شاپنگ اور محبت
ہمارے گھر اور ہمارے دماغ ایسی اشیاء اور ایسے خیالات سے پٹَے پڑے ہیں جن کی ہمیں قطعی کبھی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
''کیا میں آپ کے لیے ایک کپ کافی خرید سکتا ہوں؟'' گوروں کے دیس کا یہ خوبصورت ترین جملہ ہے۔
اگر آپ کسی کو لبھانا، رِجھانا یا کسی کے دل میں گھر بنانا چاہتے ہوں تو یہ اُس کا آسان نسخہ ہے۔ آج کے دور میں کسی اور کے لیے خریداری نہ ہی عام ہے نہ سہل۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے شہروں اور قصبوں میں خریداری کے بڑے بڑے مراکز تعمیر ہوتے جارہے ہیں۔ ایک جانب دنیا بھر میں مہنگائی اور کساد بازاری کا دور دورہ ہے، دوسری جانب خریداروںکا ہجوم اور حجم بھی بڑھ رہا ہے۔ 'صنعتی انفجار' سے قبل انسانی تاریخ اس طرح کے مراکز اور رویوں سے تہی نظر آتی ہے۔ چند صدیوں قبل تک بازار تو درکنار ہر شہر اور ہر قصبے کے لیے باقاعدہ دکانیں بھی نہیں ہوا کرتی تھیں۔
آج کل کے ہفتہ بازار کی طرز پر کسی جگہ عارضی دکانیں سی قائم ہوجایا کرتی تھیں اور وہیں افراد ضرورت کی اشیاء خرید و فروخت کرلیا کرتے تھے، نہ بہت زیادہ اشیائے صرف ہوا کرتی تھیں نہ غیر ضروری خریداری۔ آج کے غریبوں کے گھروں کا جائزہ لیں، آپ کو وہاں کئی ایک ایسی آسائشات نظر آئیں گی جو نصف صدی قبل کے رئوسا کو بھی میسر نہ تھیں۔ اگر ہم ایمان داری سے اپنے گھروں اور زندگیوں کو کھنگالیں تو ایسی اشیاء کا انبار لگ جائے جو ہمارے لیے قطعی غیر ضروری ہیں۔
ہمارے گھر اور ہمارے دماغ ایسی اشیاء اور ایسے خیالات سے پٹَے پڑے ہیں جن کی ہمیں قطعی کبھی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ گھر اور دماغ کی تطہیر کو گوروں نے علم، فن اور کاروبار کا درجہ دے لیا ہے۔ وہ اسے de clutter کرنا کہتے ہیں۔ لیکن ہمارا سوال تو یہ ہے کہ یہ سب اشیاء جمع ہی کیوں ہوتی ہیں؟ خریدی ہی کیوں جاتی ہیں؟ اِس موضوع پر مارکیٹنگ گرو مارٹن لینڈ اسٹارم نے خوب ہی کام کیا ہے۔ ابتدا میں انھوں نے Forbes کے لیے مضمون In search of Buy button تحریر کیا اور اس کے بعد کتاب BUYOLOGY لکھ کر تو انھوں نے تہلکہ ہی مچادیا۔ آپ کے کام کی بنیاد neurological marketing research پر ہے۔ ہمارا موضوع خریداری کے رجحان کی بنیاد کی تلاش ہے۔ جب کہ لینڈ اسٹارم رجحان سازی کے طریقوں سے متعلق تحقیق کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس کی اہمیت ثانوی ہے۔
'صنعتی انفجار' کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ صنعتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے صارفین کی بڑی تعداد مہیا کی جائے۔ اسراف پر مائل صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافے کے لیے جہاں ایک جانب اشتہارات وغیرہ کے ذریعے اِشتہا کو انگیختہ کیا گیا تو دوسری جانب لوگوں کو آزادی اور حقِ انتخاب کا فلسفہ پلایا جانے لگا۔ یہ باور کروایا جانے لگا کہ صنعتی انقلاب اور صنعتی ترقی کوئی بہت اچھی چیز ہے اور انسانوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ نتیجے کے طور پر انسانی تاریخ کا مظلوم ترین غلام جنم لیتا ہے، اسے ہم آج کے انسان کے نام سے جانتے ہیں۔
آزادی کے نام پر بچپن ہی سے یہ خواہشوں اور سرمائے کا ایسا اسیر ہوتا ہے کہ تمام عمرکولہو کے بیل کی طرح سرمائے کے چکر کاٹتا رہتا ہے، چکر اور ہوس ختم نہیں ہوتی عمر تمام ہو جاتی ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ دنیا بھر کے وسائل اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں محدود ہوتے جارہے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان ماحولیات کی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ماحولیات کی بربادی اور آلودگی لاینحل مسئلہ بنا ہوا ہے۔
صارف کو جب آزادی اور حقِ انتخاب سے لیس کردیا گیا تو اس نے ضروریات سے تعیشات تک کا سفر نہایت سرعت سے طے کرلیا۔جائز احتیاجات legitimate desires جلد ہی غیر ضروری اور بسا اوقات مہلک خواہشات سے تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ جب آمدنی محدود اور خواہشات لامحدود ہوں تو انسان محض اپنے اور صرف اپنے لیے سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ خاندانی نظام صلہ رحمی پر چلتا ہے۔ خراچ معاشروں یا صارف تہذیبوں میں نہ تو خاندان ہی باقی رہتا ہے نہ صلہ رحمی۔
ایک اور المیہ جو ہمارے رویوں میں در آیا ہے۔ وہ ہے دلیلِ محبت کی تبدیلی۔ آج محبت کی دلیل کا تقاضا یہ طے پاتا ہے کہ آپ کتنی چیزیں خرید کر دے سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی منکوحہ کو یا اپنی اولاد کو شاپنگ نہیں کروا سکتے تو آپ نِکّو اور ناکام ہیں۔ اگر آپ اپنے ضعیف والدین کا مہنگا علاج نہیں کروا سکتے تو آپ اچھی اولاد کیسے ہو سکتے ہیں؟ دو بیٹے ہوں ایک بیٹا والدین کی خدمت میں ہر وقت جُتا رہتا ہو، والدین سے ہر دم جڑا رہتا ہو، جب کہ دوسرا محض والدین کو علاج معالجے کی عمدہ سہولیات فراہم کرے، ہر سال حج عمرے پر روانہ کردے وغیرہ، لیکن خود سے آکر شکل کم ہی دکھاتا ہو، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں کس کی عزت ہوگی۔
ایک بھائی ہے، بہن کے اخراجات برداشت کرتا ہے یہاں تک کہ شادی کے مصارف بھی، جب کہ دوسرا کسی بھی وجہ سے کچھ زیادہ نہ کر پائے۔ کیا یہ سوال اٹھانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ کس بھائی کی محبت کے چرچے ہوں گے؟ کس کی محبت کو تسلیم کیا جائے گا؟ ایک باپ اپنی اولاد کو مہنگے اسکولوں میں تعلیم دلوا رہا ہے، (آج کل کی تعلیم بھی تو بِکتی ہے نا) اچھے پڑھانے والوں کا انتظام کر رکھا ہے، بچے بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، یہ واقعی ایسا باپ ہے جس کی اولاد سے محبت سب تسلیم کریں گے۔
اس کے برعکس ایک باپ ایسا ہو جو بچوں کو اسکول کی فیس تو درکنار دو وقت کی روٹی نہ دے پا رہا ہو، اندازہ کریں اس کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے؟ ان کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہوتا۔ انھیں اس اعلیٰ انسانی معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہوتا؟ یہ ہی سبب ہے کہ وہ اس معاشرے کو چھوڑ دیتے ہیں، خودکشی کرلیتے ہیں۔ آج کل آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ جب ایک باپ بچوں کے اسکول کی فیس کی عدم ادائیگی پر، بچوںکے لیے بہتر مستقبل نہ خرید پانے پر خودکشی کرلیتا ہے، بچوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ تو کیا یہ نام نہاد تعلیم اتنی ہی ضروری ہے؟ ایک باپ کی جان سے بھی زیادہ؟
بقر عید قریب ہے ذرا پوچھیے ان والدین کے دل سے جو گلی محلے اور فلیٹوں میں گھمانے کے لیے اپنی اولاد کے ہاتھ میں کسی گائے یا بکری کی رسی نہیں تھما سکتے۔ کیا ایسے افراد کے بچے اپنے باپ کو محبت کرنے والا گردانتے ہیں؟
یہ انسانی تاریخ کا عجیب ترین موڑ ہے جب ماں باپ اور اولاد کی محبت بھی شاپنگ کے پیمانے سے ناپی جارہی ہے جب اپنی خواہشات ہر رشتے سے مقدم ہوتی جا رہی ہیں۔