ہمارے گلے میں لٹکے تمغے پہلاحصہ

آئیں پہلے ترکی کے عظیم طنزنگار عزیز ناسن کی لکھی کہانی’’ گدھا اورتمغہ خدمت ‘‘پڑھتے ہیں

لاہور:
آئیں پہلے ترکی کے عظیم طنزنگار عزیز ناسن کی لکھی کہانی'' گدھا اورتمغہ خدمت ''پڑھتے ہیں ''ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوشحال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

وقت گزرتا گیا پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نہ معلوم کیوں پورے ملک میں سخت قحط پڑگیا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی رہا کرتی تھی اور جن کی پانچوں انگلیا ں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگ گئے ۔

جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمرٹوٹی جا رہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سجھائی دی ۔اس نے ملک بھر میں، شہر شہر،گلی گلی، ڈھنڈورچی روانہ کروائے اور بذریعہ منادی مندرجہ ذیل شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔''میرے عزیزہم وطنو ! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنے رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغہ خدمت عطا کر نے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لہذا جس کسی نے آج تک ملک اورعوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فورا شاہی محل میں حاضر ہو جائے ۔مابدولت اسے تمغہ خدمت سے نوازیں گے۔''

منادی سنتے ہی ملک کے طول وعرض میں ہر شخص کے سر پر تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک ، پیاس، قحط، بیماری یاکمر توڑگرانی کا احساس تک باقی نہ رہا ۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے ، قسم قسم کے تمغے تیارکروائے ۔ تمغہ خدمت درجہ اول خالص سونے کا بنوایا گیا۔

درجہ دوم چاندی کا، تیسر ے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل تانبا ، لوہا، ٹین، وغیرہ وغیرہ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کردیا جاتا ۔ تمغے اتنی فراخدلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات ۔مجبوراً لکڑی ، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں ۔ایک سے زیادہ تمغے حاصل کر نے والوں کی تعداد بھی خاصی ہوگئی ۔جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے ۔یوں ٹن ٹن کرتے سنائی دیتے جیسے دھوبی کے گدھے کی گردن میں گھنٹیاں ۔


ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے ٹنٹناتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا ۔ بھوک سے بے چاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں جسم کا گوشت لٹک چکا تھا ۔ جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی ۔اس کے باوجود گائے بھاگی اورسیدھی شاہی محل جا پہنچی دربانوں نے راستہ روکا تو بولی ''بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرف ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔'' دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی ۔ مجبوراً بادشا ہ کو اطلاع دی گئی ۔بادشاہ کے حکم پرگائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا ''ڈکرا اے گائے '' کیا ڈاکرانا چاہتی ہے ۔

گائے نے عرض کی بادشاہ سلامت میں نے سننا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں، چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں ۔ تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرأت کیونکر ہوئی آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سرانجام دیتے ہیں، جن کے عوض انھیں تمغے دیے جائیں ۔ بادشاہ نے غصے سے چلا کرکہا ۔ گائے نے جواب دیا ۔

حضوروالا ! اگر آپ کی یہ ناچیزخادمہ تمغے کی حقدار نہیں تو پھر بھلا اورکون حقدار ہوسکتا ہے میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہر ممکن خدمت کرتی ہوں ۔انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گو شت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا ۔آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اورکیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے ۔گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ فوراً تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کردیاجائے۔

گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا ۔گائے باجی سلام ! سلام خچر بھیا۔ باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو کیا وجہ ہے کہاں سے آرہی ہو اور ہاں یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے ۔گائے نے خچرکو سارا ماجرا سنایا ۔ خچر کو بھی جوش آیا فوراً سرپٹ بھاگا اورجاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا ۔ دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہرکی مگر کسی نے ایک نہ سنی ۔ خچر اپنی موروثی ضد پر اڑا رہا ۔آخر بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہمان اندر آنا چاہتا ہے ۔بادشاہ نے حکم دیا خچرکو پیش کیا جائے ۔

آخر وہ بھی تو ہماری رعایا میں ہی شمار ہوتا ہے ۔ خچر نے اندر آکر با دشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔ بادشاہ نے پوچھا اے خچر تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغے کا حقدار سمجھ کر ما بدولت کے دربار میں آئے ہو ۔ خچر نے عرض کیا اعلیٰ حضرت ! مجھے یہ جان کر بڑ ا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں ۔ بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں،گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اٹھا کر کون دشوارگذار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے ۔

آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے، امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے ۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمارکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے ۔ بادشا ہ نے محسو س کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے چنانچہ خچر کو درجہ اول کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادرہوگیا۔ (جاری ہے)
Load Next Story