مولانا رومی اور اﷲ سے محبت
اﷲ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ حدیث پاک ﷺ ہے کہ اگر کوئی شخص لوہار کے پاس بیٹھے گا تو اس کے کپڑوں کے جلنے کا خطرہ ہے کہ لوہار کی بھٹی سے لباس کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اگر عطر فروش کے پاس بیٹھا جائے تو عطر کی خوشبو دل و دماغ کو (گھنٹوں) معطر رکھے گی۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انسان کے دوست احباب نیک ہوں گے تو یقیناً اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور اگر کوئی برائیوں میں مبتلا ہوگا تو یہاں بھی ایسا ہی معاملہ درپیش ہوگا، ساتھیوں اور دوستوں کے خیالات اور سوچ میں تبدیلی آئے گی۔ لہٰذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہم عالموں اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں تاکہ جب وہاں سے اٹھیں تو کچھ اچھی باتیں سیکھ کر اٹھیں۔ نیکی و خیر کے سچے موتیوں سے اپنا دامن بھرلیں اور انھیں سنبھال کر رکھنے کے بجائے ضرورت مندوں اور حصول علم کے متوالوں کو خلوص دل کے ساتھ پیش کردیں، علم کا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ اسے جتنا خرچ کیا جائے اتنا ہی بڑھتا ہے اور اس کے چوری ہونے کا بھی کوئی ڈر نہیں۔
مولانا رومی کی علمیت و معرفت کے حوالے سے مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب فرماتے ہیں کہ ''آج اگر ہم مالدار ہیں اور ہمارے پاس بہت دولت ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھائیں، لیکن میرے دوستو! آج یہاں مثنوی کا درس ہورہا ہے، یہ صاحب مثنوی مولانا جلال الدین رومی کون شخص تھے؟ تو جناب مولانا رومی شاہ خوارزم کے سگے نواسے تھے، بادشاہ کا نواسہ تھا یہ شخص، یہ غریب ملّا نہیں تھا کہ سوچا ہو کہ چلو پیری مریدی کرلیں۔ کچھ دکان چمکائیں تاکہ نذرانے اور حلوے مانڈے آئیں، ان کے پاس اتنی دنیا تھی کہ بخاری پڑھانے کے لیے جب پالکی پر چلتے تھے تو طلباء پیچھے پیچھے جوتے لے کر دوڑتے ہوئے چلتے تھے، اتنا اعزاز حاصل تھا۔
لیکن جب حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ اﷲ علیہ نے دعا کی کہ اے خدا شمس تبریز کا وقت آخر معلوم ہوتا ہے۔ میرے سینے میں آپ کی محبت کی آگ کی جو امانت ہے کوئی بندہ ایسا عطا فرما کہ اس کے سینے میں امانت کو منتقل کردوں، کوئی ایسا سینہ عطا کردے جو اس قیمتی امانت کا اہل ہو، الہام ہوا کہ اے شمس الدین ! قونیہ جاؤ، میرا ایک بندہ جلال الدین رومی ہے میری محبت کی آگ کی اس امانت کو جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے اس کے سینے میں منتقل کردو، اس کا سینہ اس کے قابل ہے۔ اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امانت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان نے انکار کر دیا تھا۔ زمین و آسمان جیسی عظیم القامت مخلوق نے جن امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا، اﷲ کے عاشقوں کے دل نے اسے قبول کرلیا جو ڈیڑھ چھٹانک کا ہے مگر اس کو ڈیڑھ چھٹانک کا نہ سمجھو۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں ؎
در فراخ عرصۂ آں پاک جاں
تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں
اﷲ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ اﷲ کے خاص بندے ہیں۔ اﷲ ان کے قلب میں ایسی وسعت پیدا کردیتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے قیدی معلوم ہوتے ہیں۔
تو مولانا رومی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں، جب شمس الدین تبریزی کا بستر شاہ خوارزم کے نواسے نے سر پر رکھا تو ایک شعر کہا تھا ؎
ایں چنیں شیخ گدائے کوبکو
عشق آمد لا ابالی فَاتّقُوْا
میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا کہ آج اﷲ کے عشق نے مجھے یہ شرف بخشا کہ گلی در گلی شمس الدین تبریز کی غلامی کررہا ہوں لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی اﷲ ہی کی غلامی تھی۔ اﷲ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو، اہل اﷲ کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں اﷲ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔
حضرت شمس الدین تبریزیؒ کی چند دن کی صحبت کے بعد مولانا رومی پر حق تعالیٰ نے علم کے دریا کھول دیے۔ اہل اﷲ کی صحبت و خدمت و تربیت کی برکت سے جو اﷲ والا ہوجاتا ہے تو اس کے علم اور غیر تربیت یافتہ عالم کے علم میں کیا فرق ہوتا ہے؟
اس کی مثال اس طرح ہے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ایک حوض کھودیے اور اس میں پانی بھر دیجیے اور پھر نکالتے رہیے تو یہ پانی زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا، ہاں اگر اتنی کھدائی کی جائے کہ سوتہ جاری ہوجائے، زمین کے نیچے سے پانی نکل آئے تب اس حوض کا پانی ختم نہیں ہوگا۔ یہ مثال ان اﷲ والوں کے لیے ہے جو اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھانے سے، گناہوں سے بچنے سے، ذکر و فکر کے دوام سے، یعنی وہ سوچتے رہتے ہیں کہ آسمان و زمین و سورج و چاند کا کیا مقصد ہے، ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اس کا ہم پر کیا حق ہے، یہ نہیں کہ کھاؤ پیو اور مست رہو۔
مولانا رومیؒ جب صاحب نسبت ہوئے تو ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار اﷲ نے ان کی زبان سے نکلوائے اور جس پر نظرعنایت کی صاحب نسبت ہوگیا، مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں شعر کہتا ہوں تو بعض وقت سوچتا ہوں کہ اس کا قافیہ کیا ہوگا
قافیہ اندیشم و دلدار من
گویدم من دیش جزدیدار من
جب قافیہ سوچتا ہوں تو میرا محبوب آسمان سے آواز دیتا ہے کہ اے جلال الدین مت سوچ، بس میری طرف متوجہ رہ، مثنوی تو میں لکھوا رہا ہوں، میں ہی مضامین و قوافی الہام کروں گا۔جب مثنوی کے چھ موٹے موٹے دفتر مکمل ہوگئے، ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوگئے اور سیکڑوں قصے شاعری میں سما گئے تو اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب کے الہامی ہونے کے ثبوت میں اپنے آفتاب علم کی محاذات کو مولانا رومی کے قلب سے ہٹالیے، یعنی علوم و معارف کے جو واردات غیبیہ حق تعالیٰ کی جانب سے آرہے تھے بند ہوگئے تو مولانا سمجھ گئے کہ اب مثنوی ختم ہو رہی ہے اور حق تعالیٰ اس آخری قصے کو ادھورا رکھنا چاہتے ہیں۔
فرمایا کہ میرے چاہ باطن کا چشمہ خشک ہوگیا لہٰذا اب میرا آبِ سخن خاک آلود آرہا ہے یعنی گفتگو میں اب نور نہیں، لہٰذا اب اپنی زبان پر مہر سکوت لگاتا ہوں۔ اس شعر میں ان کے اس خیال کی وضاحت کچھ اس طرح ہے
چوں فتاد از روزن دل آفتاب
ختم شد و اﷲ اعلم بالصّواب
میرے دریچہ قلب کے سامنے اﷲ کے علم کا جو آفتاب مضامین اتقاء کر رہا تھا وہ قلب کے محاذات سے افق میں ڈوب گیا۔اس کے بعد مولانا کا آفتاب بھی غروب ہوگیا اور غروب ہی کے وقت دفن بھی ہوئے حالانکہ انتقال تو صبح ہوا تھا لیکن جنازہ میں اتنا اژدھام تھا کہ کندھا بدلتے بدلتے اور چیونٹی کی چال چلتے چلتے شام ہوگئی۔ مولانا رومی کی پیش گوئی کے مطابق ایک نور جاں پیدا ہوگا جو اس مثنوی کو پورا کرے گا، چنانچہ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اس پیش گوئی کے مصداق الٰہی بخش کاندھلوی میں جو چھ سو برس بعد کاندھلہ میں پیدا ہوئے اﷲ کی شان دیکھیے کہ چھ سو برس پہلے کی پیش گوئی کو اﷲ تعالیٰ نے چھ سو برس بعد پورا فرمایا۔ ماخوذ ''تعلق مع اﷲ''
مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب کا شمار جیّد علماء میں ہوتا ہے ، ایک دفعہ ان کا درس سننے کے بعد بار بار سننے کا جی چاہتا ہے اور انسان کے قلب میں نمایاں تبدیلی ہوجاتی ہے۔ اور بدی سے خیر کی طرف کا سفر آسانی سے طے ہونے لگتا ہے یہ ہوتی ہے اﷲ والوں کے کلام و بیان کی تاثیر۔
آج جب ہر طرف افراتفری ہے، مفاد پرستی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، زخمی اور پریشان حال لوگ گریہ و زاری کر رہے ہیں، وہ اپنے رب سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ ہم سے کون سا گناہ، کون سی غلطی سرزد ہوئی جس کی پاداش میں غم کے اتنے بڑے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ دل کی غمزدہ وادی میں سما نہیں پا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کریں، رات سوتے وقت اپنا احتساب کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ کون سے گناہ صغیرہ ہیں جو ہم سے سرزد نہیں ہوئے، اگر ہم اپنی غلطیوں اور خامیوں پر غور کریں تو دوسروں کے گناہ اور عیبوں کو گننے کی فرصت نہ ملے۔ قدم قدم اور لمحہ لمحہ ہم جھوٹ، غیبت، حسد، نفرت، غصہ، رشوت، سفارش جیسی غلطیاں اور برائیاں کرتے رہتے ہیں اور ذرہ برابر نہیں شرماتے ہیں۔ اﷲ سے اور اﷲ والوں سے محبت اور بزرگان دین کی صحبت اور خدمت ہی جیو اور جینے دو کا درس دیتی ہے-
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انسان کے دوست احباب نیک ہوں گے تو یقیناً اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور اگر کوئی برائیوں میں مبتلا ہوگا تو یہاں بھی ایسا ہی معاملہ درپیش ہوگا، ساتھیوں اور دوستوں کے خیالات اور سوچ میں تبدیلی آئے گی۔ لہٰذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہم عالموں اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں تاکہ جب وہاں سے اٹھیں تو کچھ اچھی باتیں سیکھ کر اٹھیں۔ نیکی و خیر کے سچے موتیوں سے اپنا دامن بھرلیں اور انھیں سنبھال کر رکھنے کے بجائے ضرورت مندوں اور حصول علم کے متوالوں کو خلوص دل کے ساتھ پیش کردیں، علم کا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ اسے جتنا خرچ کیا جائے اتنا ہی بڑھتا ہے اور اس کے چوری ہونے کا بھی کوئی ڈر نہیں۔
مولانا رومی کی علمیت و معرفت کے حوالے سے مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب فرماتے ہیں کہ ''آج اگر ہم مالدار ہیں اور ہمارے پاس بہت دولت ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھائیں، لیکن میرے دوستو! آج یہاں مثنوی کا درس ہورہا ہے، یہ صاحب مثنوی مولانا جلال الدین رومی کون شخص تھے؟ تو جناب مولانا رومی شاہ خوارزم کے سگے نواسے تھے، بادشاہ کا نواسہ تھا یہ شخص، یہ غریب ملّا نہیں تھا کہ سوچا ہو کہ چلو پیری مریدی کرلیں۔ کچھ دکان چمکائیں تاکہ نذرانے اور حلوے مانڈے آئیں، ان کے پاس اتنی دنیا تھی کہ بخاری پڑھانے کے لیے جب پالکی پر چلتے تھے تو طلباء پیچھے پیچھے جوتے لے کر دوڑتے ہوئے چلتے تھے، اتنا اعزاز حاصل تھا۔
لیکن جب حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ اﷲ علیہ نے دعا کی کہ اے خدا شمس تبریز کا وقت آخر معلوم ہوتا ہے۔ میرے سینے میں آپ کی محبت کی آگ کی جو امانت ہے کوئی بندہ ایسا عطا فرما کہ اس کے سینے میں امانت کو منتقل کردوں، کوئی ایسا سینہ عطا کردے جو اس قیمتی امانت کا اہل ہو، الہام ہوا کہ اے شمس الدین ! قونیہ جاؤ، میرا ایک بندہ جلال الدین رومی ہے میری محبت کی آگ کی اس امانت کو جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے اس کے سینے میں منتقل کردو، اس کا سینہ اس کے قابل ہے۔ اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امانت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان نے انکار کر دیا تھا۔ زمین و آسمان جیسی عظیم القامت مخلوق نے جن امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا، اﷲ کے عاشقوں کے دل نے اسے قبول کرلیا جو ڈیڑھ چھٹانک کا ہے مگر اس کو ڈیڑھ چھٹانک کا نہ سمجھو۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں ؎
در فراخ عرصۂ آں پاک جاں
تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں
اﷲ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ اﷲ کے خاص بندے ہیں۔ اﷲ ان کے قلب میں ایسی وسعت پیدا کردیتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے قیدی معلوم ہوتے ہیں۔
تو مولانا رومی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں، جب شمس الدین تبریزی کا بستر شاہ خوارزم کے نواسے نے سر پر رکھا تو ایک شعر کہا تھا ؎
ایں چنیں شیخ گدائے کوبکو
عشق آمد لا ابالی فَاتّقُوْا
میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا کہ آج اﷲ کے عشق نے مجھے یہ شرف بخشا کہ گلی در گلی شمس الدین تبریز کی غلامی کررہا ہوں لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی اﷲ ہی کی غلامی تھی۔ اﷲ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو، اہل اﷲ کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں اﷲ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔
حضرت شمس الدین تبریزیؒ کی چند دن کی صحبت کے بعد مولانا رومی پر حق تعالیٰ نے علم کے دریا کھول دیے۔ اہل اﷲ کی صحبت و خدمت و تربیت کی برکت سے جو اﷲ والا ہوجاتا ہے تو اس کے علم اور غیر تربیت یافتہ عالم کے علم میں کیا فرق ہوتا ہے؟
اس کی مثال اس طرح ہے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ایک حوض کھودیے اور اس میں پانی بھر دیجیے اور پھر نکالتے رہیے تو یہ پانی زیادہ عرصہ تک نہیں چلے گا، ہاں اگر اتنی کھدائی کی جائے کہ سوتہ جاری ہوجائے، زمین کے نیچے سے پانی نکل آئے تب اس حوض کا پانی ختم نہیں ہوگا۔ یہ مثال ان اﷲ والوں کے لیے ہے جو اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھانے سے، گناہوں سے بچنے سے، ذکر و فکر کے دوام سے، یعنی وہ سوچتے رہتے ہیں کہ آسمان و زمین و سورج و چاند کا کیا مقصد ہے، ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اس کا ہم پر کیا حق ہے، یہ نہیں کہ کھاؤ پیو اور مست رہو۔
مولانا رومیؒ جب صاحب نسبت ہوئے تو ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار اﷲ نے ان کی زبان سے نکلوائے اور جس پر نظرعنایت کی صاحب نسبت ہوگیا، مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں شعر کہتا ہوں تو بعض وقت سوچتا ہوں کہ اس کا قافیہ کیا ہوگا
قافیہ اندیشم و دلدار من
گویدم من دیش جزدیدار من
جب قافیہ سوچتا ہوں تو میرا محبوب آسمان سے آواز دیتا ہے کہ اے جلال الدین مت سوچ، بس میری طرف متوجہ رہ، مثنوی تو میں لکھوا رہا ہوں، میں ہی مضامین و قوافی الہام کروں گا۔جب مثنوی کے چھ موٹے موٹے دفتر مکمل ہوگئے، ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوگئے اور سیکڑوں قصے شاعری میں سما گئے تو اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب کے الہامی ہونے کے ثبوت میں اپنے آفتاب علم کی محاذات کو مولانا رومی کے قلب سے ہٹالیے، یعنی علوم و معارف کے جو واردات غیبیہ حق تعالیٰ کی جانب سے آرہے تھے بند ہوگئے تو مولانا سمجھ گئے کہ اب مثنوی ختم ہو رہی ہے اور حق تعالیٰ اس آخری قصے کو ادھورا رکھنا چاہتے ہیں۔
فرمایا کہ میرے چاہ باطن کا چشمہ خشک ہوگیا لہٰذا اب میرا آبِ سخن خاک آلود آرہا ہے یعنی گفتگو میں اب نور نہیں، لہٰذا اب اپنی زبان پر مہر سکوت لگاتا ہوں۔ اس شعر میں ان کے اس خیال کی وضاحت کچھ اس طرح ہے
چوں فتاد از روزن دل آفتاب
ختم شد و اﷲ اعلم بالصّواب
میرے دریچہ قلب کے سامنے اﷲ کے علم کا جو آفتاب مضامین اتقاء کر رہا تھا وہ قلب کے محاذات سے افق میں ڈوب گیا۔اس کے بعد مولانا کا آفتاب بھی غروب ہوگیا اور غروب ہی کے وقت دفن بھی ہوئے حالانکہ انتقال تو صبح ہوا تھا لیکن جنازہ میں اتنا اژدھام تھا کہ کندھا بدلتے بدلتے اور چیونٹی کی چال چلتے چلتے شام ہوگئی۔ مولانا رومی کی پیش گوئی کے مطابق ایک نور جاں پیدا ہوگا جو اس مثنوی کو پورا کرے گا، چنانچہ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اس پیش گوئی کے مصداق الٰہی بخش کاندھلوی میں جو چھ سو برس بعد کاندھلہ میں پیدا ہوئے اﷲ کی شان دیکھیے کہ چھ سو برس پہلے کی پیش گوئی کو اﷲ تعالیٰ نے چھ سو برس بعد پورا فرمایا۔ ماخوذ ''تعلق مع اﷲ''
مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب کا شمار جیّد علماء میں ہوتا ہے ، ایک دفعہ ان کا درس سننے کے بعد بار بار سننے کا جی چاہتا ہے اور انسان کے قلب میں نمایاں تبدیلی ہوجاتی ہے۔ اور بدی سے خیر کی طرف کا سفر آسانی سے طے ہونے لگتا ہے یہ ہوتی ہے اﷲ والوں کے کلام و بیان کی تاثیر۔
آج جب ہر طرف افراتفری ہے، مفاد پرستی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، زخمی اور پریشان حال لوگ گریہ و زاری کر رہے ہیں، وہ اپنے رب سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ ہم سے کون سا گناہ، کون سی غلطی سرزد ہوئی جس کی پاداش میں غم کے اتنے بڑے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ دل کی غمزدہ وادی میں سما نہیں پا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کریں، رات سوتے وقت اپنا احتساب کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ کون سے گناہ صغیرہ ہیں جو ہم سے سرزد نہیں ہوئے، اگر ہم اپنی غلطیوں اور خامیوں پر غور کریں تو دوسروں کے گناہ اور عیبوں کو گننے کی فرصت نہ ملے۔ قدم قدم اور لمحہ لمحہ ہم جھوٹ، غیبت، حسد، نفرت، غصہ، رشوت، سفارش جیسی غلطیاں اور برائیاں کرتے رہتے ہیں اور ذرہ برابر نہیں شرماتے ہیں۔ اﷲ سے اور اﷲ والوں سے محبت اور بزرگان دین کی صحبت اور خدمت ہی جیو اور جینے دو کا درس دیتی ہے-