فلم ریویو منٹو کون ہے

فلم میں دکھائی گئی چند کہانیاں اسی صورت سمجھ آسکتی ہیں کہ جب آپ نے سعادت حسن منٹو کو پڑھا ہو۔


سید سبط حسان رضوی September 17, 2015
منٹو ہاتھ میں قلم تھامے معاشرے کی ایسی تصویر کاغذ پر اتار دیتا ہے جسے ہر کوئی دیکھ کر پہچاننے سے انکار کرتا ہے۔

منٹو کہتا ہے کہ فحش ادب نگاری کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب ان حالات کا خاتمہ کردیا جائےجو اس ادب کے محرک ہیں۔

فلم منٹو صرف ایک کہانی نہیں بلکہ خود میں کئی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے البتہ فلم میں دکھائی گئی چند کہانیاں اسی صورت سمجھ آسکتی ہیں کہ جب آپ نے سعادت حسن منٹو کو پڑھاہو۔

فلم کے لکھاری شاہد ندیم جبکہ ڈائریکٹر سرمد سلطان کھوسٹ ہیں۔ سرمد ہی نے منٹو کا کردار بھی نبھایا ہے۔ ثانیہ سعید نے بطور صفیہ منٹو کی اہلیہ کا کردار نبھایا ہے جبکہ فلم میں 3 چھوٹی بچیوں کی صورت میں منٹو کی تینوں صاحبزادیاں نگی، نچی اور نزہی بھی جلوہ گر ہوئی ہیں۔

شاہد ندیم کا اصل حدف منٹو کی زندگی کے آخری 7 سالوں کی جدوجہد کی منظر کشی کرنا تھا۔ وہ اس عمل میں کس حد تک کامیاب ہوئے اسکا فیصلہ تو آپ فلم دیکھ کر ہی کرسکتے ہیں۔ فلم کی شروعات ''کون ہے یہ گستاخ'' نامی گانے سے ہوتی ہے۔

پاکستانی سینما کے لحاظ سے اس گانے کو شاید فلم کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن بہرحال رخ کرتے ہیں لاہور کے پاگل خانے کا جہاں 1951 میں منٹو چند پاگلوں کے درمیان موجود ہے۔

اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا منٹو بھی پاگل ہے؟ نہیں منٹو پر پاکستان اور ہندوستان کی علیحدگی کا گہرا اثر ہے۔ منٹو پاگلوں کے درمیان رہ کر انہیں احساس دلاتا ہے کہ تم قیدی نہیں ہو کہ تمہیں اذیت پہنچائی جائے، اب قانون بن چکا ہے تمہارے حقوق کا۔



پاگل خانے کی انتظامیہ اس رویے کو دیکھ کر منٹو کو واپس اس کے گھر چھوڑ آتی ہے۔ آزادی کے بعد منٹو ایک بار پھر اپنی افسانہ نگاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اپنے لکھے ہوئے الفاظ فروخت کرکے شراب خریدتا ہے اور بس لکھتا جاتا ہے۔ پریس پبلیکیشن والے منٹو کے افسانے اپنے اخبارات میں شامل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ منٹو کی افسانہ نگاری ان کے اخبار کی بڑھتی سرکولیشن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

منٹو لکھتا ہے ''کھول دو''۔ منٹو پوری کہانی سناتا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں بہت ہی فحش افسانہ ہے لیکن منٹو کہتا ہے کہ جو لکھا ہے سچ لکھا ہے. بقول منٹو؎
''لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چالک سے نہیں لکھتا بلکہ سفید چالک استعمال کرتا ہوں تاکہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی نمایاں ہوجائے''

فلم چونکے منٹو کی زندگی اور اس کے لکھے گئے افسانوں پر مشتمل ہے اس لیے منٹو اور نورجہاں کے آپسی تعلقات کو بھی فلم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ فلم میں نور جہاں کا کردار معروف ڈرامہ ایکٹریس صبا قمر نے نبھایا ہے جبکہ ٹیپو شریف شوکت حسین رضوی کے کردار میں نظر آئے ہیں۔ منٹو نے فلم میں کوٹھے کا رخ بھی کیا جہاں نازنین نامی طوائف تک منٹو کی مداح ہے۔

فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے جس میں نور جہاں کہتی ہے کہ
''منٹو سے کہو تم پر بھی کچھ لکھ دے، پھر تم بھی مشہور ہوجاؤ گے''

لائسنس، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت اور دیگر افسانے بھی کہانی کی صورت فلم میں موجود ہیں۔ تاہم پشاور سے لاہور نامی افسانے کو ایک گانے کی صورت ماہرہ خان اور اظفر رحمان پر خوب فلمایا گیا ہے جسے دیکھ کر چارلی چپلن کی خاموش فلموں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

یقیناً سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو مختصر دورانیے کی فلم میں سمیٹنا مشکل ترین کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ منٹو کے پڑھنے والے تو فلم سمجھ لیں گے لیکن دوسروں کو کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

https://twitter.com/Afrasyiab/status/644061756113850369

منٹو کو یوں تو اس کی فحش نگاری کے حوالے سے کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم ''اوپر نیچے درمیان'' نامی کتاب کا چھپنا اور اس کیس میں منٹو کو دلچسپ سزا ملنے کا منظر آپکو ہنسنے پر مجبور کردے گا۔

منٹو؟ سعدی صاحب؟ ہمزاد؟ یا پھر سرمد؟

بلاشبہ سرمد سلطان کھوسٹ کی اداکاری نے فلم میں چار چاند لگائے ہیں لیکن یہاں نمرہ بچا کی جانب سے نبھایا گیا منٹو کے ہمزاد کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔ فلم میں ثانیہ سعید یعنی منٹو کی بیوی صفیہ کے لیے سعادت حسن منٹو سعدی صاحب ہیں لیکن خود منٹو کون ہے؟
منٹو ہاتھ میں قلم تھامے معاشرے کی ایسی تصویر کاغذ پر اتار دیتا ہے جسے ہر کوئی دیکھ کر پہچاننے سے انکار کرتا ہے اور فحش نگار کا نام دیتا ہے۔ منٹو نے صرف سچ لکھا جو آج افسانہ بن چکا ہے لیکن منٹو نے اُس زمانے میں رہ کر اس زمانے کی ترجمانی کیسے کردی؟؟
شاید زمانہ بدل گیا لوگ نہیں بدلے..

منٹو کا خود کے لیے تحریر کردہ کتبہ!

''یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے، اس کے سینے میں فن نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا؟''

[poll id="663"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں