جب کویتا بھی کامیاب اداکارہ بن گئی

جس میں ندیم کے ساتھ کویتا کا پیئر (Pair)بنایا تھا اور سنگیتا کے ساتھ غلام محی الدین ہیرو تھا

hamdam.younus@gmail.com

فلم ''تیرے میرے سپنے'' کے ایک سپرہٹ گیت لکھنے کے بعد سنگیتا پروڈکشن سے میرا ایک گہرا تعلق پیدا ہوچکا تھا اب میں بحیثیت کہانی نویس، مکالمہ نگار اور گیت نگار کی حیثیت سے بھی ان کی ہر فلم سے منسلک ہوتا جارہا تھا۔ سنگیتا پروڈکشن کے لیے میں ان کی آیندہ ایک فلم ''میں چپ رہوں گی'' کا اسکرپٹ مکمل کرچکا تھا اور''سوسائٹی گرل'' کی بے مثال کامیابی کے بعد سنگیتا نے مصنف اقبال رضوی کی لکھی ہوئی کہانی ''محبت اور مہنگائی'' کی شوٹنگ شروع کردی تھی۔

جس میں ندیم کے ساتھ کویتا کا پیئر (Pair)بنایا تھا اور سنگیتا کے ساتھ غلام محی الدین ہیرو تھا ۔ محبت اور مہنگائی کے لیے تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت جس کی موسیقی کمال احمد نے دی تھی اور بول تھے ''ارے لوگو پکڑو یہ لڑکا دیوانہ'' ندیم اور کویتا پر فلم بند کیا جا چکا تھا اب اسی فلم کا دوسرا گیت مجھے لکھنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔

لہٰذا میں اب جب بھی ایورنیو اسٹوڈیو جاتا تھا تو اسٹوڈیو راؤنڈ کے بعد ایک راؤنڈ سنگیتا پروڈکشن کا بھی لگاتا تھا۔ اسی طرح ایک دن معمول کے مطابق جب میں سنگیتا کے آفس میں داخل ہوا تو وہاں سنگیتا کا سارا خاندان والد، والدہ، سنگیتا اورکویتا سب بڑے خوشگوار موڈ میں موجود تھے میرے آفس میں گھستے ہی سنگیتا کی امی مہتاب بیگم نے مٹھائی کا ڈبہ جو میز پر رکھا ہوا تھا میرے قریب کرتے ہوئے کہا، لو ہمدم! سب سے پہلے تم بھی مٹھائی کھاؤ۔ پھر میرے استفسار پر بتایا کہ آج نسرین (کویتا) کی ایک نئی فلم کی شوٹنگ کا پہلا دن ہے۔

میں نے مسکراتی اور کھلکھلاتی کویتا کی طرف دیکھتے ہوئے مبارکباد دیتے ہوئے کہا، بھئی! فلم کا نام تو بتائیں کیا ہے۔ کویتا بولی ''راجہ صاحب'' ۔ میں نے بھی بے ساختہ پوچھا۔ اب یہ بھی بتا دو کہ وہ راجہ صاحب کون ہیں جن کی تم رانی بنائی گئی ہو۔ کویتا کے بتانے سے پہلے آفس میں موجود فلم کے ہدایت کار پرویز رانا بولے فلم میں کویتا رانی کے راجہ صاحب شاہد ہیں اور کل سے شاہد بھی فلم کے سیٹ پر موجود ہوگا۔ اور ہاں اسی ہفتے فلم کا پہلا گیت کویتا اور شاہد پر فلمایا جائے گا۔ یہ کہہ کر پرویز رانا چند لمحوں کے لیے رک گئے پھر انھوں نے سنگیتا کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ اشارہ کیا۔ سنگیتا نے پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا اور آج کی دوسری اہم خبر یہ ہے کہ فلم ''راجہ صاحب'' کا یہ پہلا گیت یونس ہمدم! تم لکھ رہے ہو۔

ہدایت کار نے موسیقار کمال احمد کو تمہارا نام فائنل کردیا ہے۔ بس ایک دو دن میں تمہیں یہ گیت لکھنا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر ہدایت کار پرویز رانا سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ پرویز رانا کہنے لگے یونس ہمدم! تم نے ''تیرے میرے سپنے'' میں جو گیت لکھا تھا، جو ناہید اختر نے گایا تھا۔ وہ اس کا بھی پہلا سپرہٹ گیت تھا اور تمہارا بھی۔ میں نے اس گیت کو سن کر فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنی آیندہ کسی فلم میں تم سے بھی گیت لکھواؤں گا۔ اور اب وہ وقت آگیا ہے۔

میری نئی فلم کا پہلا گیت تم نے لکھنا ہے۔ اسی دوران موسیقار کمال احمد بھی آگئے۔ انھوں نے پرویز رانا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ آج میری کوئی مصروفیت نہیں ہے۔ رانا صاحب OK کریں تو ہم آج ہی ''راجہ صاحب'' کے گیت کے لیے بیٹھ سکتے ہیں۔ ہدایت کار پرویز رانا نے کہا، بھئی! میری تو خواہش ہے جلد سے جلد یہ گانا ریکارڈ ہو، مجھے تو اسی ہفتے اس گیت کی فلم بندی کرنی ہے۔ میڈم مہتاب یہ سن کر بولیں۔ دیکھو ہمدم! تم جب جب ہمارے آفس آؤ گے تمہیں کچھ نہ کچھ فائدہ ہی حاصل ہوگا۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا، میرا تو خیال ہے میڈم! میں اب آپ کے آفس میں ہی اپنا ڈیرا جما لیتا ہوں۔

اسی دوران پرویز رانا نے کویتا سے کہا چلو بھئی! ہم لوگ اب فلم کے سیٹ پر چلتے ہیں۔ اور شاعر و موسیقار کو یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ کویتا نے آفس سے نکلتے ہوئے مجھ سے کہا، ہمدم صاحب! میرے لیے بھی کوئی خوبصورت اور پھڑکتا ہوا گیت لکھنا۔ میں نے بے ساختہ کہا، آپ تو خود ایک کویتا ہیں۔ آپ کے لیے لکھا گیا ہر ایک گیت خوبصورت ہی ہوگا۔ سنگیتا اینڈ فیملی آفس سے اٹھ کر فلم کے سیٹ پر چلی گئی اور مجھے کویتا کے لڑکپن کے وہ دن یاد آگئے جب کویتا اپنی امی سے اصرار کرتے ہوئے کہا کرتی تھی، امی! پروین باجی تو اب بڑی آرٹسٹ بن چکی ہیں۔ مجھے کب کس فلم میں ہیروئن بنایا جائے گا۔ تو مہتاب بیگم مسکراتے ہوئے جواب دیتی تھیں، ابھی کچھ اور بڑی ہو جاؤ بیٹا اور اپنی بڑی بہن سے کچھ اور سیکھو۔ بس تھوڑے دنوں کی بات ہے پھر تمہارے نام کی بھی فلمی دنیا میں دھوم مچے گی۔

اور پھر مجھے وہ دن بھی یاد آگیا جب کویتا مشکل سے پندرہ سولہ سال کی ہوئی تھی تو اسے فلم ''دو بدن'' میں پہلی بار سائیڈ ہیروئین کاسٹ کیا تھا۔ فلم میں شبنم اور ندیم مرکزی کردار میں تھے مگر ندیم کے ساتھ کویتا کے بھی کچھ رومانٹک مناظرکے ساتھ ایک خوبصورت سولو گیت بھی عکس بند کیا گیا تھا۔ کویتا ایک بھولی بھالی الہڑ مٹیار تھی اور ہیرو ندیم کی محبت میں گرفتار تھی لیکن فلم میں ندیم کی محبت شبنم تھی ۔ یہ فلم 1974ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ کویتا نے کمسن ہوتے ہوئے بڑی خوبصورت اداکاری کی تھی۔ خواجہ پرویزکا لکھا ہوا نذیر علی کی موسیقی میں ایک گیت کویتا پر فلم بند کیا گیا تھا جو مری کی خوبصورت وادیوں میں عکس بند ہوا تھا۔ وہ گیت میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور جس کے بول تھے :


آجا میرے پردیسی
تُو نہ آیا تو میں مر جاؤں گی

اور کویتا مذکورہ فلم میں بہت ہی خوبصورت لگی تھی۔ مگر بدقسمتی سے فلم کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو پھر فلمسازوں نے کویتا کو کاسٹ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔ دو تین سال تک کویتا کے گھر والوں نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ جب سنگیتا کے والدین نے اپنا ذاتی پروڈکشن ادارہ بنالیا (پی۔این۔آر ۔پروڈکشن) تو پھر پہلی فلم اس بینر تلے ''بہاروں کی منزل'' بنائی گئی جس میں سنگیتا اور شاہد نے مرکزی کردار ادا کیے تھے لیکن اس فلم کی تھوڑی بہت کامیابی کے بعد جب ایک بڑے بجٹ کی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کا آغاز کیا تو اس میں سنگیتا کے ساتھ محمدعلی اورکویتا کے ساتھ شاہد کوکاسٹ کیا گیا تھا۔

اس فلم کے مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی تھے۔ اس فلم کی نمایاں کامیابی نے سنگیتا فیملی کو بھی بڑی کامیابی دی تھی کیونکہ فلم نے ہر شہر میں گولڈن جوبلی اور لاہور میں تو خاص طور پر پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ اس فلم کے بعد سنگیتا فیملی کاروباری طور پر بھی بڑی ساؤنڈ (Sound)ہوگئی تھی اور سنگیتا نے اس فلم کے بعد بطور ہدایت کار آنے کا فیصلہ کرلیا تھا ، ساتھ ہی سنگیتا نے فلم ''سوسائٹی گرل'' میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ڈائریکشن کے فرائض بھی انجام دیے۔

اور اپنی بہن کویتا کو بھی اسی فلم میں ایک بڑا جاندار کردار دیا جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اور فلم ''سوسائٹی گرل'' ڈائریکشن، دونوں بہنوں کی بے مثال اداکاری، سید نور کی خوبصورت کہانی اور نذیر علی کی شاندار موسیقی کی بدولت سپرہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم نے جہاں سنگیتا کی ڈائریکشن کو فلم بینوں سے منوایا تھا وہاں سنگیتا پروڈکشن کی فلم انڈسٹری میں ایک دھاک بھی بیٹھ گئی تھی اور پھر سنگیتا فلم سازی کے میدان میں بھی چھاتی چلی گئی تھی اور سنگیتا کے بعد کویتا بھی فلمسازوں کی آنکھوں کا تارا بنتی جا رہی تھی۔

اب میں پھر کویتا کی نئی فلم ''راجہ صاحب'' کی طرف آتا ہوں۔ کویتا اپنی نئی فلم کے سیٹ پر چلی گئی تھی اور میں موسیقار کمال احمد کے ساتھ ''راجہ صاحب'' کے پہلے گیت کے لیے مکھڑے سوچ رہا تھا۔ کمال احمد دھن سناتے جا رہے تھے۔ میرے چند مکھڑے سن کر وہ بولے ، یونس ہمدم! اب تم عمدہ شاعری کے چکر میں نہ پڑو۔ ایک ایسا مکھڑا لکھو جو بہت ہی سیدھی سادی زبان میں ہو اور بالکل ہلکی پھلکی شاعری ہو۔ میں نے پھر دو تین بار دھن کو سنا اور ایک مکھڑا کمال احمد صاحب کو سنایا جو کچھ اس طرح تھا:

تُو ہے راجا میں ہوں رانی
تیرے پیار کی دیوانی
کیسے تجھ پہ اثر نہ ہوگا
پیار تجھ کو بھی کرنا ہوگا

کمال صاحب نے جب ہارمونیم اور طبلے کے ساتھ اسے دہرایا تو بولے بس مجھے ایسا ہی مکھڑا چاہیے تھا۔ اب تین انترے اور لکھ دو بس گیت مکمل ہے۔ یہ دو تین گھنٹے کی کاوش تھی اور ''راجہ صاحب'' کا گیت مکمل ہوگیا تھا۔ اسی رات کو ہدایت کار پرویز رانا نے گیت اوکے کر کے دوسرے دن کی ریکارڈنگ رکھ لی اور پھر یہ گیت گلوکارہ مہ ناز اور اے۔نیرکی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا جسے اسی ہفتے کویتا اور شاہد پر فلمایا گیا تھا۔ فلم بینوں نے کویتا کو بھی شاہد کے ساتھ پسند کیا تھا۔
Load Next Story