کذب نگری سے باہر نکلو

کئی بار ایسی اسکیموں کا مقصد کسی خاص شخص یا چند لوگوں کو فائدہ پہنچانا بھی ہوتا ہے۔


Tariq Mahmood Mian October 21, 2012
طارق محمود میاں

ہفتے میں ایک حاضری لگانے والے سے یہ شکایت درست نہیں ہے کہ اس نے کیوں نہیں لکھا۔

ملالہ والے دل سوز معاملے پر لکھنا ایک فرضِ کفایہ تھا جو ادا ہوگیا۔ سب لکھاریوں نے دل کھول کے ادا کردیا۔ جب میرے پلّے کچھ پڑے گا تو برسرِ بزم دامن جھاڑ دوں گا۔ فی الحال تو مجھے چائلڈ لیبر کا معاملہ دکھی کررہا ہے۔ جس میں نو، دس، گیارہ، بارہ، تیرہ اور چودہ برس کے معصوم بچّے بچیوں سے ایسی مشقت لی جاتی ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ ایک سنگین معاشرتی جرم ہے۔ عالمی رائے عامہ عموماً اس کا بہت برا مانتی ہے لیکن حیرت ہے کہ جب کسی غیر معمولی صلاحیت کی معصوم سے اپنی زندگی دائو پر لگادینے جیسا کام لیا جارہا ہوتا ہے تو یہ خاموش رہتی ہے۔ یہ بڑی کنفیوژ کردینے والی داستان ہے۔

یہ وہ کہانی ہے جس کا انجام نہیں ہوتا۔ بہت سر پھٹول ہوگی۔ بہت لوگ بے عزت ہوں گے۔ میڈیا پر سیکڑوں گھنٹے تو تو میں میں کی نذر ہوں گے اور سوشل میڈیا پر تو لاکھوں حروف بے توقیر ہو بھی چکے۔ آزادیوں کا ایک اندھا بھینسا ہے جو خِرد کے کھیت میں گھس گیا ہے۔

آئیے اس کھیت سے نکل کے تھوڑا سستا لیتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مملکتِ خدادادِ پاکستان کے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے نے برسرِ عام اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی کی دو اسکیمیں بہت جلد روبہ عمل ہونے والی ہیں۔ ایسی کوئی اسکیم جب بھی آتی ہے تو یہ اعترافِ شکست ہوتا ہے کہ جناب ہم مطلوبہ ٹیکس جمع نہیں کرسکے، ٹیکس دینے والوں میں اضافہ نہیں کرسکے اور لوگ بھی ایسے بے دید ہیں کہ ہمیں ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لہٰذا آئیے، بے فکر ہو کے آئیے، دو نمبر معیشت میں سے اپنے کروڑوں روپے نکالیے، ایک یا ڈیڑھ فیصد حکومت کو دیجیے اور پوتّر ہوجائیے۔

کئی بار ایسی اسکیموں کا مقصد کسی خاص شخص یا چند لوگوں کو فائدہ پہنچانا بھی ہوتا ہے۔ تب مختصر مدت کے لیے ایسی اسکیمیں جاری کی جاتی ہیں اور کام نکل جانے پر بند کردی جاتی ہیں۔ مشہور و معروف بی ایم ڈبلیو کیس یاد کیجیے۔ کاروں سے بھرا جہاز بندرگاہ پر ہے۔ ایک ایس آر او جاری ہوتا ہے۔ ہبڑ دبڑ میں گاڑیاں کلیئر ہوتی ہیں اور ایس آر او واپس ہوجاتا ہے۔ پھر بھی میں خوش گمان ہوں کہ اعترافِ شکست والے منفی تاثر کے باوجود اب کی بار یہ اسکیمیں نیک نیتی سے لائی جارہی ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف ٹیکس کی انتہائی کمزور بنیاد کو مضبوط کرنا ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے کلیے کے تحت اگر کوئی شخص صرف ایک یا ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرکے اپنا ایک کروڑ روپیہ وائٹ کرسکتا ہے تو ان بے چاروں نے کیا قصور کیا تھا جو وقت پر ٹیکس ادا کرتے رہے اور جنھوں نے اسی ایک کروڑ پر تیس سے پینتیس لاکھ روپے ادا کردیے تھے؟ یہی وہ چیز ہے جو ایمنسٹی اسکیموں کے خلاف جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اسکیمیں تو ٹیکس ادا کرنے والے شرفاء کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ یوں اس سے ٹیکس کی بنیاد وسیع ہونے کے بجائے الٹا محدود ہونے لگتی ہے۔

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ میرے سامنے ایک ایسا ہی واقعہ ہوا۔ کلفٹن کا ایک اپارٹمنٹ تھا جو کسی ایک ایسے کرایہ دار کے ہتھے چڑھ گیا جس نے نہ کرایہ دیا اور نہ ہی بل ادا کیے۔ ایک مدت کے بعد قبضہ چھڑوایا گیا تو دیکھا کہ پانی کا بل تیس ہزار روپے سے بڑھ چکا ہے۔ مالک نے ادا کردیا۔ اگلے ہی مہینے بل دیکھ کر اس کا رونا نکل گیا۔ لکھا تھا کہ ایک نئی اسکیم کے تحت آپ اپنے پرانے بقایا جات یکمشت ادا کردیں تو 35 فیصد رعایت ملے گی۔ گویا اگر وہ تھوڑے دن اور بل نہ بھرتا تو کوئی دس ہزار روپے کا فائدہ ہوجاتا۔

یہاں میں ٹیکس کے حکّام سے دو باتیں اور بھی کہنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ اپنی کذب نگری سے باہر نکلیں اور لوگوں کو حقیقت بتایا کریں۔ کہا جارہا ہے کہ ہمارے ملک میں 31 لاکھ این ٹی این ہولڈر ہیں اور ان میں سے صرف 14 لاکھ نے ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے ہیں۔ باقی سب ٹیکس چور ہیں اور انھیں ہم چھوڑیں گے نہیں۔ قبلہ! کیا آپ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان لوگوں نے گوشوارے کیوں جمع نہیں کروائے؟ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جن کا کاروبار آپ کی کرتوتوں کی وجہ سے ٹھپ ہوگیا، کتنے ملک چھوڑ گئے، کتنے دنیا سے گزر گئے اور کتنے ایسے تھے جنھوں نے صرف چند تکنیکی ضرورتوں کے تحت ٹیکس نمبر حاصل کیا تھا۔ ملکی حالات بہتر ہوں، کاروباری ماحول بہتر ہو، حکومت کی پالیسیاں درست ہوں اور ملک میں امن و امان ہو تو ٹیکس دہندگان خود بخود بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

حالات کو سازگار بنانے کے بجائے آپ جوتا اٹھا کے ٹیکس رجسٹریشن کروانے والوں، ایک سے زیادہ بینک اکائونٹ رکھنے والوں، زیادہ گاڑیاں رکھنے والوں، بڑے مکان والوں اور بار بار غیر ملکی سفر پر جانے والوں کے پیچھے پھرتے رہیں گے تو کچھ نہیں بنے گا۔ پتہ چلے گا کہ کرایے کا مکان بدلا تھا تو نئی جگہ پر نیا بینک اکائونٹ کھلوالیا تھا، اس لیے دو اکائونٹ ہوگئے۔ گاڑی جو ہے وہ لیز پر لی ہوئی ہے یا پھر ایک بیٹے کو کمپنی کی طرف سے ملی ہے اور دوسری، بیوی نے زرعی آمدنی سے لی ہے۔ اتنے بڑے مکان والے ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کہ دو ہزار گز کے بنگلے میں صرف بڈھا بڈھی لیٹے ہوئے کھانس رہے ہیں۔ امریکا میں رہنے والی اولاد کچھ کھانے کو بھیج دیتی ہے تو گزارہ ہوجاتا ہے اور وہ صاحب جو غیر ملکی سفر کرتے رہتے ہیں ان کے بھی چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ملک سے باہر ہیں۔ جب کسی کے ہاں نفری میں اضافہ ہونے والا ہوتا ہے تو اماں اور ابّا کو ٹکٹ بھیج کے بلواتے ہیں۔ یوں ان کا سیر سپاٹا اور ایف بی آر کی پریشانی چالو رہتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ لوگوں کو تڑیاں لگانا اور دھمکیاں دینا بند کریں۔ ''یکم جنوری سے ٹیکس چوروں کو عبرت ناک سزائیں دیں گے۔'' ایسے بیانات بے کار اور بے مقصد ہیں۔ ممکنہ ٹیکس دہندگان سے دوستی کریں۔ یہاں آپ چاہے مجھے عمران خان کے ساتھیوں میں شمار کرلیں۔ وہ طالبان سے مذاکرات کی بات کرتا ہے میں ٹیکس دہندگان پر گاجر اور چھڑی استعمال کرنے کی بات کرتا ہوں۔ دھتکارنے، دھمکانے اور دیوار سے لگانے کی باتیں کرنے کے بجائے ترغیب دینے کا طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔ سہولت اور خدمت پیش کرکے ٹیکس دینے پر آمادہ کریں۔ یہ بڑے دل والوں کا ملک ہے۔ ایدھی، جماعتِ اسلامی اور عمران خان کی فلاحی خدمات کے لیے لوگ اپنا سب کچھ لٹانے کو کیوں تیار ہوجاتے ہیں؟ اس لیے کہ انھیں یقین ہے اس کی ایک ایک پائی درست جگہ پر استعمال ہوگی۔ لوگوں کو ڈرانے کے بجائے حکومت بھی اپنا اعتماد بحال کرے تو اس کے سارے خزانے ٹیکس سے بھر جائیں گے۔ یہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ اقبال نے بحرِ ظلمات میں جو گھوڑے دوڑائے تھے، ان کی نسل کیا تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں