روشن بلوچستان
پانچ دن کوئٹہ گزارکرآج ہی واپس پہنچا ہوں۔ بلوچستان قائم ودائم ہے
پانچ دن کوئٹہ گزارکرآج ہی واپس پہنچا ہوں۔ بلوچستان قائم ودائم ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارایہ قیمتی صوبہ، مصائب کے بھنورسے تقریباًباہرنکل چکاہے۔ آخراس دوڈھائی سال میں بالاخر ایساکیاہواہے کہ امیدکانخل باغ وبہارہوگیاہے۔آخریہ معجزہ کیسے برپاہوا۔عرض کرونگاکہ بلوچستان میں ایک بین الاقوامی سازش کوکیسے ناکام بنایا گیا۔
شائدآپکواندازہ نہ ہوکہ ہمارے ملک کے اس حصے کو جدا کرنے کے لیے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کردیے گئے تھے۔سابقہ مرکزی اورصوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت اس سازش کاحصہ تھی یا نہیں، یہ بذات خودایک غورطلب بات ہے۔"آغازحقوق بلوچستان"کے نام سے جومنصوبہ شروع کیاگیا،اسے قصداً ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔ غفلت نہیں،بلکہ قیامت جیسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مرکزی سطح پراس خطے کے حالات کوبہتر کرنے کاکام ان اشخاص کے سپردکیا گیا، جنھیں بلوچستان کے قبائلی نظام اور یہاں پر برپاشورش کامکمل ادراک نہیں تھا۔
صوبائی سطح پر سابقہ وزیراعلیٰ اوران کی ٹیم پر شدیدقسم کی مالی بدعنوانیوں کاالزام ہے۔عملی طورپرسابقہ وزیراعلیٰ کوئٹہ آتے ہی نہیں تھے۔دھماکے،فرقہ کی بنیادپرقتل عام،صوبہ میں روزی روٹی کمانے والے باہر سے آئے ہوئے مزدوروں کی گردن زدنی بالکل معمول تھا۔ ہندوستان اوراسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں یہاں انتہائی گھناؤناکھیل کھل کر کھیل رہی تھیں۔ ہمارے دوست نمادشمن تمام ممالک اس کارِ خراب میں اپنامکمل حصہ ڈال رہے تھے۔ اردگردکے مسلم ممالک بھی پوری طرح شامل تھے۔
دکھ اور المیہ یہ ہے،کہ بلوچستان کوایک جنگ کے تھیٹرکی حیثیت سے استعمال کیاجارہاتھا۔یہ ایک ابتدائی خاکہ ساہے جسکے تناظر میں آپ کوحالات سمجھنے میں قدرے آسانی ہوجائیگی۔ کوئٹہ میں تمام اہم لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وزیراعلیٰ سے لے کرکورکمانڈرتک۔دیگرتمام اداروں کے سربراہان سے لے کر کئی عوامی نمایندوں تک۔کئی باتیں لکھ سکتاہوں مگر اکثر باتوں کوضبط تحریرنہیں کیاجاسکتا۔محترم نواز شریف کااصولی اورسنجیدہ فیصلہ یہ تھاکہ انھوں نے ڈاکٹر عبدالمالک جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کووزارتِ اعلیٰ کاقلم دان سونپا۔انھوں نے اپنی پارٹی یعنی" مسلم لیگ ن"کے مقامی مضبوط سیاستدانوں کی مخالفت مول لے لی۔ مگر اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔
اس زاویہ سے نواز شریف کی بھرپور تعریف ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کاتعلق کسی بڑے سیاسی گھرانے سے نہیں ہے۔وہ بولان میڈیکل کالج کے گریجویٹ ہیں اورمڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو مرتبہ صوبائی وزیررہنے کے باوجوداس شخص کادامن کرپشن کے داغ سے صاف رہا۔ہمارے سیاسی نظام میں یہ انہونی بات ہے۔ خاص طورپربلوچستان میں یہ ایک نایاب مثال ہے۔جہاں پورانظام سرداری اورقبائلی عصبیت پرچلتا ہو، وہاں متوسط طبقے کے ایک شخص کاسیاست میں زندہ رہنا اور وزیراعلیٰ کے مقام تک پہنچناغیرمعمولی ہے۔
عبدالمالک اگر پنجاب یاسندھ میں ہوتے،توشائدان جیسے قوم پرست اور ترقی پسندشخص کوآگے نکلنے کے انتہائی محدودمواقعے ملتے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان پرکوئی دروازہ بھی نہ کھلتا۔آپکویہ بھی ذہن میں رکھناچاہیے،کہ ڈاکٹر عبدالمالک کاتعلق مسلم لیگ ن سے نہیں ہے۔نوازشریف کا یہ فیصلہ"پارٹی پولیٹکس"سے مکمل طورپراوپرہے،صرف اور صرف قومی مفادمیں۔اب آپ اس پیچیدہ صورت حال میں فوج کے کردار کو پرکھیے۔لیفٹیننٹ جنرل ناصرجنجوعہ اس وقت کورکمانڈر ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بالکل قریب۔اس پوری صورت حال میں اس شخص کاکردار کلیدی ہے،انتہائی اہم۔ بتایاگیاکہ جنرل جنجوعہ نے وزیراعلیٰ کوحکومت میں آتے ہی اپنے ادارے کی جانب سے بھرپورتعاون کایقین دلایا۔ انھوں نے وہ کچھ کرڈالا، جو تھوڑاعرصہ پہلے سوچابھی نہیں جاسکتاتھا۔کم ازکم میری سرکاری زندگی میں،اداروں کااس درجہ اعتماداورتعاون دیکھنے میں نہیں آیا۔سنی سنائی بات ہے کہ فوج کے اس منفرد سے کور کمانڈر نے،وزیراعلیٰ کوکہا،کہ آپ قومی مفادمیں فیصلے کریں،ہم آپ کے ساتھ ہرطریقے سے کھڑے ہوئے ہیں۔ہم ہرسطح پرآپکے فیصلوں کوعمل درامد کروانے میں آپکی معاونت کرینگے۔
ایک اورانتہائی دشوار گھاٹی بھی ان دونوں محترم لوگوں نے ملکرعبورکی۔ہماری ایجنسیاں ایک دوسرے سے حساس معلومات کوچھپانے کے مرض میں مبتلاہیں۔ دو سال پہلے یہ فیصلہ کیاگیاکہ تمام ایجنسیاں،بلوچستان کے حوالے سے معلومات ایک دوسرے سے شیئربھی کرینگی اور ایک چھت تلے کام بھی کرینگی
۔اس فیصلہ پرمن وعن عمل ہوا۔چنانچہ سول اورفوجی انتظامیہ نے ایک ٹیم کی حیثیت اختیار کرلی۔ ایجنسیوں نے اس نئے تجربے سے کمال کر ڈالے۔اس اس مشکل جگہ ہاتھ ڈالاگیا،جہاں دہشت گرد اپنے آپکومحفوظ ترین سمجھتے تھے۔اہم بات یہ بھی ہے،پورے معاملات میں فوج کسی جگہ بھی بذات خودشامل نہیں۔یہ اَمرانتہائی سنجیدہ ہے کیونکہ فوج کی براہ راست مداخلت سے معاملات بگڑنے کا اندیشہ تھا۔
بلوچستان کی پیراملٹری فورس یعنی ایف۔سی نے ان معاملات میں سول انتظامیہ کے ساتھ فقیدالمثال تعاون کیا۔ضلع کی حدتک ڈپٹی کمشنر،ڈویثرن کی حدتک کمشنراس کوآرڈینشین میں شامل ہیں۔مقامی پولیس اورایف۔سی نے انتہائی دشوار گزارجنگ کاآغازکیا۔یہ جنگ تھی،ان دہشت گردوں کے خلاف جو بلوچستان اورپاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ ان دوسالوں میں مقامی لیویزکی تعریف نہ کرنا بخل ہوگا۔ جولوگ اوردانشور،بلوچستان کے طول وعرض کے حالات کونہیں سمجھتے یاکبھی بلوچستان کے دیہی مقامات میں نہیں رہے،وہ اے اوربی ایریاکی لاحاصل بحث میں مصروف رہتے ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف مقامی لیویزنے بھرپور کردار اداکیاہے۔ہمیں لیویزکے ان سپاہیوں پر تنقید کے تیرنہیں برسانے چاہیے۔میں ڈاکٹر شعیب کے تجویرکردہ نسخہ سے قطعاًمتفق نہیں۔ڈاکٹرصاحب نے بلوچستان کے دوردرازعلاقوں میں نوکری نہیںکی،یابہت کم کی ہے۔ لہٰذا انھیں اپنے خیالات کو اس علاقے کی مٹی کی خوشبومیں گوندھ کر تبدیل کرنا چاہیے۔
آواران،ڈیرہ بگٹی، کوہلو اوردیگرعلاقوں کے لیویزکے ساتھ چند ہفتے گزارنے چاہئیں۔ انھیں بلوچستان کی مقامی روایات اورمزاج کااندازہ ہوجائیگا۔اس لیے بھی عرض کررہاہوں کہ میں نے بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں کئی سال گزارے ہیں۔اس معاملہ پراپنی معروضات کسی اوروقت پیش کرونگا۔ چیف سیکریٹری،سیف چھٹہ کی تعریف کرنابے جانہ ہوگا۔ ان کا بلوچستان سے بھرپور اور طویل تعلق ہے۔اس شخص نے نو سال، صوبہ کے دشوارترین جگہوں پر گزارے ہیں۔
اے سی اور ڈی سی کے علاقائی تجربہ نے ان کی شخصیت اورسوچ پربہت گہر ااثر ڈالا ہے۔وہ بذات خود،عملی طورپر،بلوچستان کے حقوق کے ایک مستندوکیل ہیں۔ بالکل اس طرح ہوم سیکریٹری اکبر درانی بھی ہروقت جنات کی طاقت اوراہلیت لے کردہشت گردوں سے دست وگریبان ہیں۔ خدا ان جیسے اچھے افسروں کی حفاظت کرے۔ صاحبان زیست! بلوچستان میں پاکستانی جھنڈالہرانا ناممکن ہوچکاتھا۔آج یہاں ہرجگہ قومی پرچم پوری شان اور قوت سے لہرارہاہے۔
چودہ اگست جس بھرپورطریقے سے منایاگیا،اس کی مثال لاہور،کراچی اوراسلام آبادمیں بھی نہیں ملتی۔یہ کارنامہ صرف اورصرف ہماری پولیس اورایف سی کے جوانوں کی شہادتوں سے ممکن ہواہے۔ہاں!ان سیکڑوں جوانوں کے طفیل بھی،جنہوں نے پوری عمرکی معذوری قبول کر لی،مگردہشت گردوں کاسرکچل کررکھ دیا۔یہاں لوگ بھرپور طریقے سے زندگی گزاررہے ہیں۔بازاراورسڑکیں مکمل طور پر آبادہیں۔چندلوگ حالات کی وجہ سے بلوچستان چھوڑنے پر مجبورہوچکے تھے،وہ آہستہ آہستہ واپس آرہے ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے،کہ بلوچستان کوملکی وسائل سے اس کے جغرافیائی بڑائی کے حساب سے مناسب حصہ نہیں ملتا۔ یہاں کے لوگوں کایہ گلہ بالکل جائزہے،کہ ان کی ضرورت کے مطابق وسائل مہیاکرنے میں مرکزی حکومت نے اکثرجگہ کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کیاہے۔کوئٹہ میں بھی انڈرپاس بننے چاہیئں۔یہاں بھی جدیدپُل اوردیگرترقی کے تمام نشان تعمیرہونے چاہیے۔ یہ سب کچھ، مقامی لوگوں کاحق ہے۔اس پرجتنی توجہ دی جائے،اتنی ہی کم ہے۔اس میں دیرقطعاًنہیں ہونی چاہیے۔
اب میں ایک انتہائی مشکل نکتے کی جانب آتا ہوں۔ محترم وزیراعظم نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کوپانچ سال کے دوادوارمیں تقسیم کیاتھا۔ڈاکٹرعبدالمالک اورانکے بعد مسلم ن کاوزیراعلیٰ۔یہ معاہدہ ہر باخبرانسان کے علم میں ہے۔ طالبعلم کی دانست میں،یہ نازک وقت اس تبدیلی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔جنگوں کے دوران،گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے۔
مگریہ سیاسی فیصلہ آسان نہیں ہے۔جس تدبر کامظاہرہ نواز شریف نے ڈاکٹرعبدالمالک کووزارت اعلیٰ دیتے ہوئے کیا تھا،یہ اس سے بھی مشکل اورپیچیدہ فیصلہ ہے۔ملکی مفاد، اگر ڈاکٹرعبدالمالک کوپانچ برس وزارت اعلیٰ پرکام کرنے سے محفوظ ہوتے ہیں،توسیاست کوبالائے طاق رکھتے ہوئے یہ فیصلہ لینا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ، کورکمانڈر ناصر جنجوعہ کی ریٹائرمنٹ کاہے۔غالباًوہ اگلے ماہ ریٹائرہورہے ہیں۔ جس جذبہ اورنئے پن سے سول حکومت کے ساتھ جنجوعہ نے تعاون قائم کررکھاہے،اسکوبرقراررکھناآنے والے شخص کے لیے آسان نہیں ہوگا۔فوجی قیادت کوہزاربار سوچنا چاہیے۔ ناصر جنجوعہ کی صلاحیت کوبلوچستان کے اعتبارسے نئی ذمے داری سونپ کرقومی فائدہ ہوسکتاہے۔
یہ تمام انتہائی مشکل مراحل ہیں۔ بلوچستان ہمارے ملک کامستقبل ہے۔ تمام فریقین نے محنت کرکے یہاں کے حالات بہترکردیے ہیں۔ امن بہت عرصے کے بعدآیا ہے۔ یہاں ترقی کے سورج کی کرنیں بہت تیزی سے پہنچنی چاہیے۔یہ مقامی عوام کاحق ہے۔لوگوں کے چہروں پرمسکراہٹ دیکھ کردل خوش ہواہے۔تیزی سے ترقی کرتاہوابلوچستان،ہمارے ملک کی تقدیربدل دیگا۔ روشن بلوچستان ہماراسب کچھ ہے!