سلسلہ غلطیاں ہنوز جاری ہے
حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کو ہیں اور ابھی نندی پور پروجیکٹ ہی جسے جلد بازی میں گزشتہ برس شروع کر دیا گیا تھا
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف چند سال پہلے جب مینارِ پاکستان پر احتجاجاً کھجورکی چھال سے بنے ہوئے پنکھوں کے ساتھ اپنی کابینہ کا اجلاس کیا کرتے تھے تو شاید اُنہیں بجلی کے بحران کی سنگینی کا یاتوکچھ صحیح اتا پتا نہ تھا یا پھر وہ دانستہ طور پر یہ سب کچھ اُس وقت کی حکومت کو نیچا دکھانے کی غرض سے کر رہے تھے۔جس بحران کووہ صرف چھ ماہ میں حل کردینے کی باتیں کیا کرتے تھے وہ پلان اب پانچ سال پر محیط ہوچکا ہے اور یہ بھی کچھ بعید از قیاس نہیں کہ یہ مدت مزید آگے چلی جائے۔زرداری حکومت نے اپنے پانچ سال یونہی تاریخیں دے دے کر گذار دیے، اب مسلم لیگ (ن) بھی کچھ ایسا ہی کرنے جا رہی ہے۔دسمبر 2017 تک بجلی کے بحران کے حل کی باتیں دراصل مضطرب و بے چین قوم کو دلاسہ دینے کی کوشش اور اپنے اقتدارکی آئینی مدت کچھ سکون سے گذار لینے کی تدبیر معلوم ہوتی ہے۔ حکومت نے اِس بحران کو فوری حل کرنے کے لیے جن بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیاہے وہ اِس مدت میں تو مکمل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کو ہیں اور ابھی نندی پور پروجیکٹ ہی جسے جلد بازی میں گزشتہ برس شروع کر دیا گیا تھا ناقص پلاننگ کی وجہ سے بند پڑا ہے ۔پہلے اِس پروجیکٹ پر سابقہ حکومت نے اپنی نااہلی کی وجہ سے قوم کے22سے 28ارب روپے برباد کردیے اور مشینیں درآمد کرکے اُنہیں نصب کرنے کی بجائے کراچی پورٹ پر ہی گلنے اورسڑنے کے لیے چھوڑ دیا اورپھر موجودہ حکومت نے بھی کچھ اتنی ہی رقم خرچ کرکے اُسے بظاہر فعال تو بنا دیا لیکن بہت جلد وہ سود مند ثابت ہونے کی بجائے ایک مہنگی ترین بجلی بنانے والاایسا منصوبہ بن گیا، جسے موجودہ حالت میںچلاتے رہنے کا مطلب خسارے کی سرمایہ کاری کے سوا کچھ نہ تھا ۔لہذا وہ بند کرکے اُسے اب گیس پر چلانے کا سوچا جا رہا ہے۔
اِس منصوبے میں اگرچہ ابھی تک کرپشن کا عنصر سامنے نہیں آیا ہے لیکن یہ ہماری نا اہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت بن چکا ہے۔اِس کی فزیبلٹی رپورٹ شاید بنائی ہی نہیں گئی اور اگر بنائی گئی تو اُس پر مناسب غوروفکر بھی نہیں کیا گیا۔سابقہ حکومت نے تو اُسے سرد خانے کی نذر کر دیا تھا مگرموجودہ حکومت نے اُسے مختصر مدت میں چلا کر اور اہل ثابت کرنے کی غرض سے بلا سوچے سمجھے فرنس آئل پر ڈال کر خود اپنے لیے ایک عذاب مول لیا۔ اِس سے بننے والی بجلی کی لاگت اِس قدر زیادہ تھی کہ اِسے جوں کا توں جاری نہیں رکھا جاسکتا تھا۔جلد بازی میں کیے جانے والے عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔حکمرانوں کے لیے یہ پروجیکٹ اب درد سر بن چکا ہے۔ وہ عوامی احتساب کے ڈر سے اُس پر مزید رقم خرچ کرنے سے بھی خائف اور خوفزدہ ہیں اور اُسے جوں کا توں سود مند انداز میں چلانے سے بھی قاصر ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے ایسے ہی غلط اور نامناسب فیصلوں کی وجہ سے قوم عرصہ دراز سے مایوسیوں اور تاریکیوں کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔دیکھا جائے تو دورِ ایوب کے بعد کسی نے بھی ملک وقوم کی بہتری میں دور رس نتائج کے حامل بڑے بڑے منصوبے ترتیب نہیں دیے۔ ملک بھر میں کارخانوں ، فیکٹریوں کا جال بچھانے ، سرمایہ کاری کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے علاو ہ تربیلہ ڈیم، منگلہ ڈیم اور راول ڈیم جنرل ایوب خان کے دور ہی میں بنائے گئے، جن کے ثمرات سے ہم آج بھی لطف اندو ز ہو رہے ہیں۔ اِس کے بعد کسی بھی حکمران نے اِس ملک میں مزید ڈیم بنانے کا مصّمم ارادہ اور عزم کیا ہی نہیں۔اگر کسی نے اِس بارے میں سوچا بھی تو اُس پردیانتداری اور خلوصِ نیت سے عمل نہیں کیا۔بھٹو صاحب نے سوشلزم کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے پہلے سے موجود ایوب دور کے اچھے اچھے کاموں کا ایسا بیڑا غرق کیا کہ اِس ملک سے پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے کی جانیوالی سرمایہ کاری اگلے بیس پچیس سالوں کے لیے یکدم رک گئی۔
اسکولوں، بینکوں فیکٹریوں اور کارخانوں کو قومی ملکیت میں لے کر اُنہیں اپنے ہاتھوں ہی سے تباہ و برباد کرڈالا۔ مخلص اور محب ِ وطن سرمایہ کاروں کو مفلس وکنگال کرکے ایسی زک پہنچائی گئی کہ وہ پھر کبھی اِس کام پر راضی و راغب ہی نہ ہوئے ۔جنرل ضیاء الحق کو بلا روک ٹوک 11سالہ دورِ حکمرانی ملا لیکن اُنہوں نے بھی ایوب دور کے اچھے کاموں کو مزید آگے نہیں بڑھایا۔ وہ پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست کا درجہ نہ دلواسکے۔وہ چاہتے تو اُس وقت یہ کام باآسانی کر سکتے تھے ۔اُنہیں عالمی چوہدریوں کی جانب کسی ایسے ردِ عمل کا خدشہ اوراحتمال بھی نہ تھا جو میاں صاحب کی حکومت کو مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کی جرأت رندانہ دکھانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اِسی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی بلاخوف وخطر 9سال مکمل آزادی کے ساتھ حاصل رہے مگر اُنہوں نے بھی ہماری اگلی نسلوں کے لیے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں کر دکھایا۔ نہ کوئی نیا ڈیم بنایا اور نہ مستقبل میں بجلی کی کمی کے خدشات سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیا۔خود کو نڈر ،دلیر اور بہادر کمانڈو کا خطاب دینے والے اِس جنرل نے کالاباغ ڈیم بنانے یا کسی بڑے تعمیری کام کے لیے معمولی سی بھی دلیری، شجاعت اور جرأت نہ دکھائی۔
یہ ہمارا انتہائی افسوسناک المیہ ہے کہ ہمارے یہاں قومی اہمیت کے بڑے بڑے اور تاریخی فیصلے صرف کسی ایک فردِ واحد کی صوابدید پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔اُس کی جیسی مرضی ہوتی ہے وہ قوم کواُس رخ پر ڈال دیتا ہے۔ایک آمر ایک سیاسی جماعت کی تمام غلطیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرکے اُسے مکمل سپورٹ کرتا رہا بلکہ اُسے اپنے مکروہ اور مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال بھی کرتا رہا جب کہ دوسراصاحبِِ اختیارشخص سیاست اور دہشت گردی کو الگ کرنے کی خاطر اُس کے گر د گھیراتنگ کرتا جاتا رہاہے۔ ایک آمر جب اقتدار میں آتا ہے تو افغانستان میںدخل اندازی کو جہاد قرار دیکر اور وہاں لڑائی لڑنے والوں کو مجاہدین کا لقب دیکر اُنکی زبردست پشت پناہی کرتا ہے اور پھر ایک دوسرا آمر حکمراںاُنہیں دہشت گرد قرار دیکر اُن کی مکمل بیخ کنی میں لگ جاتا ہے۔
ایک طالع آزما کشمیر میں حریت پسند مجاہدین کی حمایت اور مدد کرنا اپنا قومی فرض سمجھتا ہے اوردوسراجنرل بھارت کی خوشنودی کی خاطرایسی کسی مدد سے تائب ہوکر کشمیر کے حریت پسند لوگوں کو تنہا اور بے آسرا چھوڑ دیتاہے۔کبھی ایک آمر کرپشن اور قومی دولت لوٹ کر کھا جانے والوں کا سخت ترین احتساب کا انتظام کرتا ہے اور کبھی ایک آمر این آر او تخلیق کرکے اور اُن کے سارے گناہ معاف کرکے اُنہیں عزت و احترام کے ساتھ اقتدار سونپ دیتا ہے۔ ہماری کوئی سمت اور منزل متعین ہی نہیں ہے۔کوئی مستقل اور مثبت پالیسی اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔ہر نیا مقتدر شخص پچھلے شخص کے تمام کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔قوم کے ساتھ یہ مذاق کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے اورشاید یہ قوم اِس مذاق کی عادی سی ہو گئی ہے۔وہ ہر نئے آنے والے کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اُس سے آس و اُمید لگا بیٹھتی ہے ، شادیانے بجاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے لیکن بہت جلد اُس سے بھی مایوس اور نااُمید ہوکر پھر کسی دوسرے طالع آزما کی خواہش اور تمنا کرنے لگتی ہے۔
68 سالوں میں جمہوری اور غیر جمہوری دونوں ہی حکمرانوں نے تقریباً نصف نصف مدت میں حکمرانی کی ہے لیکن دیکھا جائے تو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کوئی قابلِ ذکرکام ابھی تک نہیں ہو پایا ہے ۔ اگر اِس کا الزام ہماری سویلین قیادت کو دیا جائے تو عسکری قیادت کو بھی اِس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو غیر جمہوری حکمران ہماری اِس ناکامی و نا مرادی کے زیادہ ذمے دار ہیں ۔ کیونکہ اُنہیں جمہوری حکمرانوں کی نسبت زیادہ موافق اور سازگار ماحول ملتا رہا ہے۔اُنہیں نہ کسی مضبوط اپوزیشن کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کسی دستور اورآئین کی پاسداری کا احساس ۔ وہ اپنی ذات میں ہی مکمل آزاد اور بے باک حکمراں ہوتے ہیں۔وہ اگر چاہیں تو قوم کے حالات چند سالوں میں بدل کر رکھ دیں۔
اپنی اِس آزادی اور خود مختاری کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے ماسوائے فیلڈ مارشل ایوب خان کے کسی اور نے ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت نہیں کی۔سب ہی نے آئین و دستور کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے مخالفوں کو دبا کر کرپٹ اور بد عنوان سیاستدانوں کا سہارا لے کرحتی المقدور لمبے عرصے تک حکمرانی کوشش کی ہے۔ اپنے لااُبالی اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل سے غلطیوں اور کوتاہیوں پر مبنی بڑے بڑے فیصلے کرکے اُنہوں نے قوم کی انحطاط پذیری، دل شکنی اور دل گرفتگی میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کی جانے والی غلطیوں کا یہ سلسلہ کسی طور تھم نہیں ہو پا رہا بلکہ ہنوز اپنی سبک سری اور برق رفتاری کے ساتھ جاری وساری ہے۔ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی بھی بڑی تندہی اور تواترکے ساتھ کی جا رہی ہے۔
حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کو ہیں اور ابھی نندی پور پروجیکٹ ہی جسے جلد بازی میں گزشتہ برس شروع کر دیا گیا تھا ناقص پلاننگ کی وجہ سے بند پڑا ہے ۔پہلے اِس پروجیکٹ پر سابقہ حکومت نے اپنی نااہلی کی وجہ سے قوم کے22سے 28ارب روپے برباد کردیے اور مشینیں درآمد کرکے اُنہیں نصب کرنے کی بجائے کراچی پورٹ پر ہی گلنے اورسڑنے کے لیے چھوڑ دیا اورپھر موجودہ حکومت نے بھی کچھ اتنی ہی رقم خرچ کرکے اُسے بظاہر فعال تو بنا دیا لیکن بہت جلد وہ سود مند ثابت ہونے کی بجائے ایک مہنگی ترین بجلی بنانے والاایسا منصوبہ بن گیا، جسے موجودہ حالت میںچلاتے رہنے کا مطلب خسارے کی سرمایہ کاری کے سوا کچھ نہ تھا ۔لہذا وہ بند کرکے اُسے اب گیس پر چلانے کا سوچا جا رہا ہے۔
اِس منصوبے میں اگرچہ ابھی تک کرپشن کا عنصر سامنے نہیں آیا ہے لیکن یہ ہماری نا اہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت بن چکا ہے۔اِس کی فزیبلٹی رپورٹ شاید بنائی ہی نہیں گئی اور اگر بنائی گئی تو اُس پر مناسب غوروفکر بھی نہیں کیا گیا۔سابقہ حکومت نے تو اُسے سرد خانے کی نذر کر دیا تھا مگرموجودہ حکومت نے اُسے مختصر مدت میں چلا کر اور اہل ثابت کرنے کی غرض سے بلا سوچے سمجھے فرنس آئل پر ڈال کر خود اپنے لیے ایک عذاب مول لیا۔ اِس سے بننے والی بجلی کی لاگت اِس قدر زیادہ تھی کہ اِسے جوں کا توں جاری نہیں رکھا جاسکتا تھا۔جلد بازی میں کیے جانے والے عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔حکمرانوں کے لیے یہ پروجیکٹ اب درد سر بن چکا ہے۔ وہ عوامی احتساب کے ڈر سے اُس پر مزید رقم خرچ کرنے سے بھی خائف اور خوفزدہ ہیں اور اُسے جوں کا توں سود مند انداز میں چلانے سے بھی قاصر ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے ایسے ہی غلط اور نامناسب فیصلوں کی وجہ سے قوم عرصہ دراز سے مایوسیوں اور تاریکیوں کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔دیکھا جائے تو دورِ ایوب کے بعد کسی نے بھی ملک وقوم کی بہتری میں دور رس نتائج کے حامل بڑے بڑے منصوبے ترتیب نہیں دیے۔ ملک بھر میں کارخانوں ، فیکٹریوں کا جال بچھانے ، سرمایہ کاری کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے علاو ہ تربیلہ ڈیم، منگلہ ڈیم اور راول ڈیم جنرل ایوب خان کے دور ہی میں بنائے گئے، جن کے ثمرات سے ہم آج بھی لطف اندو ز ہو رہے ہیں۔ اِس کے بعد کسی بھی حکمران نے اِس ملک میں مزید ڈیم بنانے کا مصّمم ارادہ اور عزم کیا ہی نہیں۔اگر کسی نے اِس بارے میں سوچا بھی تو اُس پردیانتداری اور خلوصِ نیت سے عمل نہیں کیا۔بھٹو صاحب نے سوشلزم کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے پہلے سے موجود ایوب دور کے اچھے اچھے کاموں کا ایسا بیڑا غرق کیا کہ اِس ملک سے پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے کی جانیوالی سرمایہ کاری اگلے بیس پچیس سالوں کے لیے یکدم رک گئی۔
اسکولوں، بینکوں فیکٹریوں اور کارخانوں کو قومی ملکیت میں لے کر اُنہیں اپنے ہاتھوں ہی سے تباہ و برباد کرڈالا۔ مخلص اور محب ِ وطن سرمایہ کاروں کو مفلس وکنگال کرکے ایسی زک پہنچائی گئی کہ وہ پھر کبھی اِس کام پر راضی و راغب ہی نہ ہوئے ۔جنرل ضیاء الحق کو بلا روک ٹوک 11سالہ دورِ حکمرانی ملا لیکن اُنہوں نے بھی ایوب دور کے اچھے کاموں کو مزید آگے نہیں بڑھایا۔ وہ پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست کا درجہ نہ دلواسکے۔وہ چاہتے تو اُس وقت یہ کام باآسانی کر سکتے تھے ۔اُنہیں عالمی چوہدریوں کی جانب کسی ایسے ردِ عمل کا خدشہ اوراحتمال بھی نہ تھا جو میاں صاحب کی حکومت کو مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کی جرأت رندانہ دکھانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اِسی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی بلاخوف وخطر 9سال مکمل آزادی کے ساتھ حاصل رہے مگر اُنہوں نے بھی ہماری اگلی نسلوں کے لیے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں کر دکھایا۔ نہ کوئی نیا ڈیم بنایا اور نہ مستقبل میں بجلی کی کمی کے خدشات سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیا۔خود کو نڈر ،دلیر اور بہادر کمانڈو کا خطاب دینے والے اِس جنرل نے کالاباغ ڈیم بنانے یا کسی بڑے تعمیری کام کے لیے معمولی سی بھی دلیری، شجاعت اور جرأت نہ دکھائی۔
یہ ہمارا انتہائی افسوسناک المیہ ہے کہ ہمارے یہاں قومی اہمیت کے بڑے بڑے اور تاریخی فیصلے صرف کسی ایک فردِ واحد کی صوابدید پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔اُس کی جیسی مرضی ہوتی ہے وہ قوم کواُس رخ پر ڈال دیتا ہے۔ایک آمر ایک سیاسی جماعت کی تمام غلطیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرکے اُسے مکمل سپورٹ کرتا رہا بلکہ اُسے اپنے مکروہ اور مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال بھی کرتا رہا جب کہ دوسراصاحبِِ اختیارشخص سیاست اور دہشت گردی کو الگ کرنے کی خاطر اُس کے گر د گھیراتنگ کرتا جاتا رہاہے۔ ایک آمر جب اقتدار میں آتا ہے تو افغانستان میںدخل اندازی کو جہاد قرار دیکر اور وہاں لڑائی لڑنے والوں کو مجاہدین کا لقب دیکر اُنکی زبردست پشت پناہی کرتا ہے اور پھر ایک دوسرا آمر حکمراںاُنہیں دہشت گرد قرار دیکر اُن کی مکمل بیخ کنی میں لگ جاتا ہے۔
ایک طالع آزما کشمیر میں حریت پسند مجاہدین کی حمایت اور مدد کرنا اپنا قومی فرض سمجھتا ہے اوردوسراجنرل بھارت کی خوشنودی کی خاطرایسی کسی مدد سے تائب ہوکر کشمیر کے حریت پسند لوگوں کو تنہا اور بے آسرا چھوڑ دیتاہے۔کبھی ایک آمر کرپشن اور قومی دولت لوٹ کر کھا جانے والوں کا سخت ترین احتساب کا انتظام کرتا ہے اور کبھی ایک آمر این آر او تخلیق کرکے اور اُن کے سارے گناہ معاف کرکے اُنہیں عزت و احترام کے ساتھ اقتدار سونپ دیتا ہے۔ ہماری کوئی سمت اور منزل متعین ہی نہیں ہے۔کوئی مستقل اور مثبت پالیسی اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔ہر نیا مقتدر شخص پچھلے شخص کے تمام کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔قوم کے ساتھ یہ مذاق کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے اورشاید یہ قوم اِس مذاق کی عادی سی ہو گئی ہے۔وہ ہر نئے آنے والے کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اُس سے آس و اُمید لگا بیٹھتی ہے ، شادیانے بجاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے لیکن بہت جلد اُس سے بھی مایوس اور نااُمید ہوکر پھر کسی دوسرے طالع آزما کی خواہش اور تمنا کرنے لگتی ہے۔
68 سالوں میں جمہوری اور غیر جمہوری دونوں ہی حکمرانوں نے تقریباً نصف نصف مدت میں حکمرانی کی ہے لیکن دیکھا جائے تو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کوئی قابلِ ذکرکام ابھی تک نہیں ہو پایا ہے ۔ اگر اِس کا الزام ہماری سویلین قیادت کو دیا جائے تو عسکری قیادت کو بھی اِس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو غیر جمہوری حکمران ہماری اِس ناکامی و نا مرادی کے زیادہ ذمے دار ہیں ۔ کیونکہ اُنہیں جمہوری حکمرانوں کی نسبت زیادہ موافق اور سازگار ماحول ملتا رہا ہے۔اُنہیں نہ کسی مضبوط اپوزیشن کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کسی دستور اورآئین کی پاسداری کا احساس ۔ وہ اپنی ذات میں ہی مکمل آزاد اور بے باک حکمراں ہوتے ہیں۔وہ اگر چاہیں تو قوم کے حالات چند سالوں میں بدل کر رکھ دیں۔
اپنی اِس آزادی اور خود مختاری کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے ماسوائے فیلڈ مارشل ایوب خان کے کسی اور نے ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت نہیں کی۔سب ہی نے آئین و دستور کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے مخالفوں کو دبا کر کرپٹ اور بد عنوان سیاستدانوں کا سہارا لے کرحتی المقدور لمبے عرصے تک حکمرانی کوشش کی ہے۔ اپنے لااُبالی اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل سے غلطیوں اور کوتاہیوں پر مبنی بڑے بڑے فیصلے کرکے اُنہوں نے قوم کی انحطاط پذیری، دل شکنی اور دل گرفتگی میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کی جانے والی غلطیوں کا یہ سلسلہ کسی طور تھم نہیں ہو پا رہا بلکہ ہنوز اپنی سبک سری اور برق رفتاری کے ساتھ جاری وساری ہے۔ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی بھی بڑی تندہی اور تواترکے ساتھ کی جا رہی ہے۔