سرمایہ کاری جنگوں اور محاذ آرائیوں پر نہیں بلکہ انسانوں پر کی جائے تاکہ غربت، بیروزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور آنے والی نسلیں ہماری عقل پر ماتم نہ کریں۔