سازشوں بحرانوں اور ناکامیوں کا دور
صوبے کا نظم و نسق جس شخص کے حوالے کیا گیا اس کی خوبیوں کے بارے میں کوئی بات عوام الناس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
ہمارے حکمرانوں کے لیے یہی ایک بات مسرت و اطمینان اور تشفی کا باعث ہے کہ انھوں نے بلاخوف و خطر کسی نہ کسی طرح اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سال مکمل کر لیے۔
خواہ اس ملک کے 18 کروڑ افرادکے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری واقع ہوئی ہو یا نہیں، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ تمام ناکامیوں اور نا اہلیوں کے باوجود یہ ہماری پہلی حکومت ہے جس نے اپنے مینڈیٹ کے پانچ برس بالآخر گزار ہی لیے۔ اسے اگر اپنے دورِ اقتدار میں کبھی کہیں سے کوئی سازش کی بو آتی رہی تو وہ بھی اپنی ہی بداعمالیوں اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے، ورنہ اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ کا یہ پہلا دور ہے جسے حقیقتاً کسی جانب سے کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں تھا۔
اس سے پہلے کی تمام جمہوری حکومتوں کے سر پر ایک غیبی طاقت کا جن مسلسل سوار رہتا تھا جو اس کی آزادی ا ور خود مختاری کی راہ میں کسی نہ کسی شکل میں مشکلات پیدا کرتا رہتا تھا اور اسے مکمل آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے سے روکے رکھتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا ہرگز نہ تھا۔ حکمران اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد اور خود مختار تھے، جو قدغنیں اور پابندیاں اگر حائل ہوتی رہیں تو وہ بھی آئین و دستور سے تجاوز کرنے کی وجہ سے حائل ہوتی رہیں یا پھر حکومتی نااہلیوں، مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کی وجہ سے۔ انھیں اگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کوئی مشکل یا مزاحمت در پیش تھی تو ان کا تعلق بھی زیادہ تر معاملوں میں کرپشن ہی سے تھا۔
رینٹل پاور، اسٹیل ملز، این آئی سی ایل، حج کرپشن اور دیگر کیسوں میں سپریم کورٹ نے اگر حکومت کے ہاتھ روکے رکھے تو یقیناً کوئی غلط بھی نہیں کیا۔ بصورتِ دیگر ہماری حکومت کو کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اسے ایک ایسی اپوزیشن سے سابقہ تھا جو میثاقِ جمہوریت میں کیے گئے وعدوں سے عہدِ وفا نبھانے کے شوق میں یہ بھو ل گئی کہ عوام نے انھیں اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر قومی اسمبلی میں بھیجا تھا نہ کہ میثاقِ جمہوریت کی پاسداری میں۔ یہاں عوام اور وطنِ عزیز دونوں ہی کنگال و برباد کردیے گئے اور وہ محض میثاقِ جمہوریت کے تحفظ کی خاطر خاموش تماشائی بن کر ایک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھاتی رہی۔
حکومت نے یہ سنہری دور خودساختہ سازشوں اور بحرانوں کی نذر کردیا۔ اگر وہ چاہتی تو بہت سے تعمیری کام بھی ہوسکتے تھے اور اپنے عوام کی بے مثال خدمت بھی کی جاسکتی تھی لیکن افسوس کہ یہ موقع ضایع کر دیا گیا اور اب حکمرانوں کے نامہ اعمال میں ناکامیوں اور نامرادیوں کے سوا کوئی قابلِ ذکر کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی۔ خود کو عوام دوست کے لقب سے نوازنے والی اس حکومت نے اپنے عوام کا جو حال کردیا ہے وہ بیچارے عوام ہی جانتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور مفلسی نے عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے۔
ان پانچ سال میں روزمرہ کی چیزوں کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ روزگار کے مواقعوں میں اسی تناسب سے سو فیصد کمی آئی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بحران جو حکومت کا اپنا پیدا کر دہ ہے، نے ہماری پچاس فیصد فیکٹریوں اور کارخانوں کو تقریباً بند ہی کرکے رکھ دیا ہے، جن کی وجہ سے پہلے سے موجود بے روز گاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس سارے دور میں حکومت کی عدم دلچسپی کی بدولت بجلی کا یہ بحران طول پکڑتا گیا اور تاحال اس سے نمٹنے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا، بس ہر ماہ قومی خزانے سے پانچ دس ارب روپے جاری کرکے وقتی طور پر مسئلے کی لیپا پوتی کردی جاتی ہے۔
امن و امان کی صورتِ حال بھی کوئی تسلی بخش نہیں رہی، اس شعبے میں بھی حکومت بری طرح ناکام ہی دکھائی دیتی ہے۔ کراچی مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتیوں کی زد میں ہی رہا۔ ہر بار وفاقی و صوبائی وزیرِ داخلہ کے بلند بانگ دعوے سامنے آتے رہے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہی رہا۔ اب تک بظاہر سیکڑوں ٹارگٹ کلر اور دہشت گرد پکڑے جاچکے ہیں لیکن کسی کو بھی عوام اور میڈیا کے سامنے نہیں لایا گیا، لگتا ہے انھیں ایک دروازے سے گرفتار کرکے دوسرے دروازے سے چپ چاپ رہا کردیا جاتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اب تک یہ مسئلہ حل نہ کردیا جاتا۔ دوسرے بحرانوں کی طرح امن و امان کا یہ بحران بھی حکومت کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ بلوچستان ہی کے مسئلے کو لے لیجیے۔ یہاں بھی ذمے داران کی خلوصِ نیت کا وہی فقدان دکھائی دیتا ہے جو دیگر معاملات میں حکومت نے اپنا رکھا ہے۔
صوبے کا نظم و نسق جس شخص کے حوالے کیا گیا اس کی خوبیوں کے بارے میں کوئی بات عوام الناس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس کا اندازِ گفتگو اور معاملہ فہمی کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ وہ ہر سنجیدہ معاملے کو مذاق میں ٹال کر بات کو گول مول کرکے یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان آج ایک آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ نجانے کس گھڑی وہ اچانک آگ اگلنے لگے اور سب کچھ بھسم کرڈالے۔ کسی کو اس سنگین صورتحال کا احساس نہیں ہے، یہاں سب کو صرف اپنی فکر ہے۔ قومی مسائل اور ان کی سنگینی سے لاتعلق ہمارا یہ حکمراں طبقہ اپنی رنگ رلیوں اور خوش گپیوں میں مشغول ہے۔ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں اور بحرانوں کا ذکر کرتے انھیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
بلوچ عوام کی محرومیوں اور ناانصافیوں کے ازالے کے لیے صرف آغازِ حقوقِ بلوچستان جیسے خوش فہم پیکیج دے کر یہ سمجھ لینا کہ ہم نے وہاں کے لوگوں کے احساسِ محرومی اور عرصہ دراز سے پرورش پانے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کردیا ہے، اپنے تئیں دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ وقت تیزی سے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے اور حکومت اپنی کسی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔ اس کی اس عدم دلچسپی اور مسئلے سے لاتعلقی کا خمیازہ اب شاید ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔
بحیثیتِ مجموعی اگر موجودہ پانچ سالہ دورِ حکومت کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ مکمل دور ہمیں خودساختہ بحرانوںاور خود اِختراع سازشوںسے مزین دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے حکومت خود بحرانوں سے نکلنا نہیں چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس سارے دور میں ایک کے بعد دوسرے بحران کا یہ سلسلہ ہمہ تن جاری و ساری رہتا ہے اور حکومت کے پاس ایک ٹھوس اور مضبوط بہانہ موجود رہتا ہے کہ اسے عوام کے مسائل سے نمٹنے کی بظاہر مہلت ہی نہ مل سکی۔ جس حکومت نے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لیے رضامند ہونے میں ساڑھے تین برس گزار لیے، اسے عوام کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے یہ پانچ سال یقینا ناکافی تھے۔ اب یہ ہمارے عوام کی ذمے داری ہے کہ اگر اسے اپنے حالات مزید بہتر کرنے ہیں، ریلوے کو اسی ٹریک پر یونہی چلتا دیکھنا ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو مزید دس پندرہ برس تک برداشت کرنا ہے، بلوچستان کو ہاتھ سے نکلتا دیکھنا ہے اور دیگر نئے بحرانوں کو جنم لیتا اور پرورش پاتا دیکھنا ہے تو اگلے الیکشنوں میں ایک بار پھر وہی فیصلہ کرے جو انھوں نے فروری 2008 کے انتخابات میں کیا تھا۔
خواہ اس ملک کے 18 کروڑ افرادکے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری واقع ہوئی ہو یا نہیں، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ تمام ناکامیوں اور نا اہلیوں کے باوجود یہ ہماری پہلی حکومت ہے جس نے اپنے مینڈیٹ کے پانچ برس بالآخر گزار ہی لیے۔ اسے اگر اپنے دورِ اقتدار میں کبھی کہیں سے کوئی سازش کی بو آتی رہی تو وہ بھی اپنی ہی بداعمالیوں اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے، ورنہ اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ کا یہ پہلا دور ہے جسے حقیقتاً کسی جانب سے کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں تھا۔
اس سے پہلے کی تمام جمہوری حکومتوں کے سر پر ایک غیبی طاقت کا جن مسلسل سوار رہتا تھا جو اس کی آزادی ا ور خود مختاری کی راہ میں کسی نہ کسی شکل میں مشکلات پیدا کرتا رہتا تھا اور اسے مکمل آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے سے روکے رکھتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا ہرگز نہ تھا۔ حکمران اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد اور خود مختار تھے، جو قدغنیں اور پابندیاں اگر حائل ہوتی رہیں تو وہ بھی آئین و دستور سے تجاوز کرنے کی وجہ سے حائل ہوتی رہیں یا پھر حکومتی نااہلیوں، مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کی وجہ سے۔ انھیں اگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کوئی مشکل یا مزاحمت در پیش تھی تو ان کا تعلق بھی زیادہ تر معاملوں میں کرپشن ہی سے تھا۔
رینٹل پاور، اسٹیل ملز، این آئی سی ایل، حج کرپشن اور دیگر کیسوں میں سپریم کورٹ نے اگر حکومت کے ہاتھ روکے رکھے تو یقیناً کوئی غلط بھی نہیں کیا۔ بصورتِ دیگر ہماری حکومت کو کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اسے ایک ایسی اپوزیشن سے سابقہ تھا جو میثاقِ جمہوریت میں کیے گئے وعدوں سے عہدِ وفا نبھانے کے شوق میں یہ بھو ل گئی کہ عوام نے انھیں اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر قومی اسمبلی میں بھیجا تھا نہ کہ میثاقِ جمہوریت کی پاسداری میں۔ یہاں عوام اور وطنِ عزیز دونوں ہی کنگال و برباد کردیے گئے اور وہ محض میثاقِ جمہوریت کے تحفظ کی خاطر خاموش تماشائی بن کر ایک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھاتی رہی۔
حکومت نے یہ سنہری دور خودساختہ سازشوں اور بحرانوں کی نذر کردیا۔ اگر وہ چاہتی تو بہت سے تعمیری کام بھی ہوسکتے تھے اور اپنے عوام کی بے مثال خدمت بھی کی جاسکتی تھی لیکن افسوس کہ یہ موقع ضایع کر دیا گیا اور اب حکمرانوں کے نامہ اعمال میں ناکامیوں اور نامرادیوں کے سوا کوئی قابلِ ذکر کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی۔ خود کو عوام دوست کے لقب سے نوازنے والی اس حکومت نے اپنے عوام کا جو حال کردیا ہے وہ بیچارے عوام ہی جانتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور مفلسی نے عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے۔
ان پانچ سال میں روزمرہ کی چیزوں کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ روزگار کے مواقعوں میں اسی تناسب سے سو فیصد کمی آئی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بحران جو حکومت کا اپنا پیدا کر دہ ہے، نے ہماری پچاس فیصد فیکٹریوں اور کارخانوں کو تقریباً بند ہی کرکے رکھ دیا ہے، جن کی وجہ سے پہلے سے موجود بے روز گاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس سارے دور میں حکومت کی عدم دلچسپی کی بدولت بجلی کا یہ بحران طول پکڑتا گیا اور تاحال اس سے نمٹنے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا، بس ہر ماہ قومی خزانے سے پانچ دس ارب روپے جاری کرکے وقتی طور پر مسئلے کی لیپا پوتی کردی جاتی ہے۔
امن و امان کی صورتِ حال بھی کوئی تسلی بخش نہیں رہی، اس شعبے میں بھی حکومت بری طرح ناکام ہی دکھائی دیتی ہے۔ کراچی مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتیوں کی زد میں ہی رہا۔ ہر بار وفاقی و صوبائی وزیرِ داخلہ کے بلند بانگ دعوے سامنے آتے رہے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہی رہا۔ اب تک بظاہر سیکڑوں ٹارگٹ کلر اور دہشت گرد پکڑے جاچکے ہیں لیکن کسی کو بھی عوام اور میڈیا کے سامنے نہیں لایا گیا، لگتا ہے انھیں ایک دروازے سے گرفتار کرکے دوسرے دروازے سے چپ چاپ رہا کردیا جاتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اب تک یہ مسئلہ حل نہ کردیا جاتا۔ دوسرے بحرانوں کی طرح امن و امان کا یہ بحران بھی حکومت کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ بلوچستان ہی کے مسئلے کو لے لیجیے۔ یہاں بھی ذمے داران کی خلوصِ نیت کا وہی فقدان دکھائی دیتا ہے جو دیگر معاملات میں حکومت نے اپنا رکھا ہے۔
صوبے کا نظم و نسق جس شخص کے حوالے کیا گیا اس کی خوبیوں کے بارے میں کوئی بات عوام الناس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس کا اندازِ گفتگو اور معاملہ فہمی کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ وہ ہر سنجیدہ معاملے کو مذاق میں ٹال کر بات کو گول مول کرکے یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان آج ایک آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ نجانے کس گھڑی وہ اچانک آگ اگلنے لگے اور سب کچھ بھسم کرڈالے۔ کسی کو اس سنگین صورتحال کا احساس نہیں ہے، یہاں سب کو صرف اپنی فکر ہے۔ قومی مسائل اور ان کی سنگینی سے لاتعلق ہمارا یہ حکمراں طبقہ اپنی رنگ رلیوں اور خوش گپیوں میں مشغول ہے۔ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں اور بحرانوں کا ذکر کرتے انھیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
بلوچ عوام کی محرومیوں اور ناانصافیوں کے ازالے کے لیے صرف آغازِ حقوقِ بلوچستان جیسے خوش فہم پیکیج دے کر یہ سمجھ لینا کہ ہم نے وہاں کے لوگوں کے احساسِ محرومی اور عرصہ دراز سے پرورش پانے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کردیا ہے، اپنے تئیں دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ وقت تیزی سے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے اور حکومت اپنی کسی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔ اس کی اس عدم دلچسپی اور مسئلے سے لاتعلقی کا خمیازہ اب شاید ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔
بحیثیتِ مجموعی اگر موجودہ پانچ سالہ دورِ حکومت کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ مکمل دور ہمیں خودساختہ بحرانوںاور خود اِختراع سازشوںسے مزین دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے حکومت خود بحرانوں سے نکلنا نہیں چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس سارے دور میں ایک کے بعد دوسرے بحران کا یہ سلسلہ ہمہ تن جاری و ساری رہتا ہے اور حکومت کے پاس ایک ٹھوس اور مضبوط بہانہ موجود رہتا ہے کہ اسے عوام کے مسائل سے نمٹنے کی بظاہر مہلت ہی نہ مل سکی۔ جس حکومت نے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لیے رضامند ہونے میں ساڑھے تین برس گزار لیے، اسے عوام کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے یہ پانچ سال یقینا ناکافی تھے۔ اب یہ ہمارے عوام کی ذمے داری ہے کہ اگر اسے اپنے حالات مزید بہتر کرنے ہیں، ریلوے کو اسی ٹریک پر یونہی چلتا دیکھنا ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو مزید دس پندرہ برس تک برداشت کرنا ہے، بلوچستان کو ہاتھ سے نکلتا دیکھنا ہے اور دیگر نئے بحرانوں کو جنم لیتا اور پرورش پاتا دیکھنا ہے تو اگلے الیکشنوں میں ایک بار پھر وہی فیصلہ کرے جو انھوں نے فروری 2008 کے انتخابات میں کیا تھا۔