امریکا میں ذہین مسلمان لڑکے کی پذیرائی

صدر اوباما نے احمد محمد کو آیندہ ماہ وہائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی ’’اسٹرانومی نائٹ‘‘ میں شرکت کی دعوت دی ہے


Editorial September 19, 2015
ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی ہر گز کوئی کمی نہیں ہے مگر ’’ٹیلنٹ ہنٹ‘ کا کوئی پروگرام نہیں۔ فوٹو : فائل

امریکا میں ایک چودہ سالہ مسلمان لڑکا احمد محمد اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے باعث چشم زدن میں پورے ملک میں مشہور ہو گیا ہے۔

ریاست ٹیکساس کے رہنے والے احمد محمد نے اپنے بریف کیس اسٹائل پنسل باکس کو خالی کر کے اس کے اندر ایک ڈیجیٹل کلاک بنا لیا اور اپنی اس سائنسی تخلیق کو اس امید پر اسکول میں ٹیچر کو دکھانے لے گیا کہ وہ خوش ہو کر داد دیں گی مگر سفید فام خاتون ٹیچر کے ذہن میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کا عنصر نمایاں تھا جس نے شور مچا دیا کہ یہ لڑکا اسے بم دھماکے سے اڑانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اسکول میں پولیس طلب کر لی گئی جو معصوم احمد محمد کو ہتھکڑی لگا کر اسکول سے لے گئی۔

تفتیش پر پتہ چلا اس نے تو ایک نئی طرز کی ڈیجیٹل گھڑی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی شہرت ہوئی جو ملک بھر میں پھیل گئی۔ اب وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے احمد محمد کو آیندہ ماہ وہائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی ''اسٹرانومی نائٹ'' میں شرکت کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنا ہوم میڈ کلاک ساتھ لے کر آئے۔ پولیس نے احمد کو رہا کرتے ہوئے اس کے خلاف ''بم برداری'' کا جو الزام لگایا گیا تھا واپس لے لیا گیا۔

احمد محمد نے ڈیجیٹل وال کلاک سے پہلے بھی چند سائنسی اختراعات کی ہیں جب کہ اس کی زندگی کا ہدف امریکی خلائی ادارے ناسا میں ایک انجینئر کی حیثیت سے شمولیت ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ احمد کو جو میک آرتھر ہائی اسکول کا طالب علم ہے اسے ناسا کی طرف سے بھی اس خلائی تحقیق کے ادارے کا دورہ کرنے کی دعوت مل چکی ہے۔

اس ساری کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ وہ ممالک جنھیں ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں ان کی ترقی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت جوہر قابل کی تلاش میں رہتے ہیں اور جہاں بھی قابلیت کی جھلک یا ہلکی سی رمق بھی پاتے ہیں اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔ گویا انھوں نے اپنے سماجی اور سیاسی نظام کو اس انداز سے مرتب کر لیا ہے کہ ذہانت کو بڑھاوا ملے جس کے نتیجے میں ان کے ممالک دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔

دوسری طرف اگر ہم وطن عزیز کی حالت دیکھیں تو یہاں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک ایسا نظام نافذ نظر آتا ہے کہ کسی اہلیت والے شخص کو آگے ہی نہ آنے دیا جائے اور اگر بالفرض محال وہ کسی بہتر جگہ پہنچ جائے تو پھر اس کے خلاف باقاعدہ طور پر سازشوں کا طومار باندھ کر اسے او ایس ڈی بنوا دیا جائے۔

ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی ہر گز کوئی کمی نہیں ہے مگر ''ٹیلنٹ ہنٹ' کا کوئی پروگرام نہیں۔ بس اس نوعیت کی غیر ملکی خبریں پڑھ کر ہی اپنا اور ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔