مسئلہ کشمیر کے بارے میں اوباما کا اظہار خیال

عالمی برادری سے توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ امریکا اور اسکے حواری...


Editorial July 17, 2012
عالمی برادری سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ امریکا اور اس کے حواری ممالک کو ایک اور تباہی کی جانب جانے سے باز رکھیں فائل فوٹو

امریکی صدر بارک اوباما نے مسئلہ کشمیر کے لیے کسی بھی بیرونی حل کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازع پاکستان اور بھارت کو خود ہی حل کرنا ہو گا۔ انھوں نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے کو اتوار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے اس سے جنوبی ایشیاء اور پوری دنیا پر اچھے اثرات ہوں گے۔ امریکی صدر کا یہ بیان جنوبی ایشیاء کے ایک بڑے اور اہم مسئلے کے حل سے کنی کترانے کے مترادف ہے۔

یہ بات بڑی عجیب ہے کہ وہ جنوبی ایشیاء سمیت پوری دنیا میں امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کے حل کی بات کی جائے تو ان کی جانب سے جانبداری شروع ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کشمیر کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے بالکل ویسا ہی موقف ان کا اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے بھی ہے' وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل فلسطین تنازع دونوں قوتیں مل بیٹھ کر حل کریں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نہ تو اپنے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کو درخور اعتنا سمجھتا ہے اور نہ ہی اپنی بستیوں کو توسیع دینے کے حوالے سے امریکا کی کوئی بات سنتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تنازع کو اس نہج تک پہنچانے میں امریکا کا منفی کردار سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف لائی جانے والی قراردادوں کو اکثر ویٹو کر دیتا رہا ہے جو ایک طرح سے فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کو شہ دینے کے مترادف ہے۔ امریکا کا یہ جانبدارانہ رویہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھی قائم ہے' صدر اوباما دنیا کی واحد سُپر پاور کے سربراہ ہونے کے ناتے یقیناً اس ٹھوس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہوں گے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر ناجائز طور پر قبضہ کر رکھا ہے بالکل اسی طرح بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے اور اس سلسلے میں ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے' حتیٰ کہ اس حوالے سے ہونے والے مذاکرات کو بھی سبوتاژ کیا جاتا رہا ہے' اس کے باوجود امریکی انتظامیہ نہ صرف بھارت کی حامی ہے بلکہ اس کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہی ہے جس میں سول ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی بھی شامل ہے جو ایک طرح سے اس کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو طول دینے کے مترادف ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ کشمیر سمیت دیگر سبھی دیرینہ دو طرفہ مسائل کے حل کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے مابین اب تک جو بھی مذاکرات ہوئے وہ پاکستان کی کوششوں کا نتیجہ تھے جو غماز ہیں کہ پاکستان اپنے موقف میں درست اور سچا ہے جب کہ بھارت ان مذاکرات سے ہمیشہ گریزاں رہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم کشمیر کے بارے میں وہ اپنے موقف میں حق بجانب نہیں۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ پاکستان نے کبھی امریکا یا عالمی برادری سے یہ نہیں کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کریں بلکہ ہمیشہ یہی قرار دیا ہے کہ امریکا یا برطانیہ یا عالمی برادری اس مسئلے کے حل میں کردار ادا کریں یعنی مذاکرات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے سلسلے میں آگے بڑھیں اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کریں کیونکہ وہ ایسی بات چیت سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان اس بات کا حامی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی اس کا یہ خیال بھی ہے کہ دونوں ملک اگر تسلسل کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھیں تو اس حوالے سے کسی قابل عمل حل تک پہنچا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں جاری ہیں۔ افغانستان کے مستقبل اور اس میں بھارتی کردار کے بارے سوال پر اوباما کا کہنا تھا کہ اس کا کردار بہت اہم ہو گا جس میں افغان پولیس کی تربیت، عوام کی بہتر زندگی اور ترقی کے لیے بھارتی فیاضی شامل ہے۔ یہ واضح ہے کہ جس طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو چھوٹ دینا مسائل بڑھانے کا باعث ہے اسی طرح افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا کردار بھی اس ملک اور ذرا وسیع تر تناظر میں اس خطے میں پائیدار امن کے قیام کی کوششوں کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کو سائیڈ لائن کر کے کوئی ہدف پورا کرنا امریکا کے لیے ممکن نہیں ہو گا لیکن چونکہ امریکی انتظامیہ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے ضروری ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جہاد میں حصہ لینے والی افغان طاقتوں کو بے یارومددگار چھوڑنے کی طرح امریکا کو افغانستان میں بھارت کا کردار بلاجواز بڑھانے کا تجربہ بھی کرنے دیا جائے' حالات جلد ہی بتا دیں گے کہ اس حوالے سے پاکستان کا موقف ہی درست ہے۔

تاہم عالمی برادری سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ امریکا اور اس کے حواری ممالک کو ایک اور تباہی کی جانب جانے سے باز رکھیں میں اپنی حیثیت کا کردار ادا کریں گے تاکہ پائیدار عالمی امن کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس کے لیے تیار بھی ہے کیونکہ اس مسئلے کا حقیقی اور قابل عمل حل وہی ہو گا جو اس خطے کی تاریخی حیثیت اور حقائق کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں