پشاور حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور دہشتگرد بھی وہیں سے آئے ترجمان پاک فوج

افغانستان کا نام ثبوتوں کی بنا پر لیا گیا اور پڑوسی ملک کی طرح الزام نہیں لگایا، میجر جنرل عاصم باجوہ


ویب ڈیسک September 18, 2015
دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ان کے سہولت کاروں اور مددگاروں کا صفایا کیا جاتا رہے گا، میجر جنرل عاصم باجوہ، فوٹو:فائل

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے بڈھ بیر حملے میں 29 افراد کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی جب کہ دہشت گرد بھی وہیں سے آئے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ بڈھ بیر میں ایئرفورس کے کیمپ میں صبح 5 بجے کے قریب 13 سے 14 دہشت گرد داخل ہوئے، دہشت گرد 2 گروپوں میں گاڑیوں میں آئے اور گیٹ کے قریب گاڑی سے اتر کر راکٹ لانچر اور فائرنگ کرتے ہوئے ایک گروپ ٹیکنیکل ایریا اور دوسرا گروپ وہیکل ایریا میں داخل ہوا تاہم گیٹ پر موجود ایئرفورس کے گارڈز نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روک لیا۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ حملے کے بعد 10 منٹ میں کوئیک ری ایکشن فورس بھی موقع پر پہنچ گئی اور دہشت گردوں کو پہلے 50 میٹر کے اندر روک دیا گیا اس کے بعد جو بھی لڑائی ہوئی اسی ایریا میں ہوئی لیکن اسی دوران دہشت گردوں نے مسجد کا رخ کیا جہاں موجود نمازیوں پر حملہ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 8 دہشت گرد مسجد کی جانب گئے جنہیں کوئیک ری ایکشن فورس نے گھیر کر وہیں پر ختم کردیا جب کہ دوسرے گروپ کو بھی وہیکل ایریا سے آگے بڑھنے نہیں دیا گیا اور ان کا بھی وہیں پر خاتمہ کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران میں کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا اورتمام دہشت گردوں کو گھیر کر مارا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ حملے کے بعد آدھے گھنٹے میں کمانڈوز اور ایس ایس جی کی ٹیمیں بھی پہنچ گئی تھی جب کہ پولیس نے بھی گیٹ کے باہر ایک گھیرا لگایا جس کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ حملے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 29 افراد شہید ہوئے جن میں سے 23 کا تعلق پاک فضائیہ سے ہے جب کہ واقعے میں 29 افراد زخمی ہوئے اور فورسز کی کارروائی میں تمام 13 دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور دہشت گرد بھی وہیں سے آئے، حملے کے وقت دہشت گردوں کو افغانستان سے ہی کنٹرول کیا جاتا رہا جب کہ حملہ طالبان کے گروپ نے ہی کیا تاہم مزید تفصیلات انٹیلی جنس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی پتا چل سکیں گی۔ میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کا نام ثبوتوں کی بنا پر لیا گیا اور پڑوسی ملک کی طرح الزام نہیں لگایا جب کہ افغانستان کے کراسنگ پوائنٹس سیکیورٹی رسک ہیں جہاں سے 35 ہزار افراد افغان بارڈر سے روزانہ آتے ہیں اور دہشت گرد پاکستان میں آکر کھل مل جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور ریاست دہشت گرد حملے میں ملوث نہیں ہوسکتی کیوں کہ ان سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن افغان مہاجرین ہمارے لیے سیکیورٹی رسک ہے۔

میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ہم دہشتگردوں کا مقابلہ جرات اور بہادری سے کرتے رہیں گے جب کہ میں میڈیا اور عوام کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مثبت کردار ادا کیا ، پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے نتائج ہمیں مل رہے ہیں، دہشت گردوں کے سہولات کار اور مددگار رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں اور ان کا صفایا ہوتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔