’’وائس آف امریکا‘‘ میں گزرے تین برس یادگار رہے

پروڈیوسر بننے کے بعد بھی ’’مائیک‘‘ سے دُور نہیں ہوئی، بچوں سے آسانی ’’بلیک میل‘‘ ہوجاتی ہوں

پروگرام مینیجر، ریڈیو پاکستان، کراچی، ربیعہ اکرم کی کہانی۔ فوٹو/ایکسپریس

شعبۂ تدریس سے وابستگی کی خواہش نے اوائل عمری ہی میں جکڑ لیا تھا۔ ریڈیو پروڈیوسر بننے کے بعد بھی اِس آرزو نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ یہی سبب ہے کہ جُوں ہی ''لیکچرر'' کی اسامیوں کا اعلان ہوا، پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے ڈالا۔ اپنے مضمون میں، شہر بھر میں ''ٹاپ'' کیا۔ لیٹر بھی جاری ہوگیا تھا، لیکن اُس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر، عنایت بلوچ نے کسی نہ کسی طرح سمجھا بجھا کر اُنھیں روک لیا۔ یوں تدریس کے پیشے سے وابستگی کا خواب تو شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا، لیکن آج اِس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ ریڈیو پاکستان ہی کے طفیل اُنھیں ''وائس آف امریکا'' کے ساتھ کام کرنے کا سنہری موقع ملا!

ریڈیو پاکستان، کراچی سے نتھی، شگفتہ مزاج ربیعہ اکرم کام کے معاملے میں خاصی سنجیدہ واقع ہوئی ہیں، اِس ضمن میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ یہی سبب ہے کہ ''پی بی سی'' سے دو بار بہترین پروڈیوسر کا نیشنل ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں، جو اُن کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریڈیو سے وابستگی گہری ہے۔ ماضی میں اُنھیں مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کی جانب سے اچھی پیش کش ہوئی، لیکن وہ ریٹائرمینٹ تک اِسی ادارے سے منسلک رہنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ تجربات کے لیے تیار رہتی ہیں۔ ہر نیا پروگرام اُنھیں مسرت سے بھر دیتا ہے۔ فیچرز اور ڈاکومینٹریز میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اور جب مثبت ''فیڈ بیک'' آتا ہے، تو انھیں بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔

اُن کا اصل نام ربیعہ سعید ہے، جو شادی کے بعد ربیعہ اکرم ہوگیا۔ اجداد کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ تقسیم کے سمے خاندان نے دہلی سے مغربی پاکستان کا رخ کیا۔ پہلے بنوں میں قیام کیا، پھر حیدرآباد کو اپنا ٹھکانا بنایا، وہیں 13 اگست 1962 کو ربیعہ نے آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، سعید الدین مرزا ''پاپولیشن پلاننگ ڈویژن'' سے بہ طور آفس سپرنٹنڈنٹ منسلک رہے۔ بتاتی ہیں،''وہ والد کم، دوست زیادہ تھے۔ میں آج جس شعبے میں ہوں، جس مقام پر ہوں، اُن ہی کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہوں، ورنہ ہمارے دور میں تو لڑکیوں کی ریڈیو میں ملازمت کا تصور ہی محال تھا۔'' بچپن میں شمار پُراعتماد بچوں میں ہوتا تھا۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں، گھر بھر کی لاڈلی تھیں، البتہ لاڈ پیار نے بگاڑنے کے بجائے اُن میں خوداعتمادی پیدا کی۔ کہتی ہیں، اُن کا ستارہ اسد (Leo) ہے، جس کے زیر اثر پیدا ہونے والوں میں قیادت کی فطری صلاحیت ہوتی ہے، اُن میں بھی یہ جراثیم موجود تھے۔

گنتی قابل طالبات میں ہوتی تھی۔ تمام امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں آگے آگے رہیں۔ گو کہ دوسری جماعت کی طالبہ تھیں، لیکن اسکول کے ڈراموں میں ستّر سالہ بُڑھیا کا کردار کیا کرتی تھیں۔ کھیلوں میں ایتھلیٹکس کے مقابلے توجہ کا مرکز رہے۔ اُنھوں نے 77ء میں گورنمنٹ کمپری ھینسو ہائی اسکول، لطیف آباد سے میٹرک کیا۔ اب زبیری کالج آف ہوم اکنامکس، حیدرآباد کا رخ کیا، جہاں سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اِس عرصے میں مباحثوں، مذاکروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی سرگرمیاں اُنھیں ریڈیو لے گئیں۔ بتاتی ہیں، وہ تقریری مقابلوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتی تھیں، ایسے ہی ایک مقابلے میں ریڈیو کے ایک پروڈیوسر نے اُنھیں سُنا، تو طلبا کے پروگراموں میں شرکت کی پیش کش کر دی۔ پہلی بار ریڈیو سے نشر ہونے والے طلبا کے ایک مذاکرے میں شرکت کی۔ پھر تو ایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آنے والے برسوں میں ریڈیو سے اُنھوں نے ڈرامے کیے، فیچرز پڑھے، کمپیئرنگ کی۔

ماسٹرز کرنے کی خواہش اُنھیں کراچی لے آئی۔ یہاں دو برس ہوسٹل میں بیتے۔ رعنا لیاقت علی خان کالج آف ہوم اکنامکس سے 84ء میں ماسٹرز کیا۔ کہتی ہیں، تعلیمی سفر میں اُنھیں والد کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی۔ ہوسٹل میں قیام کی ضمن میں کراچی میں مقیم پھوپھی نے بھی بہت ساتھ دیا۔ کہنا ہے، ہوسٹل کے ابتدائی دنوں میں تو گھر بہت یاد آتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خود کو نئے ماحول سے ہم آہنگ کر لیا۔

ماسٹرز کے بعد حیدرآباد کے ایک پرائیویٹ اسکول میں کچھ عرصہ اردو کا مضمون پڑھاتی رہیں۔ 88ء میں ریڈیو پروڈیوسرز کی اسامیوں کا اعلان ہوا۔ انتخابی مراحل سے گزر کر اسلام آباد پہنچ گئیں۔ چھے ماہ کی تربیت کے بعد وہ جون 89ء میں ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے منسلک ہوگئیں۔ ریڈیو کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں دقت نہیں ہوئی کہ وہاں آنا جانا رہتا تھا۔ سب اُنھیں جانتے تھے۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، آرٹسٹ سے پروڈیوسر بننا منفرد تجربہ رہا۔ خوش ہیں کہ ساتھی آرٹسٹوں نے بھرپور تعاون کیا۔ پروڈیوسر بننے کے بعد بھی مائیک سے دُور نہیں ہوئیں، اندر کی صداکار کو زندہ رکھا۔ اُس وقت عنایت بلوچ اسٹیشن ڈائریکٹر تھے، جنھوں نے اُن کی ہر موڑ پر حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کی۔ باقاعدہ آغاز خواتین کے ایک پروگرام سے کیا۔ حیدرآباد اسٹیشن سے ''بزم طلبا'' اور ''یوتھ فورم'' جیسے پروگرام بھی کرتی رہیں، ''انجمن'' اور ''پاپ ہٹ پریڈ'' کیے، پانچ برس ڈراما سیکشن کی انچارج رہیں۔ ''کلیاں اور چنگاری'' اور ''شبِ مہتاب'' کا شمار اُن کے پیش کردہ یادگار ڈراموں میں ہوتا ہے۔

اِس عرصے میں صداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ڈرامے ''علائو الدین خلجی'' میں ڈبل رول کیا، جس میں ایک کردار مردانہ تھا۔ کہتی ہیں،''جب لوگوں کو پتا چلا کہ ڈرامے میں طاہر اور طاہرہ دونوں کردار میں نے کیے ہیں، تو وہ بہت حیران ہوئے!'' دہشت گردی کے موضوع پر بننے والے ایک ڈرامے میں بھی بڑی مہارت سے ''گینگ لیڈر'' کا مردانہ کردار نبھایا۔ ریکارڈنگ کے دوران گلے پر پٹی باندھ کر آواز بھاری کی۔ اگلے چند روز تک گلے میں درد رہا۔

93ء میں اُن کی شادی ڈاکٹر اکرم خان سے ہوگئی، جو کراچی میں پریکٹس کررہے تھے۔ یوں وہ شہر قائد آگئیں، اور ریڈیو کراچی میں ذمے داریاں سنبھال لیں۔ کراچی اسٹیشن کا حصہ بننے سے قبل تھوڑا خوف تو تھا، لیکن اعتماد جلد خوف پر غالب آگیا۔ آغاز پروگرام ''آپ کا خط ملا'' سے کیا، جس میں وہ خط پڑھتیں، قمر جمیل اُن کے جواب دیتے۔ ''گُل نغمہ'' جیسے مقبول پروگرام کی پروڈیوسر رہیں۔ دو برس قومی نشریاتی رابطے پر پروگرام ''شب بہ خیر'' کیا، جس کے لیے پہلی بار انور مقصود نے ریڈیو پر میزبانی کی۔ بعد میں مہتاب اکبر راشدی اور خوش بخت شجاعت نے یہ پروگرام کیا۔ اِس پروگرام میں ماضی میں ریڈیو سے پیش کیے جانے والے مقبول پروگرامز کے ٹکڑے سُنائے جاتے تھے۔ ''شب بہ خیر'' ہی کے لیے 99ء میں ''پی بی سی'' سے بہترین پروڈیوسر کا ایوارڈ حاصل کیا۔

98ء میں وہ سینیر پروڈیوسر ہوگئیں۔ اُسی برس ڈیبوٹیشن پر واشنگٹن، امریکا چلی گئیں، جہاں ''وائس آف امریکا'' کی اردو سروس کا حصہ رہیں۔ وہاں گزرے تین برس شان دار رہے۔ اُن کے بہ قول، اُن تین برسوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا، جب ریڈیو سے اُن کی آواز نشر نہ ہوئی ہو۔ ہر طرز کے پروگرام کیے۔ بتاتی ہیں کہ وہاں تجربات کی آزادی تھی، جدید ٹیکنالوجی میسر تھی۔ ''کرنٹ افیرز'' کے پروگرامز کا بھی وہیں پہلی بار تجربہ کیا۔ ان کے بہ قول،''اُس تجربے سے میرا ویژن وسیع ہوا۔ بہت اعتماد ملا، پتا چلا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ہم ہمیشہ مستعد رہا کرتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تجربہ یادگار رہا۔''

کہنا ہے، وہاں جاتے ہوئے اندیشے ضرور تھے کہ نیا ماحول تھا، لیکن خوشی تھی کہ خاندان ساتھ ہے۔ ''وائس آف امریکا'' ہی نے اُن کے اہل خانہ کے سفری انتظامات اور واشنگٹن میں قیام کا بندوبست کیا۔ اِس ضمن میں اُن کے شوہر کا کردار بہت ہی مثبت رہا، جو اُن کے کیریر کی خاطر اپنی پریکٹس چھوڑ کر امریکا چلے گئے۔


ربیعہ کے پاکستان لوٹنے سے فقط چند روز قبل9/11 کا سانحہ رونما ہوا، جس کے اثرات اُنھوں نے بھی محسوس کیے۔ کہتی ہیں،''حالات کے پیش نظر ہمیں لباس کے معاملے میں خصوصی احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ہم سے کہا گیا کہ شلوار قمیص پہن کر مت جائیں۔ مجھے بھی واپس آنے کے لیے جینز پہننی پڑی۔ (قہقہہ!)''

امریکا جانے سے قبل وہ سینٹرل پروڈکشن یونٹ، کراچی سے نتھی تھیں، لوٹنے کے بعد وہیں ذمے داریاں سنبھالیں۔ مجموعی طور پر وہاں پانچ برس گزرے۔ کئی مقبول غزلیں، نغمے اور ملی نغمے پروڈیوس کیے، فیچرز اور ڈاکومینٹریز کیں۔ 2002 میں ایف ایم 101 میں ذمے داریاں سنبھالیں۔ اگلے تین برس وہیں بیتے۔ ایک پھر سینٹرل پروڈکشن کا رخ کیا۔ 2007 میں ''بیسٹ میوزک پروڈیوسر'' کا ''پی بی سی نیشنل ایکسی لینس ایوارڈ'' اپنے نام کیا۔
اِس وقت وہ ایف ایم 93 ریڈیو پاکستان، کراچی سے بہ طور پروگرام مینیجر منسلک ہیں۔ اُن کے مطابق یہ اہم ذمے داری ہے، جو چوکسی کا تقاضا کرتی ہے، تمام پروڈیوسرز کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ ''ڈیڈ لائن'' پر نظر رہتی ہے۔ اِس وقت قومی نشریاتی رابطے کے کئی اہم پروگرامز اُن کے پاس ہیں۔ ڈراما سیکشن، ''بزم طلبا'' اور پروگرام ''صبح بہ خیر'' کی دیکھ ریکھ کررہی ہیں۔

ایک پروگرام ''یہ بچہ کس کا ہے؟'' کا خصوصی طور پر ذکر کرتی ہیں، جو گُم شدہ بچوں کے گرد گھومتا ہے۔ نہ صرف یہ پروگرام پروڈیوس کرتی ہیں، بلکہ میزبانی کی ذمے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر ہے۔ مسرور ہیں کہ اب تک پندرہ سولہ بچے اِس پروگرام کے توسط سے اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔

خواہش مند ہیں کہ ریڈیو سے ایسے پروگرامز کریں، جس سے براہ راست عوام کو فائدہ ہو، اُن کے حقیقی مسائل کی نشان دہی کی جائے کہ عوام سے جُڑے بغیر بات نہیں بنتی۔ اُن کے بہ قول، اِس وقت ریڈیو پاکستان سے اِس قسم کے مثبت پروگرام پیش کیے جارہے ہیں۔

کیا پرائیویٹ چینلز نے ریڈیو پاکستان کے اثر پر غلبہ پالیا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتی ہیں،''پرائیویٹ چینلز کی دوڑ نے ریڈیو پاکستان کے سامعین کو متاثر ضرور کیا ہے، جس کا سبب ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی ہے، تاہم ریڈیو پاکستان کا اپنا مزاج ہے، معیار اور ترجیحات کا بھی فرق ہے۔ ہمارے ہاں پیش کش کا ایک انداز ہے، جو ماضی کی طرح آج بھی قائم ہے۔ یہاں مادرپدر آزادی نہیں۔ اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے۔'' اُنھیں ریڈیو پاکستان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ یقین رکھتی ہیں کہ اِس ادارے سے منسلک افراد صلاحیتوں میں کسی سے پیچھے نہیں۔

خوش ہیں کہ آج ریڈیو پاکستان ایف ایم 93 کی فریکوئینسی پر بھی سُنا جاسکتا ہے۔ ''اب موبائل میں، گاڑیوں میں ایف ایم کی سہولت موجود ہے۔ ریڈیو پاکستان کے ایف ایم فریکوئینسی پر آنے سے اِس کی رسائی بڑھ گئی ہے۔ یہ ہمارے ڈائریکٹر جنرل، مرتضیٰ سولنگی کا یہ فیصلہ تھا، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔''

وہ بے روزگاری کو ملک کا بنیادی مسئلہ گردانتی ہیں۔ ''جب بے روزگاری ختم ہوگی، نوجوانوں کے پاس ملازمتیں ہوں گی، تو وہ منفی سرگرمیوں سے خود بہ خود دُور ہوجائیں گے۔'' وہ نوجوانوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فونز پر زیادہ وقت صَرف کرنے کے بجائے مثبت سرگرمیوں کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی نصیحت کرتی ہیں۔ ریڈیو کی جانب آنے والوں کے لیے، اُن کے نزدیک خدمت کا جذبہ بنیادی شرط ہے۔ ''اگر آپ ریڈیو یا صحافت کی جانب آتے ہیں، تو اِسے ملازمت مت سمجھیں۔ یہ خدمت کا شعبہ ہے۔ آپ میں جذبہ ہونا چاہیے۔''

یوں تو غالب کی بھی مداح ہیں، لیکن فیض احمد فیض اُن کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ جس زمانے میں بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتی تھیں، اُس وقت سیکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ نثر میں مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود کو سراہتی ہیں۔ ''آواز دوست'' پسندیدہ کتاب ہے۔ آواز کی قوت کی قائل ہیں۔ نیوز ریڈنگ کے میدان میں عشرت فاطمہ کی آواز اچھی لگی۔ آغا جہانگیر، شبینہ افتخار اور پروین خورشید کی آوازوں کا بھی ذکر کرتی ہیں۔

ملازمت اپنی جگہ، لیکن باورچی خانے سے رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں،''میری والدہ اکثر مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ بیٹا، تم کتنا ہی پڑھ لکھ لو، زندگی میں کتنی ہی آگے بڑھ جائو، لیکن یاد رکھو، آخر میں تمھیں گھر سنبھالنا ہے۔ آج مجھے اُن کی باتیں یاد آتی ہیں، وہ واقعی ٹھیک کہتی تھیں۔ دفتر سے لوٹتے ہی مجھے گھر سنبھالنا ہوتا ہے۔ کچن سے تو کبھی رابطہ منقطع ہو ہی نہیں سکتا، وہ تو تادم حیات قائم رہے گا!'' گھر والے اُن کے ہاتھ کے بنے کھانوں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ بریانی اور دم کا قیمہ اچھا بناتی ہیں۔ خود سادہ خوراک ہیں۔ بہار کا موسم بھاتا ہے۔ مہدی حسن، نور جہاں اور غلام عباس کی صلاحیتوں کی معترف ہیں۔ ٹینا ثانی اور شفقت امانت علی کا انداز گائیکی بھی پسند ہے۔ محمد علی اور سمیتا پاٹیل کے فن اداکاری کی معترف ہیں۔ نئے فن کاروں میں عامر خان پسند ہیں۔ ''کچھ کچھ ہوتا ہے'' پسندیدہ فلم ہے، جو کئی بار دیکھی۔

خدا نے اُنھیں ایک بیٹے، ایک بیٹی سے نوازا۔ شفیق والدہ ہیں۔ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ بچوں کے ہاتھوں بہ آسانی ''بلیک میل'' ہوجاتی ہیں۔ ہاں، شوہر کے مزاج میں سختی ہے، اِس سے توازن قائم رہتا ہے۔ کہنا ہے، عورت کی ملازمت سے گھر متاثر ہوتا ہے، تاہم اُنھوں نے توازن قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔
Load Next Story