جدید ٹیکنالوجی کا بے محابا استعمال
یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس کی ترقی اور بڑھتے ہوئے وسائل نے ہمارے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں
یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس کی ترقی اور بڑھتے ہوئے وسائل نے ہمارے معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگوں کے ایک دوسرے سے روابط بڑھ گئے ہیں بیرون شہر یا بیرون ملک عزیز و اقارب اور دوستوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے رابطے میں رکھنا یا لینا آج کامن چیز بن چکی ہے۔ ہماری نئی نسل زیادہ تر وقت ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون یا انٹرنیٹ پر مصروف رہتی ہے۔
ہمارے بچپن میں بچے معمولی تحفوں سے بہل جاتے تھے لیکن آج اکیسویں صدی کے بچے اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی فرمائش کرتے ہیں، دراصل آج کل اصراف اور نمود و نمائش بھی بہت بڑھ گئی ہے، معمولی حیثیت کے لوگ مہنگے مہنگے موبائل رکھنے لگے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کوئی چیز خراب نہیں ہوتی اس کا غلط استعمال خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سیل فون کے بے محابا استعمال نے عام لوگوں کو بالعموم اور نئی نسل کے لڑکے اور لڑکیوں کو بالخصوص اس کا بہت عادی بنادیا ہے، یہی نہیں بلکہ نیٹ نے انسان کو تنہا بنا دیا ہے، پہلے لوگ دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے تھے لیکن اب انھیں اپنے گرد و پیش کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی، عید جیسے بڑے روایتی تہواروں کے موقعے پر رشتے داروں اور دوستوں کے ہاں جانے کے رجحان میں خاصی کمی واقع ہوگئی ہے۔ اب تقریباً ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ پر ''اپنی من پسند ہستی'' سے ہی جڑا رہتا ہے اور بس۔۔۔!
یہ بھی غلط نہیں کہ ہر انسانی ذات خوبیوں اور خامیوں کے مکسچر سے بنی ہوئی ہے، بالخصوص آج کل کی نئی نسل کو ہی لے لیں اس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ خامیوں کے ہم ذمے دار ہیں اور خوبیوں کا سہرا ان کے سر ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہماری ''ینگ جنریشن'' میں گزشتہ کئی برسوں سے انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی و ابلاغ کے ذریعے ''صنف مخالف'' سے رابطے میں حد درجہ تیزی آگئی ہے اور بیشتر گھرانوں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اپنی فیملی (والدین، بہن بھائی اور بھائی بھابی) کی موجودگی میں بھی ''ایس ایم ایس'' اور ''مس کالز'' کرتے دیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں تنبیہ کرنے کا رواج دکھائی نہیں پڑتا۔ جیساکہ ہم نے پہلے کہا کہ اولاد کی خرابی بربادی یا بے راہ روی کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے وہ بھی غلط نہیں ہے لیکن والدین بھی کیا کریں وہ اپنے جوان بچوں کو نصیحت تو کرسکتے ہیں حد یہ کہ ایک دو تھپڑ لگا سکتے ہیں اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کرسکتے ناں؟
لیکن ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا گھر نئی نسل میں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کی لت میں مبتلا ہے اور اس کی روک تھام یا اس کے تدارک کا کوئی طریقہ والدین یا فیملی کے سربراہوں کے ہاتھ نہیں آرہا، نتیجے میں بے راہ روی اور اخلاق سوز واقعات ہمارے گرد و پیش دیکھنے میں نظر آرہے ہیں اور دور دور تک ان کی سدھار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اور یہ بہرطور ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ کہا جاسکتا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پیار و محبت ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو منفی ہوجاتا ہے، انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خلل پڑ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کو درمیان کا راستہ نظر نہیں آتا اور وہ صرف ملنے یا مرنے پر تیار ہو جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھی والدین کی عدم توجہی ہی کہی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں کراچی کے ایک اسکول میں دو نو عمر لڑکے لڑکی کی خودکشی اس افسوسناک حقیقت کو ظاہرکرتی ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال اور اخلاقی تربیت سے ہمارا معاشرہ بالعموم اور والدین بالخصوص کتنے غافل ہوتے جا رہے ہیں، لڑکی کا اپنے والد کا پستول بستے میں رکھ کر لانا اور یہ سوچنا کہ ہمارے والدین شادی پر رضامند نہیں ہوں گے۔ اس لیے ایک دوسرے کو ختم کردینا اور والدین کو خط کے ذریعے بتانا کہ ہم زندہ رہ کر تو نہیں مل سکتے مرکے مل جائیں گے، ہماری قبریں ساتھ ساتھ بنائی جائیں۔
یہ کہانی بظاہر بڑی فارمولا، روایتی ہے اور ہر دوسری پاکستانی اور انڈین فلم کا موضوع برسہا برس سے بنتی چلی آرہی ہے، یہ واقعہ یا یہ کہانی اپنی نوعیت کے اعتبار سے شاید کسی کو غیر روایتی یا منفرد لگے مگر ہم اپنے اردگرد نگاہ کریں تو ایسی اکثر کہانیاں تخلیق کے مرحلے میں دکھائی دیں گی اور چیخ چیخ کر بتا رہی ہوں گی کہ اس خرابی کی سب سے بڑی وجہ ''دینی تعلیم'' اور ہماری اسلامی اقدار سے دوری، والدین کی عدم توجہی اور چشم پوشی ہے۔
جب ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اپنی روایات و اقدار کی پوری طاقت کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا تھا تب ہماری نانیاں، دادیاں بچوں کو قصے کہانیوں کے ذریعے اچھائی اور برائی میں تمیز سکھاتی تھیں۔ ان کی جگہ اب انٹرنیٹ، ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل فونز نے لے لی ہے، جو اچھائی سے زیادہ برائی کی ترغیب کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ پر ویڈیو چیٹ، گپ شپ اور غیر ذمے دار ٹی وی چینلز پر غیر ملکی اور فحش فلمیں اور ڈرامے بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچوں کو بے راہ روی کے نت نئے طریقوں سے روشناس کر رہے ہیں۔
اس خرابی، اس بے راہ روی، اس تباہی کے ذمے دار صرف والدین نہیں ہمارا سماج اور ہماری حکومت بھی ذمے دار ہے، ان لوگوں کے ہوتے یا ان کے صرف نظر کی باعث ہماری ینگ جنریشن کی اکثریت کے دل و دماغ میں منفی جذبات پرورش پانے لگے ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم دہشت گردی، انتہا پسندی، تخریب کاری اور بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے ایک اسکول میں پیش آنے والا واقعہ والدین کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے رابطے میں رہیں ان کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، ان کی پسند و ناپسند پر دھیان دیں اور انھیں دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار سے دور نہ ہونے دیں۔
مشہور ماہر امراض نفسیات اور علم رویہ جات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن کا کہنا ہے کہ جب انسان کسی چیز میں بہت زیادہ ملوث ہوجائے، منفی جذبات حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو آس پاس کی مثبت چیزیں بھی منفی نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں، نتیجے میں اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔اور یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب والدین بچوں سے دور ہوجائیں یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، بچوں کے دوست یا کزنز نہ ہوں اور وہ اپنی باتیں کسی سے شیئر نہ کرسکیں۔ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے بھی سوشل کمیونیکیشن ختم ہوجاتی ہے، بچے کسی سے ملتے جلتے نہیں نہ رشتے دار عزیزوں کے ہاں جاتے ہیں رات گئے تک انٹرنیٹ پر جتے رہتے ہیں اور دن چڑھے تک سوئے رہتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن کا کہنا ہے کہ نئی نسل میں انٹرنیٹ اور ٹی وی کا حد سے زیادہ استعمال بھی خودکشی کو جنم دیتا ہے۔ بیشتر والدین ان حالات میں بچوں کو سمجھانے کے بجائے ان کی پٹائی کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو مارپیٹ کر سمجھتے ہیں کہ بچے نے اب وہ بری چیز ترک کردی ہے حالانکہ بچہ وہ چیز ترک نہیں کرتا بلکہ والدین سے دور ہوجاتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے رابطہ رکھیں، ان سے ان کی تنہائی شیئرکریں، ان کے مسائل کو سنیں، انھیں ڈرانے کے بجائے طاقت بخشیں اور اچھی اور بری چیزوں کے بارے میں بتائیں تو بچے بری چیزیں نہ صرف چھوڑ دیتے ہیں بلکہ غلط فیصلے بھی نہیں کرتے۔
ان سطورکے ذریعے ہماری نئی نسل سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ ایسے کام کو اپنا شعار بنائیں جو ان کے، ان کے خاندان کے لیے فخر و مسرت کا باعث بنے۔ غلط راستے پر خود کو ڈالنے سے گریز کریں کہ راستہ کوئی بھی ہو وہ مشکل نہیں ہوتا بس اس پر چلنے کا جواز اہمیت رکھتا ہے۔
ہمارے بچپن میں بچے معمولی تحفوں سے بہل جاتے تھے لیکن آج اکیسویں صدی کے بچے اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی فرمائش کرتے ہیں، دراصل آج کل اصراف اور نمود و نمائش بھی بہت بڑھ گئی ہے، معمولی حیثیت کے لوگ مہنگے مہنگے موبائل رکھنے لگے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کوئی چیز خراب نہیں ہوتی اس کا غلط استعمال خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سیل فون کے بے محابا استعمال نے عام لوگوں کو بالعموم اور نئی نسل کے لڑکے اور لڑکیوں کو بالخصوص اس کا بہت عادی بنادیا ہے، یہی نہیں بلکہ نیٹ نے انسان کو تنہا بنا دیا ہے، پہلے لوگ دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے تھے لیکن اب انھیں اپنے گرد و پیش کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی، عید جیسے بڑے روایتی تہواروں کے موقعے پر رشتے داروں اور دوستوں کے ہاں جانے کے رجحان میں خاصی کمی واقع ہوگئی ہے۔ اب تقریباً ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ پر ''اپنی من پسند ہستی'' سے ہی جڑا رہتا ہے اور بس۔۔۔!
یہ بھی غلط نہیں کہ ہر انسانی ذات خوبیوں اور خامیوں کے مکسچر سے بنی ہوئی ہے، بالخصوص آج کل کی نئی نسل کو ہی لے لیں اس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ خامیوں کے ہم ذمے دار ہیں اور خوبیوں کا سہرا ان کے سر ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہماری ''ینگ جنریشن'' میں گزشتہ کئی برسوں سے انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی و ابلاغ کے ذریعے ''صنف مخالف'' سے رابطے میں حد درجہ تیزی آگئی ہے اور بیشتر گھرانوں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اپنی فیملی (والدین، بہن بھائی اور بھائی بھابی) کی موجودگی میں بھی ''ایس ایم ایس'' اور ''مس کالز'' کرتے دیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں تنبیہ کرنے کا رواج دکھائی نہیں پڑتا۔ جیساکہ ہم نے پہلے کہا کہ اولاد کی خرابی بربادی یا بے راہ روی کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے وہ بھی غلط نہیں ہے لیکن والدین بھی کیا کریں وہ اپنے جوان بچوں کو نصیحت تو کرسکتے ہیں حد یہ کہ ایک دو تھپڑ لگا سکتے ہیں اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کرسکتے ناں؟
لیکن ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا گھر نئی نسل میں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کی لت میں مبتلا ہے اور اس کی روک تھام یا اس کے تدارک کا کوئی طریقہ والدین یا فیملی کے سربراہوں کے ہاتھ نہیں آرہا، نتیجے میں بے راہ روی اور اخلاق سوز واقعات ہمارے گرد و پیش دیکھنے میں نظر آرہے ہیں اور دور دور تک ان کی سدھار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اور یہ بہرطور ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ کہا جاسکتا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پیار و محبت ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو منفی ہوجاتا ہے، انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خلل پڑ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کو درمیان کا راستہ نظر نہیں آتا اور وہ صرف ملنے یا مرنے پر تیار ہو جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھی والدین کی عدم توجہی ہی کہی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں کراچی کے ایک اسکول میں دو نو عمر لڑکے لڑکی کی خودکشی اس افسوسناک حقیقت کو ظاہرکرتی ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال اور اخلاقی تربیت سے ہمارا معاشرہ بالعموم اور والدین بالخصوص کتنے غافل ہوتے جا رہے ہیں، لڑکی کا اپنے والد کا پستول بستے میں رکھ کر لانا اور یہ سوچنا کہ ہمارے والدین شادی پر رضامند نہیں ہوں گے۔ اس لیے ایک دوسرے کو ختم کردینا اور والدین کو خط کے ذریعے بتانا کہ ہم زندہ رہ کر تو نہیں مل سکتے مرکے مل جائیں گے، ہماری قبریں ساتھ ساتھ بنائی جائیں۔
یہ کہانی بظاہر بڑی فارمولا، روایتی ہے اور ہر دوسری پاکستانی اور انڈین فلم کا موضوع برسہا برس سے بنتی چلی آرہی ہے، یہ واقعہ یا یہ کہانی اپنی نوعیت کے اعتبار سے شاید کسی کو غیر روایتی یا منفرد لگے مگر ہم اپنے اردگرد نگاہ کریں تو ایسی اکثر کہانیاں تخلیق کے مرحلے میں دکھائی دیں گی اور چیخ چیخ کر بتا رہی ہوں گی کہ اس خرابی کی سب سے بڑی وجہ ''دینی تعلیم'' اور ہماری اسلامی اقدار سے دوری، والدین کی عدم توجہی اور چشم پوشی ہے۔
جب ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اپنی روایات و اقدار کی پوری طاقت کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا تھا تب ہماری نانیاں، دادیاں بچوں کو قصے کہانیوں کے ذریعے اچھائی اور برائی میں تمیز سکھاتی تھیں۔ ان کی جگہ اب انٹرنیٹ، ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل فونز نے لے لی ہے، جو اچھائی سے زیادہ برائی کی ترغیب کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ پر ویڈیو چیٹ، گپ شپ اور غیر ذمے دار ٹی وی چینلز پر غیر ملکی اور فحش فلمیں اور ڈرامے بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچوں کو بے راہ روی کے نت نئے طریقوں سے روشناس کر رہے ہیں۔
اس خرابی، اس بے راہ روی، اس تباہی کے ذمے دار صرف والدین نہیں ہمارا سماج اور ہماری حکومت بھی ذمے دار ہے، ان لوگوں کے ہوتے یا ان کے صرف نظر کی باعث ہماری ینگ جنریشن کی اکثریت کے دل و دماغ میں منفی جذبات پرورش پانے لگے ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم دہشت گردی، انتہا پسندی، تخریب کاری اور بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے ایک اسکول میں پیش آنے والا واقعہ والدین کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے رابطے میں رہیں ان کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، ان کی پسند و ناپسند پر دھیان دیں اور انھیں دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار سے دور نہ ہونے دیں۔
مشہور ماہر امراض نفسیات اور علم رویہ جات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن کا کہنا ہے کہ جب انسان کسی چیز میں بہت زیادہ ملوث ہوجائے، منفی جذبات حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو آس پاس کی مثبت چیزیں بھی منفی نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں، نتیجے میں اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔اور یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب والدین بچوں سے دور ہوجائیں یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، بچوں کے دوست یا کزنز نہ ہوں اور وہ اپنی باتیں کسی سے شیئر نہ کرسکیں۔ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے بھی سوشل کمیونیکیشن ختم ہوجاتی ہے، بچے کسی سے ملتے جلتے نہیں نہ رشتے دار عزیزوں کے ہاں جاتے ہیں رات گئے تک انٹرنیٹ پر جتے رہتے ہیں اور دن چڑھے تک سوئے رہتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن کا کہنا ہے کہ نئی نسل میں انٹرنیٹ اور ٹی وی کا حد سے زیادہ استعمال بھی خودکشی کو جنم دیتا ہے۔ بیشتر والدین ان حالات میں بچوں کو سمجھانے کے بجائے ان کی پٹائی کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو مارپیٹ کر سمجھتے ہیں کہ بچے نے اب وہ بری چیز ترک کردی ہے حالانکہ بچہ وہ چیز ترک نہیں کرتا بلکہ والدین سے دور ہوجاتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے رابطہ رکھیں، ان سے ان کی تنہائی شیئرکریں، ان کے مسائل کو سنیں، انھیں ڈرانے کے بجائے طاقت بخشیں اور اچھی اور بری چیزوں کے بارے میں بتائیں تو بچے بری چیزیں نہ صرف چھوڑ دیتے ہیں بلکہ غلط فیصلے بھی نہیں کرتے۔
ان سطورکے ذریعے ہماری نئی نسل سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ ایسے کام کو اپنا شعار بنائیں جو ان کے، ان کے خاندان کے لیے فخر و مسرت کا باعث بنے۔ غلط راستے پر خود کو ڈالنے سے گریز کریں کہ راستہ کوئی بھی ہو وہ مشکل نہیں ہوتا بس اس پر چلنے کا جواز اہمیت رکھتا ہے۔