گہری دھنستی کرپشن کی بیخ کنی
ہماری سیاست کے جسد میں کرپشن نے بہت گہری اور مضبوط جڑیں بنا لی ہیں
ہماری سیاست کے جسد میں کرپشن نے بہت گہری اور مضبوط جڑیں بنا لی ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 1996 میں پاکستان کو دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ کرپٹ ملک قرار دیا تھا۔ ہم کرپشن کی اس قطار میں اس وجہ سے تھوڑا پیچھے ہیں کیونکہ بعض دیگر ممالک ہم سے بھی زیادہ کرپٹ ہیں۔ یہ درست ہے کہ انحطاط کے اس عمل کو کسی بھی معاشرے سے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان میں تو یہ ایک وبا کی مانند پھیل چکا ہے بلکہ ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن گیا ہے۔
کرپشن ختم کرنے والے اداروں کا باہمی ربط ہی کم نہیں بلکہ ان کا عوام الناس سے بھی کوئی تعلق نہیں اور اس پر مستزاد ہماری زیادہ تر نااہل افسر شاہی نے کرپشن کو باقاعدہ ادارہ جاتی حیثیت دیدی ہے۔ ایک تو حکمرانوں میں اس کا قلع قمع کرنے کی نیت ہی نہیں جب کہ انسداد کرپشن کے حوالے سے جو قانون سازی کی گئی ہے اس میں بھی بہت رخنے اور جھول وغیرہ ہیں۔ انسداد کرپشن کے لیے کوئی بامعنی اور جامع حکمت عملی تشکیل دینے میں ناکامی کے علاوہ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں نے بھی اس عفریت پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
کرپشن منظم جرائم کو توانائی فراہم کرتی ہے جس کے ڈانڈے دہشت گردی سے مل جاتے ہیں۔ صرف منظم جرائم کے ذریعے ہی ایسے بدعنوانی کے بڑے بڑے سودے کیے جاتے ہیں جن کے لیے بینکوں سے بھاری رقوم حاصل کر لی جاتی ہیں یا رئیل اسٹیٹ کی آف شور کمپنیوں سے مال بٹورا جاتا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے قومی مصالحتی آرڈر (NRO) کے اجراء کے بعد کرپشن نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ اور کرپشن نے ادارہ جاتی حیثیت اختیار کر لی۔ اس سے آپ ہماری قومی نفسیات کا اندازہ لگائیے کہ جو مسلسل اس زوال کو برداشت کیے جا رہے ہیں۔
زرداری کے دور حکومت میں نہ صرف سیاسی نظام میں تیزی کے ساتھ انحطاط آیا بلکہ اقتصادی حالت بھی دگرگوں ہو گئی۔ آج پاکستان میں کوئی بھی تنظیم اتنے بڑے پیمانے پر ہونیوالے جرائم پر موثر طور پر قابو نہیں پا سکتی۔ مثال کے طور پر کراچی شہر کے مجرمانہ گینگ اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے بدامنی اور افراتفری پھیلاتے تھے اور اس مقصد کے لیے بعض سیاسی جماعتوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے۔
ان مجرمانہ گروپوں نے اتنی زیادہ وسعت اختیار کر لی کہ قومی معیشت کے متوازی اپنی الگ معیشت قائم کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن سے ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اب پاکستان آرمی نے آئین کے تحت سخت قدم اٹھاتے ہوئے ملک کی باگ ڈور کو دہشت گردوں کے ہاتھ آنے سے بچا لیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم سے فوجی عدالتیں قائم کر لی گئیں، لیکن اس کے باوجود جمہوریت کے پردے میں بدعنوان ذہنیت رکھنے والوں کے حکمران بننے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو احتساب کا کردار ادا کرنا چاہیے اور کرپشن کو اور کرپٹ عناصر کو پوری طرح بے نقاب کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ غیر جانبدار اور معروضی رپورٹنگ اور خبروں کے تجزیے کا ذکر صرف کتابوں میں ہی موجود ہے جب کہ کالا دھن اپنی طاقت اور اثر و رسوخ دکھاتا رہتا ہے۔ میڈیا اگر احتساب کا اپنا فرض ادا نہیں کرے گا تو کرپشن مسلسل پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہے گی۔
کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کے عمل کو عام الفاظ میں ''منی لانڈرنگ'' کہا جاتا ہے اس سے کرپٹ عناصر کو مدد ملتی ہے اور وہ منظم جرائم کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مختلف کاروباری اداروں' فلاحی تنظیموں کی بھی آڑ لی ہوتی ہے۔ بہت سے بڑے بڑے کھلاڑی کھلے عام ہمارے کمزور قانونی نظام سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
یہ لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کر دیتے ہیں جیسے کہ گزشتہ دنوں فوج کے خلاف مہم چلائی گئی۔ یہ ایک طرف قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا عمل تھا دوسری طرف وہ دشمن کے عزائم کی ترویج کر رہے تھے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد اگر جرائم میں حصہ دار بن جائیں تو وہ اپنے مخصوص عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی گرفت میں بہت کم لوگ آتے ہیں۔
جن پر کرپشن' منی لانڈرنگ' یا کسی دیگر مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر لینا چاہیے اور وہ لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے ای سی ایل سے محفوظ رہے ہیں اور اب بھی پاکستان میں ہیں تو ان کو قابل احتساب کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ حسین حقانی کو میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران پاکستان سے جانے کی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اجازت دی تھی۔ کیا موجودہ سپریم کورٹ حقانی کو دی جانے والی اس رعایت کا کوئی جواز پیش کر سکتی ہے۔
ہمیں اپنے قوانین پر نظرثانی کرنی ہو گی اور انھیں اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ وہ کرپٹ لوگوں کو گرفت میں لے سکے۔ اگر کسی نے اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دولت اکٹھی کی ہے تو وہ مجرم ہے۔
قومی سلامتی دیگر تمام چیزوں پر مقدم ہے مزید برآں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے احتساب کے بارے میں بھی واضح اصول و ضوابط ہونے چاہئیں۔ صرف اسی صورت میں یہ ادارے کماحقہ اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے اور چونکہ بھاری کرپشن کا منظم جرائم سے گہرا تعلق ہے لہٰذا ہمیں تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
کرپشن ختم کرنے والے اداروں کا باہمی ربط ہی کم نہیں بلکہ ان کا عوام الناس سے بھی کوئی تعلق نہیں اور اس پر مستزاد ہماری زیادہ تر نااہل افسر شاہی نے کرپشن کو باقاعدہ ادارہ جاتی حیثیت دیدی ہے۔ ایک تو حکمرانوں میں اس کا قلع قمع کرنے کی نیت ہی نہیں جب کہ انسداد کرپشن کے حوالے سے جو قانون سازی کی گئی ہے اس میں بھی بہت رخنے اور جھول وغیرہ ہیں۔ انسداد کرپشن کے لیے کوئی بامعنی اور جامع حکمت عملی تشکیل دینے میں ناکامی کے علاوہ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں نے بھی اس عفریت پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
کرپشن منظم جرائم کو توانائی فراہم کرتی ہے جس کے ڈانڈے دہشت گردی سے مل جاتے ہیں۔ صرف منظم جرائم کے ذریعے ہی ایسے بدعنوانی کے بڑے بڑے سودے کیے جاتے ہیں جن کے لیے بینکوں سے بھاری رقوم حاصل کر لی جاتی ہیں یا رئیل اسٹیٹ کی آف شور کمپنیوں سے مال بٹورا جاتا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے قومی مصالحتی آرڈر (NRO) کے اجراء کے بعد کرپشن نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ اور کرپشن نے ادارہ جاتی حیثیت اختیار کر لی۔ اس سے آپ ہماری قومی نفسیات کا اندازہ لگائیے کہ جو مسلسل اس زوال کو برداشت کیے جا رہے ہیں۔
زرداری کے دور حکومت میں نہ صرف سیاسی نظام میں تیزی کے ساتھ انحطاط آیا بلکہ اقتصادی حالت بھی دگرگوں ہو گئی۔ آج پاکستان میں کوئی بھی تنظیم اتنے بڑے پیمانے پر ہونیوالے جرائم پر موثر طور پر قابو نہیں پا سکتی۔ مثال کے طور پر کراچی شہر کے مجرمانہ گینگ اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے بدامنی اور افراتفری پھیلاتے تھے اور اس مقصد کے لیے بعض سیاسی جماعتوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے۔
ان مجرمانہ گروپوں نے اتنی زیادہ وسعت اختیار کر لی کہ قومی معیشت کے متوازی اپنی الگ معیشت قائم کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن سے ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اب پاکستان آرمی نے آئین کے تحت سخت قدم اٹھاتے ہوئے ملک کی باگ ڈور کو دہشت گردوں کے ہاتھ آنے سے بچا لیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم سے فوجی عدالتیں قائم کر لی گئیں، لیکن اس کے باوجود جمہوریت کے پردے میں بدعنوان ذہنیت رکھنے والوں کے حکمران بننے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو احتساب کا کردار ادا کرنا چاہیے اور کرپشن کو اور کرپٹ عناصر کو پوری طرح بے نقاب کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ غیر جانبدار اور معروضی رپورٹنگ اور خبروں کے تجزیے کا ذکر صرف کتابوں میں ہی موجود ہے جب کہ کالا دھن اپنی طاقت اور اثر و رسوخ دکھاتا رہتا ہے۔ میڈیا اگر احتساب کا اپنا فرض ادا نہیں کرے گا تو کرپشن مسلسل پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہے گی۔
کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کے عمل کو عام الفاظ میں ''منی لانڈرنگ'' کہا جاتا ہے اس سے کرپٹ عناصر کو مدد ملتی ہے اور وہ منظم جرائم کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مختلف کاروباری اداروں' فلاحی تنظیموں کی بھی آڑ لی ہوتی ہے۔ بہت سے بڑے بڑے کھلاڑی کھلے عام ہمارے کمزور قانونی نظام سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
یہ لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کر دیتے ہیں جیسے کہ گزشتہ دنوں فوج کے خلاف مہم چلائی گئی۔ یہ ایک طرف قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا عمل تھا دوسری طرف وہ دشمن کے عزائم کی ترویج کر رہے تھے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد اگر جرائم میں حصہ دار بن جائیں تو وہ اپنے مخصوص عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی گرفت میں بہت کم لوگ آتے ہیں۔
جن پر کرپشن' منی لانڈرنگ' یا کسی دیگر مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر لینا چاہیے اور وہ لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے ای سی ایل سے محفوظ رہے ہیں اور اب بھی پاکستان میں ہیں تو ان کو قابل احتساب کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ حسین حقانی کو میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران پاکستان سے جانے کی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اجازت دی تھی۔ کیا موجودہ سپریم کورٹ حقانی کو دی جانے والی اس رعایت کا کوئی جواز پیش کر سکتی ہے۔
ہمیں اپنے قوانین پر نظرثانی کرنی ہو گی اور انھیں اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ وہ کرپٹ لوگوں کو گرفت میں لے سکے۔ اگر کسی نے اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دولت اکٹھی کی ہے تو وہ مجرم ہے۔
قومی سلامتی دیگر تمام چیزوں پر مقدم ہے مزید برآں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے احتساب کے بارے میں بھی واضح اصول و ضوابط ہونے چاہئیں۔ صرف اسی صورت میں یہ ادارے کماحقہ اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے اور چونکہ بھاری کرپشن کا منظم جرائم سے گہرا تعلق ہے لہٰذا ہمیں تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔