کسانوں سے ہمدردی کی لہر
یہ بات تو عیاں ہے کہ اہل سیاست کسی مقصد کے بغیر نہ کسان ریلیاں نکالتے ہیں
پچھلے کچھ عرصے سے اہل سیاست اور حکومت کی طرف سے کسانوں اور ہاریوں سے ہمدردی اور ان کے مسائل سے دلچسپی کا جو اظہار کیا جا رہا ہے وہ بہ ظاہر تو قابل تعریف ہے لیکن عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس تسلسل کے ساتھ سیاستدانوں نے کسانوں اور ہاریوں کے مسائل سے دلچسپی کا اظہار کیا ہو۔
مسلم لیگ (ق) کی طرف سے پنجاب کے مختلف شہروں میں کسان ریلیوں کے اعلان کے بعد ہمارے کپتان صاحب نے بھی ایک کسان کنونشن کر ڈالا اب ہماری مسلم لیگ (ن) سرکار نے بھی ایک امدادی کسان کنونشن کر ڈالا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کسانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 341 ارب روپوں کے ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ اہل سیاست کسی مقصد کے بغیر نہ کسان ریلیاں نکالتے ہیں نہ کسان کانفرنسیں کرتے ہیں نہ کسان کنونشن کرتے ہیں۔ عام سیاستدانوں اور حکومتی سیاستدانوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ عام سیاستدان سُوکھی کسان کانفرنس کر سکتا ہے سُوکھی کسان ریلیاں نکال سکتا ہے سُوکھے کسان کنونشن کر سکتا ہے بہت تیر مارا تو کسانوں کو لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر دیا اور اگر سیاستدان مالدار ہے تو کسانوں کے لیے کھانے کا انتظام کر دیا البتہ حکومت کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ عوام کے قومی خزانے سے کسانوں کی زبانی کلامی مدد کے بجائے اربوں روپوں کے پیکیج کا ''اعلان'' کر دے۔
ہمارے محترم وزیر اعظم نے کسانوں کے لیے جس 341 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے وہ عوام ہی کا پیسہ ہے جن میں ہمارے وہ غریب کسان بھی شامل ہیں جن کی تعداد ہمارے ملک کی کل آبادی کا 60 فیصد ہے یعنی کسانوں کے لیے جس 341 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ پیسہ کسانوں ہی کا ہے حکومت نے اپنے جیب خاص سے یہ پیکیج نہیں دیا لہٰذا یہ تصور ہی غلط ہے کہ حکومت نے کسانوں پر کوئی مہربانی کی ہے۔
اس حوالے سے یہ خدشات بے بنیاد ہیں کہ کیا یہ رقم واقعی ان منصوبوں پر خرچ کی جائے گی جن کا اعلان کیا گیا ہے؟ کیونکہ راستے میں وہ کرپٹ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں جو اربوں روپے اوپر ہی اوپر اس طرح اڑا لیتے ہیں جیسے آنکھوں سے سرمہ اڑایا جاتا ہے۔ اب تک کسانوں کے لیے اربوں کے زرعی قرض بھی یہی طبقہ راستے ہی میں اڑا کر کسانوں کو مایوس کر چکا ہے۔
مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے کسان ریلیوں، کسان کنونشن اور کسان کانفرنس کا جو نہلا پھینکا تھا اس کے جواب میں حکومت نے 341 ارب کا وزنی دہلا پھینکا ہے ۔ یہ سیاست ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے۔ پبلک کا خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات سندھ اور پنجاب میں ہونے والے ہیں اور ان دو صوبوں میں کسانوں کی آبادی کل آبادی کا 60 فیصد ہے یہ 60 فیصد ووٹ ہر سیاستدان کے منہ سے رال بن کر ٹپک رہے ہیں اور یہ کسان ریلیاں یہ کسان کانفرنسیں یہ بھاری بھرکم کسان کنونشن اسی کا حصہ ہیں۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہماری تاریخ میں ہاری کسانوں کا مالک کل وڈیرہ اور جاگیردار رہا ہے اور ہر انتخابات میں یہ طبقہ کسانوں ہاریوں کے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں اونچی پگڑیوں کے ساتھ پہنچتا رہا ہے اسے ہم قومی بدقسمتی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ 68 سال گزرنے کے باوجود دنیا سے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے باوجود پاکستان میں نہ صرف جاگیردارانہ نظام باقی ہے بلکہ اس قدر مستحکم ہے کہ اس طبقے کے بغیر سیاست کا پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ کیا مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف وغیرہ کی کسان ریلیاں کسان کانفرنسیں وڈیرہ شاہی کی شان میں گستاخی تو نہیں؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس زرعی ملک کی معیشت پر وڈیرے اور جاگیردار سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ اس ظلم کا احساس اور یہ احساس کہ جب تک ملک میں جاگیردارانہ نظام باقی ہے ملک ترقی کی سمت پیشقدمی نہیں کر سکتا اس ملک کے بائیں بازو نے اوٹ پٹانگ مطالبوں کی مکھیاں مارنے کے بجائے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا کہ ملک میں مکمل زرعی اصلاحات کر کے جاگیردارانہ نظام سے 20 کروڑ عوام کی جان چھڑائی جائے۔
زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، بیج اور کھاد کی قیمتوں میں کمی، زرعی قرضے وغیرہ کا اصل مقصد زرعی اصلاحات کے اصل مطالبے کو پیچھے دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہماری حاتمی حکومت نے ہو سکتا ہے نیک نیتی سے 341 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ 341 ارب کا پیکیج کسانوں اور ہاریوں کو وڈیرہ شاہی کی غلامی سے بچا سکتا ہے نہ 341 ارب کا پیکیج کسانوں اور ہاریوں کو وڈیروں کے استحصال سے نجات دلا سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے چالاک اور عیار سیاستدان ملک میں زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟
اس ملک میں کسانوں اور ہاریوں کو وڈیرہ شاہی کے استحصال سے نجات دلانے کے لیے کسانوں اور ہاریوں کے حقیقی دوستوں نے ہمیشہ انھیں منظم کرنے انھیں متحرک کرنے کی کوشش کی سندھ میں حیدر بخش جتوئی پنجاب میں چوہدری فتح محمداور میجر اسحق نے اپنی ساری زندگی ملک سے وڈیرہ شاہی کے خاتمے کے لیے کسانوں ہاریوں کو منظم کرنے میں گزار دی چاہے اوکاڑہ تحریک ہو یا ہشت نگر کی تاریخی تحریک یہ تحریکیں کسانوں کو چھوٹی موٹی مراعات دلانے کے لیے نہیں چلائی گئی تھیں بلکہ ملک سے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے چلائی گئی تھیں۔
ویسے تو پنجاب میں کئی بڑی کسان کانفرنسیں ہوتی رہیں لیکن 2005میں جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس ہوئی اس میں ہم بھی بیمار ہونے کے باوجود شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں بھی شرکا کا سب سے بڑا مطالبہ زرعی اصلاحات رہا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بائیں بازو کے دوست کسی پروگرام کے فالو اپ میں اس قدر غیر ذمے دار ہیں کہ ان کی یہ غیر ذمے داری تحریکوں کو پیچھے دھکیلنے کا باعث بن جاتی ہے 2005 کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس میں ہمارے سخت اصرار پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کے ذمے ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس کو فالو اپ کرنا تھا لیکن یہ اصحاب کہف کمیٹی ایسی سوئی کہ 2005 کو دس سال گزر گئے اس کی نیند ٹوٹتی ہی نہیں۔
ہمارے پیشہ ور سیاستدان کسان ریلیوں، کسان کانفرنسوں، کسان کنونشنوں کا جو کھیل کھیل رہے ہیں ان کے فراڈ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی کسان کانفرنس کسی کسان ریلی کسی کسان کنونشن میں کبھی زرعی اصلاحات کا مطالبہ نہیں کیا گیا جو کسانوں ہاریوں کو وڈیرہ شاہی کی غلامی سے آزاد کرانے کی اولین شرط ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صنعتکار جاگیردار کا طبقاتی دشمن ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسے نرالے ملک میں جاگیردار اور صنعتکار ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے نظر آ رہے ہیں۔ ''یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے'' ہم ویسے تو ہمیشہ ہی کسانوں کے مسائل پر لکھتے رہے ہیں اور اتنے تسلسل سے لکھتے رہے ہیں کہ شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے کسانوں مزدوروں کے مسائل پر ایک کالم لکھا تھا جس کا کیپشن ''کسان وزیر اعظم اور مزدور صدر ہو سکتا ہے'' تھا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اس کالم نے تو ہمارے سیاست کاروں کو الرٹ نہیں کر دیا۔ ورنہ کسانوں سے ہمدردی کا یہ دورہ کبھی نہیں پڑا۔