کارکنوں کا آزاد معاشرہ
مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار شہریوں کو استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ مہیا کر سکیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آج دنیا کی سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
50 ہزار انسان ہر روز بھوک، افلاس، غربت، غذائی قلت اور قحط سے لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تین امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکا کی 30کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ، جاپان کی 13کروڑ کی آبادی میں 65 لاکھ اور جرمنی کی 6کروڑ کی آبادی میں 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ دنیا میں صرف اسلحہ سازی اور اس کی تجارت پر 750 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
2012ء میں امریکا کا جنگی بجٹ 600 ارب ڈالر اور پاکستان کا 510 ارب روپے، جب کہ امریکا کا تعلیمی بجٹ 4.3 اور پاکستان کا 1.2 فیصد ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اگر ذیل کی تین چیزیں ختم کردی جائیں تو ان ذلتوں، اذیتوں اور غلاظتوں کی زندگی سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور وہ ہیں (1) پیداواری کارکنوں کو سرمایہ داری کے جوئے سے آزاد کرانا (2) ایک فرد کو شہری کی حیثیت میں ریاست کے جوئے سے آزاد کرانا (3) مابعد الطبیعاتی قوتوں کے ابہام سے شہری کو آزاد کرانا۔
پھر ظاہری ریاست جو کارکنوں کی قوت پر قائم ہے، اس کا انجام کار یہ ہو گا کہ یہ چھن جائے گی اور اپنی جگہ اس کے لیے خالی کر دیگی جسے سماج کی ''آزاد تنظیم'' کہا جائے گا۔ کروپوتکن کہتا ہے کہ ''ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت، سماج کا وجود مانا جاتا ہے۔'' جسے مزید وضاحت کرتے ہوئے سی ای ایم جوڈ کہتا ہے کہ ''ایسے سماج میں ہم آہنگی، قانون کے آگے سر تسلیم خم کر کے نہیں حاصل کی جاتی یا کسی اقتدار کی فرماں برداری سے، بلکہ مختلف علاقائی اور پیشہ ور گروہوں کے درمیان آزادانہ معاہدوں کے طے کرنے سے یہ (گروہ) پیداوار اور ان کے صرف کے لیے آزادانہ شیرازہ بندی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مقصد لامحدود مختلف قسم کی ضرورتوں کی تسکین اور مہذب فرد کی تمنائوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔'' یہ سماج اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی اور مرکزی اقتدار و اختیار کو مسترد کرتا ہے۔
اس قسم کا ''پنچایتی'' یا ''کارکنوں کا سماج'' ہر قسم کے اقتدار اور بالادستی سے آزاد ہو گا۔ پنچایتی پاکستان میں ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہو گی۔ اگر ہر مرد اور عورت اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصّہ دینے کو تیار ہے تو اسے یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں سے اپنا حصّہ لے جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔ اب تک کی تمام حکومتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ ہر ایک کا حصّہ نامنصفانہ رہے۔ اگر یہ نظریاتی طور پر مساویانہ ملکیت کے نظریاتی تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اسے کیوں ہمیشہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ حصّہ دینے میں نابرابری کو یقینی بنایا جائے تا کہ دنیاوی چیزیں ان کو زیادہ ملیں، جن کے پاس اختیارات ہوں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف وہ مملکت جو آج ہماری نظروں میں ہے بلکہ کسی قسم کی حکومت جو وجود پائے گی یا مستقبل میں ممکن ہو گی وہ بھی غیر ضروری اور نقصان پہنچانے والی ہو گی۔
مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار شہریوں کو استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ مہیا کر سکیں۔ جب کہ یہ تمام اشیاء انصاف کی نظر میں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ریاستی اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے لیے اس کے ماتحت اداروں کو حرکت میں نہیں لایا جا سکتا جس کی وہ خود ہی چوکیدار ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے (لیکن جو ریاست نہ ہو) سرمایہ داری اور نجی جائیداد کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ریاست میں رہتے ہوئے لوگوں کی بھلائی صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ریاست کی فطرت ہے کہ وہ قومی منتخب ادارہ ہو اور اپنے اختیارات استعمال کرتی ہو۔ چونکہ ریاست پیش آنیوالے کسی ایک مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کر سکتی، اس لیے لازماً اگر اسے کھلے جرم کے الزام میں بچانا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔ یوں نمایندہ جمہوریت کا نظریہ اس بات کے لیے فکرمند رہتا ہے کہ چنائو کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ایک محدود تعداد کو چن لے جو ان کی نمایندگی کرے اور ان کی خواہشات ایک طے شدہ مدت تک پورا کرتی رہے مگر کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کی پوری طرح نمایندگی نہیں کر سکتا۔
مسٹر ڈکنسن کے مطابق حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ کارکنوں کا آزاد معاشرہ (پنچایتی نظام) کے معنی ہیں آزادی، اتحاد اور محبت۔ حکومت کا دارومدار انانیت اور خوف پر ہے جب کہ ''انسانی پنچایت'' برادری ہے۔ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ خود ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں گے تو ان میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہو گا، دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے اور رضاکارانہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا اور وہ ایک دوسرے پر اعلیٰ تدریسی معیار قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خواہش مند ہوں گے۔ اسی طرح غیر ملکی جارحیت سے بچائو کے لیے ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لام بند فوجیں دھاوا بول فوج سے ہمیشہ شکست کھاتی ہیں۔ ریاست کا ریکارڈ افراد کو تحفظ کی ضمانت دینے کے معاملے میں بھی کوئی اچھا نہیں ہے۔
ابھی تک شہری کو بدقماش لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بدقماش کو ریاست جنم دیتی ہے۔ یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے۔ اس افلاس کا سبب ایک خستہ اور بے ڈھب معاشی نظام ہوتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو بندی خانوں میں ڈال کر سزا دی جاتی ہے اور انھیں مستقبل میں کسی کام کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ جب ریاست نہیں ہو گی تو رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے جو فی الفور قائم ہو گی اور خصوصی مقاصد کی تکمیل میں مدد کریں گی۔ ہر تجارت اور کاروبار کو ایسی سوسائٹیاں چلائیں گی جو رضاکارانہ بنیاد پر قائم ہوں گی اور جسے ایسے افراد تشکیل دیں گے جو مخصوص کام سرانجام دینا خود ہی پسند کریں گے۔
یہ ادارہ اپنے عمل کا خود ہی انتخاب کرے گا۔ بقول مسٹر لوئس ڈکنسن 'اس میں نظم و ضبط موجود نہ ہو گا بلکہ اس میں جبر و غلبہ مفقود ہو گا۔' یہ انجمنیں، گروہ اور فیڈریشن مختلف قسموں کی جسامت میں اور تعداد میں بے شمار ہوں گی۔ سماج میں ہم آہنگی ان قوتوں کے تعاون اور اثر و نفوذ سے حاصل کر لی جائیں گی۔ مگر یہاں کوئی مراعات یافتہ طبقہ نہ ہو گا۔ رضاکارانہ انجمنیں موجود ہوں گی۔ یہ سماج کا ڈھانچہ چھوٹی سی چھوٹی انجمن پر کھڑا ہو گا، چاہے وہ کسی گائوں کی ہوں یا کسی کارخانے کی۔ ان پر اعتماد رکھتے ہوئے اس کے بعد بقیہ سماجی تانا اسی بنیادی عمارت اور اکائی سے ترتیب پائے گا۔ جب امیر و غریب ختم ہو جائیں گے تو مسابقت بھی ختم ہو جائے گی۔ مسابقت کو اڑا دیجیے پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہوتی جاتی ہے۔
50 ہزار انسان ہر روز بھوک، افلاس، غربت، غذائی قلت اور قحط سے لقمہ اجل ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تین امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکا کی 30کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ، جاپان کی 13کروڑ کی آبادی میں 65 لاکھ اور جرمنی کی 6کروڑ کی آبادی میں 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ دنیا میں صرف اسلحہ سازی اور اس کی تجارت پر 750 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
2012ء میں امریکا کا جنگی بجٹ 600 ارب ڈالر اور پاکستان کا 510 ارب روپے، جب کہ امریکا کا تعلیمی بجٹ 4.3 اور پاکستان کا 1.2 فیصد ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اگر ذیل کی تین چیزیں ختم کردی جائیں تو ان ذلتوں، اذیتوں اور غلاظتوں کی زندگی سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور وہ ہیں (1) پیداواری کارکنوں کو سرمایہ داری کے جوئے سے آزاد کرانا (2) ایک فرد کو شہری کی حیثیت میں ریاست کے جوئے سے آزاد کرانا (3) مابعد الطبیعاتی قوتوں کے ابہام سے شہری کو آزاد کرانا۔
پھر ظاہری ریاست جو کارکنوں کی قوت پر قائم ہے، اس کا انجام کار یہ ہو گا کہ یہ چھن جائے گی اور اپنی جگہ اس کے لیے خالی کر دیگی جسے سماج کی ''آزاد تنظیم'' کہا جائے گا۔ کروپوتکن کہتا ہے کہ ''ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت، سماج کا وجود مانا جاتا ہے۔'' جسے مزید وضاحت کرتے ہوئے سی ای ایم جوڈ کہتا ہے کہ ''ایسے سماج میں ہم آہنگی، قانون کے آگے سر تسلیم خم کر کے نہیں حاصل کی جاتی یا کسی اقتدار کی فرماں برداری سے، بلکہ مختلف علاقائی اور پیشہ ور گروہوں کے درمیان آزادانہ معاہدوں کے طے کرنے سے یہ (گروہ) پیداوار اور ان کے صرف کے لیے آزادانہ شیرازہ بندی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مقصد لامحدود مختلف قسم کی ضرورتوں کی تسکین اور مہذب فرد کی تمنائوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔'' یہ سماج اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی اور مرکزی اقتدار و اختیار کو مسترد کرتا ہے۔
اس قسم کا ''پنچایتی'' یا ''کارکنوں کا سماج'' ہر قسم کے اقتدار اور بالادستی سے آزاد ہو گا۔ پنچایتی پاکستان میں ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہو گی۔ اگر ہر مرد اور عورت اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصّہ دینے کو تیار ہے تو اسے یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں سے اپنا حصّہ لے جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔ اب تک کی تمام حکومتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ ہر ایک کا حصّہ نامنصفانہ رہے۔ اگر یہ نظریاتی طور پر مساویانہ ملکیت کے نظریاتی تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اسے کیوں ہمیشہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ حصّہ دینے میں نابرابری کو یقینی بنایا جائے تا کہ دنیاوی چیزیں ان کو زیادہ ملیں، جن کے پاس اختیارات ہوں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف وہ مملکت جو آج ہماری نظروں میں ہے بلکہ کسی قسم کی حکومت جو وجود پائے گی یا مستقبل میں ممکن ہو گی وہ بھی غیر ضروری اور نقصان پہنچانے والی ہو گی۔
مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار شہریوں کو استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ مہیا کر سکیں۔ جب کہ یہ تمام اشیاء انصاف کی نظر میں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ریاستی اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے لیے اس کے ماتحت اداروں کو حرکت میں نہیں لایا جا سکتا جس کی وہ خود ہی چوکیدار ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے (لیکن جو ریاست نہ ہو) سرمایہ داری اور نجی جائیداد کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ریاست میں رہتے ہوئے لوگوں کی بھلائی صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ریاست کی فطرت ہے کہ وہ قومی منتخب ادارہ ہو اور اپنے اختیارات استعمال کرتی ہو۔ چونکہ ریاست پیش آنیوالے کسی ایک مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کر سکتی، اس لیے لازماً اگر اسے کھلے جرم کے الزام میں بچانا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔ یوں نمایندہ جمہوریت کا نظریہ اس بات کے لیے فکرمند رہتا ہے کہ چنائو کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ایک محدود تعداد کو چن لے جو ان کی نمایندگی کرے اور ان کی خواہشات ایک طے شدہ مدت تک پورا کرتی رہے مگر کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کی پوری طرح نمایندگی نہیں کر سکتا۔
مسٹر ڈکنسن کے مطابق حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ کارکنوں کا آزاد معاشرہ (پنچایتی نظام) کے معنی ہیں آزادی، اتحاد اور محبت۔ حکومت کا دارومدار انانیت اور خوف پر ہے جب کہ ''انسانی پنچایت'' برادری ہے۔ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ خود ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں گے تو ان میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہو گا، دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے اور رضاکارانہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا اور وہ ایک دوسرے پر اعلیٰ تدریسی معیار قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خواہش مند ہوں گے۔ اسی طرح غیر ملکی جارحیت سے بچائو کے لیے ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لام بند فوجیں دھاوا بول فوج سے ہمیشہ شکست کھاتی ہیں۔ ریاست کا ریکارڈ افراد کو تحفظ کی ضمانت دینے کے معاملے میں بھی کوئی اچھا نہیں ہے۔
ابھی تک شہری کو بدقماش لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بدقماش کو ریاست جنم دیتی ہے۔ یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے۔ اس افلاس کا سبب ایک خستہ اور بے ڈھب معاشی نظام ہوتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو بندی خانوں میں ڈال کر سزا دی جاتی ہے اور انھیں مستقبل میں کسی کام کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ جب ریاست نہیں ہو گی تو رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے جو فی الفور قائم ہو گی اور خصوصی مقاصد کی تکمیل میں مدد کریں گی۔ ہر تجارت اور کاروبار کو ایسی سوسائٹیاں چلائیں گی جو رضاکارانہ بنیاد پر قائم ہوں گی اور جسے ایسے افراد تشکیل دیں گے جو مخصوص کام سرانجام دینا خود ہی پسند کریں گے۔
یہ ادارہ اپنے عمل کا خود ہی انتخاب کرے گا۔ بقول مسٹر لوئس ڈکنسن 'اس میں نظم و ضبط موجود نہ ہو گا بلکہ اس میں جبر و غلبہ مفقود ہو گا۔' یہ انجمنیں، گروہ اور فیڈریشن مختلف قسموں کی جسامت میں اور تعداد میں بے شمار ہوں گی۔ سماج میں ہم آہنگی ان قوتوں کے تعاون اور اثر و نفوذ سے حاصل کر لی جائیں گی۔ مگر یہاں کوئی مراعات یافتہ طبقہ نہ ہو گا۔ رضاکارانہ انجمنیں موجود ہوں گی۔ یہ سماج کا ڈھانچہ چھوٹی سی چھوٹی انجمن پر کھڑا ہو گا، چاہے وہ کسی گائوں کی ہوں یا کسی کارخانے کی۔ ان پر اعتماد رکھتے ہوئے اس کے بعد بقیہ سماجی تانا اسی بنیادی عمارت اور اکائی سے ترتیب پائے گا۔ جب امیر و غریب ختم ہو جائیں گے تو مسابقت بھی ختم ہو جائے گی۔ مسابقت کو اڑا دیجیے پھر دیکھیے انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہوتی جاتی ہے۔