جمہوریت کا حسن سڑکوں پر
سوال یہ ہے کہ عام انتخابات سے کچھ پہلے اتنی ’’ہڑا ہڑی‘‘ سے لوکل گورنمنٹ بلدیاتی نظام 2012 لانے کی کیا ضرورت تھی؟
مانا کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ بھی مانا کہ جمہوریت کے حسن سے مالا مال پاکستانی قوم ''حسینۂ عالم'' ہے۔ سوال یہ ہے کہ ''اتفاقِ رائے'' جمہوریت کی کیا ہے؟ اس کا کوئی جائز رشتہ (جمہوریت سے) ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو کہاں ہے، کس طرف ہے، کدھر ہے؟
پاکستان میں دو قسم کی جمہوریت رائج ہے۔ امیروں کی جمہوریت (پارلیمانی نظام)، جس میں 18 کروڑ عوام کا ایک بھی فرد کروڑوں خرچ کرکے الیکشن لڑسکتا ہے نہ جیتنے کے بعد اربوں کماسکتا ہے، بے چارے کو یہ بھی پتہ نہیں کہ سوئس بینک کس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ B گراس روٹ لیول کی غریبوں کی جمہوریت (بلدیاتی نظام)، جس کو امیروں کی جمہوریت چلنے نہیں دیتی کیونکہ اس میں ٹھیکے ہی ٹھیکے ہیں اور ٹھیکے دار ہی ٹھیکے دار۔ چنانچہ ایڈمنسٹریٹروں، کمشنروں اور کمیشن کلکٹروں کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے عوام کی ''خدمت گزاری'' کرکے ثوابِ دارین حاصل کرتے ہیں۔
اس وقت ڈکٹیٹر ضیا الحق (مردِ مومن) کے بلدیاتی نظام 1979 اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف (روشن خیال) کے ضلعی نظام 2001 کا ''ملغوبہ'' سندھ پلیرز لوکل گورنمنٹ بلدیاتی نظام 2012 پہلے آرڈیننس بل کی صورت اسمبلی میں ڈھائی گھنٹے کے جمہوری ہنگامہ آرائی کے دوران متفقہ طور پر کثرت رائے سے پاس ہوگیا۔ نتیجتاً جمہوریت کے حسن میں یکایک اضافہ ہوگیا اور وہ جلوہ نمائی کے لیے سڑکوں پر آگئی اور حسبِ معمول سندھی قوم پرستوں کو سندھ کی تقسیم کی سازش نظر آگئی۔ اگر اب بھی نظر نہیں آتی تو پھر کب نظر آتی؟ عام انتخابات کو دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟ چند مہینے!
اس سلسلے میں 13 اکتوبر کو گورنر سندھ، اسپیکر سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر اطلاعات کے وضاحتی بیانات شایع ہوئے۔ سیاسی لیڈروں نثار کھوڑو اور شرجیل میمن کے ''جوابِ آں غزل'' والے دھواں دھار حصّے کو چھوڑ کر صرف جمہوریت کے حسن (اختلاف رائے) سے تعلق رکھنے والے نکات تک محدود رہوں گا، سوائے گورنر سندھ عشرت العباد کے ''ٹھنڈے ٹھار'' بیان کے۔
شرجیل میمن (وزیر اطلاعات) کے مطابق لوکل گورنمنٹ بلدیاتی نظام 2012 پورے سندھ کے لیے ایک ہے۔ میئر اور ڈسٹرکٹ چیئرمین کے اختیارات یکساں ہیں۔ نثار کھوڑو (اسپیکر سندھ اسمبلی) کے مطابق (1) مشرف دور میں ناظمین کا انتخاب لڑنے والوں نے اس وقت دہرے نظام کا شور کیوں نہیں مچایا؟ (2) اگر یہ واقعی سنجیدہ ہیں تو کیا الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے؟ (3) انھوں نے اسمبلی میں اپنی سیٹوں سے اعتراض نہ اٹھا کر کثرت رائے سے بل لانے کا موقع دیا۔ گورنر سندھ عشرت العباد وضاحت فرماتے ہیں۔
(1) لینڈ ریونیو کے ذریعے کمشنری نظام اور کراچی کے پانچ اضلاع قائم ہیں (2) پورے صوبے میں صرف کراچی نہیں بلکہ پانچ میٹروپولیٹن کارپوریشنز قائم ہوں گی (3) جو مخالفت کررہے ہیں وہ 2001 کے بلدیاتی نظام کا حصّہ رہ چکے ہیں جو دس سال تک قائم رہا اور آج بھی پنجاب میں رائج ہے (4) بلدیاتی نظام 2012 میں 1979 اور 2001 کے بلدیاتی نظاموں کے اچھے نکات شامل ہیں (5) یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے، ترمیم و تبدیلی ہوسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عام انتخابات سے کچھ پہلے اتنی ''ہڑا ہڑی'' سے لوکل گورنمنٹ بلدیاتی نظام 2012 لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب کہ PPP نے پنجاب میں سرائیکی صوبے کی حمایت کرکے سرائیکی قوم پرستوں کے ساتھ ''ن'' لیگ کے خلاف مورچہ لگالیا ہے۔ جواباً (ن) لیگ نے بھی سندھی قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرکے ان کے شانہ بشانہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ''ٹف ٹائم'' دینے کا طے کرچکی ہے۔ اس کی رفتار تیز تھی لیکن ناہموار کیونکہ عام انتخابات میں استعمال کرنے کے لیے PPP کے خلاف کوئی انتخابی ''دھانسو'' نعرہ دستیاب نہیں تھا۔ سرائیکی صوبہ کے مقابل سندھ میں کراچی صوبہ کا ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایم کیو ایم کے بروقت اعلانات/ اقدامات کی وجہ سے یہ کوششیں رائیگاں گئی۔ کراچی کی دیواروں پر وال چاکنگ رہ گئی۔ ایسے میں بلدیاتی نظام 2012 لا کر سندھی قوم پرستوں کو ایک موثر انتخابی نعرہ (ایک صوبے میں دو بلدیاتی نظام کیوں؟) پلیٹ میں سجا کر دے دیا، کیوں؟
-1 پاکستان میں عام انتخابات 2013 بلاشبہ شفاف ہوں گے یا پھر نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ قابل احترام فخر الدین جی احمد (فخرو بھائی) کی زیر نگرانی ہوں گے۔ لاتعداد نتائج خلافِ توقع/ حیرت انگیز آنے کی توقع ہے جس کے گہرے اثرات سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوں پر (منفی یا مثبت) مرتب ہوں گے۔
-2 دنیا میں وفاقی پارٹیاں رفتہ رفتہ اپنا اثر کھوتی جارہی ہیں اور حکومت بنانے میں مقامی پارٹیوں کی محتاجی بڑھتی جارہی ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی مثال سامنے ہے۔
-3 ایسے میں پیپلز پارٹی ہو یا (ن) لیگ' سینیٹ اور بلدیاتی نظام میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا کوئی موقع ضایع کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں۔
چنانچہ PPP نے پہلے بلدیاتی آرڈیننس 2012 کا اجرا کرکے امکانی ردّعمل کا اندازہ لگالیا اس کے بعد اسمبلی میں بل لا کر پاس کرالیا۔ مثلاً (1) قوم پرست الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے (2) وہ بلدیاتی نظام 2012 مسترد تو کررہے ہیں لیکن مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ کون سا واحد نظام چاہتے ہیں؟ 1979 کا ضیاء الحق والا یا 2001 کا پرویز مشرف والا؟ (سندھی ضیاء الحق والا نظام قبول نہیں کریں گے اور نواز شریف پرویز مشرف والا)۔
''دھرتی ماں'' ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتی بلکہ اس کے بیٹے تقسیم ہوتے ہیں۔ سندھ کی دھرتی صوفیوں اور اﷲ کے ولیوں کی سرزمین ہے۔ سندھ کا سچّا سپوت وہ ہے جو اس دھرتی پر امن اور آشتی کی فصل اگاتا ہے۔ بھائی چارہ کاشت کرتا ہے۔ پیار و محبت کے پھول کھلاتا ہے۔ اس کو سیراب کرنے کے لیے اپنا پیسہ اور اس کی آبرو کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہاتا ہے جس مٹی پر جیتا ہے اسی مٹی میں دفن ہوتا ہے۔
آج کی ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ دنیا کے ممالک صدیوں کی خانہ جنگیوں، آپس کی ملکی جنگوں اور دو عظیم جنگوں میں تباہ وبرباد ہونے کے بعد، سب کچھ بھلا کر بقائے باہمی کے معاہدے کررہے ہیں، مشترکہ منڈیاں قائم کررہے ہیں، مشترکہ کرنسی استعمال کررہے ہیں جب کہ ہم پاکستانی آدھا پاکستان گنوانے کے بعد بھی اپنی ہانکنے سے باز آتے ہیں، نہ دوسرے کی سننے کے روادار!
ذرا سوچیے! کہیں ہم ان بدقسمت قوموں میں تو شامل نہیں ہوگئے، جو آدھی بات سنتے ہیں، پائو بات سمجھتے ہیں۔ سوچتے بالکل نہیں۔ مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ (خدا باقی پاکستان کی حفاظت کرے!)