ایل این جی درآمدی منصوبے پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں
6ماہ کےدوران ایل این جی ٹرمینل لگانےوالی کمپنی کوصرف پینلٹی کی مدمیں 1ارب 70کروڑروپےسےزائد کی ادائیگیاں واجب ہوچکی ہیں
نندی پور پروجیکٹ کے بعد ایل این جی درآمدی منصوبے پربھی انگلیاں اٹھنے لگیں، ٹرمینل آپریٹرکوفائدہ پہنچانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے بعض حلقے نجی ٹرمینل آپریٹرکے سابق سی ای او کو پی ایس او کا منیجنگ ڈائریکٹرمقررکرنے کے فیصلے کو ٹرمینل لگانے والی کمپنی کوفائدہ پہنچانے کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں، ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد خسارے کا سودا بن رہی ہے، 6 ماہ کے دوران ایل این جی ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو صرف پینلٹی کی مد میں 1ارب 70کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں واجب ہوچکی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ بننے کے ساتھ سرکلر ڈیٹ میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
انرجی سیکٹر کے ذرائع کے مطابق ایل این جی ٹرمینل کے 26 مارچ کو افتتاح کے بعد سے اب تک 11 پارسلز کے ذریعے مجموعی طور پر 30 ارب کیوبک فٹ گیس درآمد کی جاچکی ہے، ٹرمینل کے ذریعے مائع گیس کو قومی گیس ڈسٹری بیوشن سسٹم میں گیس کی شکل میں داخل کرنے کے لیے ٹرمینل آپریٹرز کے ساتھ یومیہ 200 ایم ایم سی ایف گیس پراسیس کرنے کا معاہدہ کیا گیا ہے، اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے یا ٹرمینل استعمال نہ ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت 2لاکھ 75 ہزار ڈالر یومیہ ادائیگی کی پابند ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرمینل کی 200 ایم ایم سی ایف گنجائش مہینے کے 30روز بروئے کار نہیں لائی جا رہی، ہر ماہ 10سے 15 روز کی پینلٹی قومی خزانے پر بوجھ بن رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق گیس ٹرمینل لگانے والی نجی کمپنی کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑھائی میں ہے جبکہ فرنس آئل کے متبادل کے طور پر ایل این جی کی درآمد کے ذریعے قومی خزانے کی بچت کے تمام دعوے بھی اب تک غلط ثابت ہورہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ہر ماہ 10 روز کے حساب سے ماہانہ 27 لاکھ 50 ہزار ڈالرجبکہ 6ماہ میں 1کروڑ 65لاکھ ڈالر کی مجموعی پینلٹی عائد ہو چکی ہے جس کی مقامی کرنسی میں مالیت 1ارب 70 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ٹرمینل لگانے والی کمپنی 2لاکھ 75ہزار ڈالر یومیہ جرمانے کو منافع میں شمار کررہی ہے جس کی تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں حکومت سے جرمانے پر سود بھی وصول کیا جائیگا۔
وفاقی حکومت نے جرمانے سے بچنے کیلیے ایل این جی کو سست روی سے سسٹم میں منتقل کرنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی اور یومیہ 200 کے بجائے 100 اور بعض اوقات 50ایم ایم سی ایف گیس سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن میں منتقل کی گئی تاہم سست روی کے باوجود جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایل این جی ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو ٹولنگ کی مد میں فی ایم ایم بی ٹی یو 0.66سینٹ چارجز بھی اداکیے جاتے ہیں جودیگر ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں، بھارت میں ایل این جی کے ٹولنگ چارجز 0.45سینٹ جبکہ بنگلہ دیش میں 0.47 سینٹ بتائے جاتے ہیں۔
ٹرمینل لگانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ایل این جی پراسیس نہ ہونے کی صورت میں یومیہ 2لاکھ 75ہزار ڈالر جرمانے کا بڑا حصہ ایف ایس آر یو کی سہولت فراہم کرنے والی غیرملکی جہازراں کمپنی کو ادا کیا جاتا ہے تاہم اس ضمن میں جہازراں کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو خفیہ دستاویز قرار دیا جارہا ہے، ایل این جی کی درآمدی ادائیگی پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کے ذمے لگائی گئی ہے۔
انڈسٹری کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمینل لگانے والی نجی کمپنی کے سابقہ سی ای او کو پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کردیا گیا ہے جس سے ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے خدشات تقویت اختیار کر گئے ہیں۔
اس حوالے سے بعض حلقے نجی ٹرمینل آپریٹرکے سابق سی ای او کو پی ایس او کا منیجنگ ڈائریکٹرمقررکرنے کے فیصلے کو ٹرمینل لگانے والی کمپنی کوفائدہ پہنچانے کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں، ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد خسارے کا سودا بن رہی ہے، 6 ماہ کے دوران ایل این جی ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو صرف پینلٹی کی مد میں 1ارب 70کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں واجب ہوچکی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ بننے کے ساتھ سرکلر ڈیٹ میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
انرجی سیکٹر کے ذرائع کے مطابق ایل این جی ٹرمینل کے 26 مارچ کو افتتاح کے بعد سے اب تک 11 پارسلز کے ذریعے مجموعی طور پر 30 ارب کیوبک فٹ گیس درآمد کی جاچکی ہے، ٹرمینل کے ذریعے مائع گیس کو قومی گیس ڈسٹری بیوشن سسٹم میں گیس کی شکل میں داخل کرنے کے لیے ٹرمینل آپریٹرز کے ساتھ یومیہ 200 ایم ایم سی ایف گیس پراسیس کرنے کا معاہدہ کیا گیا ہے، اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے یا ٹرمینل استعمال نہ ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت 2لاکھ 75 ہزار ڈالر یومیہ ادائیگی کی پابند ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرمینل کی 200 ایم ایم سی ایف گنجائش مہینے کے 30روز بروئے کار نہیں لائی جا رہی، ہر ماہ 10سے 15 روز کی پینلٹی قومی خزانے پر بوجھ بن رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق گیس ٹرمینل لگانے والی نجی کمپنی کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑھائی میں ہے جبکہ فرنس آئل کے متبادل کے طور پر ایل این جی کی درآمد کے ذریعے قومی خزانے کی بچت کے تمام دعوے بھی اب تک غلط ثابت ہورہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ہر ماہ 10 روز کے حساب سے ماہانہ 27 لاکھ 50 ہزار ڈالرجبکہ 6ماہ میں 1کروڑ 65لاکھ ڈالر کی مجموعی پینلٹی عائد ہو چکی ہے جس کی مقامی کرنسی میں مالیت 1ارب 70 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ٹرمینل لگانے والی کمپنی 2لاکھ 75ہزار ڈالر یومیہ جرمانے کو منافع میں شمار کررہی ہے جس کی تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں حکومت سے جرمانے پر سود بھی وصول کیا جائیگا۔
وفاقی حکومت نے جرمانے سے بچنے کیلیے ایل این جی کو سست روی سے سسٹم میں منتقل کرنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی اور یومیہ 200 کے بجائے 100 اور بعض اوقات 50ایم ایم سی ایف گیس سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن میں منتقل کی گئی تاہم سست روی کے باوجود جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایل این جی ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو ٹولنگ کی مد میں فی ایم ایم بی ٹی یو 0.66سینٹ چارجز بھی اداکیے جاتے ہیں جودیگر ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں، بھارت میں ایل این جی کے ٹولنگ چارجز 0.45سینٹ جبکہ بنگلہ دیش میں 0.47 سینٹ بتائے جاتے ہیں۔
ٹرمینل لگانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ایل این جی پراسیس نہ ہونے کی صورت میں یومیہ 2لاکھ 75ہزار ڈالر جرمانے کا بڑا حصہ ایف ایس آر یو کی سہولت فراہم کرنے والی غیرملکی جہازراں کمپنی کو ادا کیا جاتا ہے تاہم اس ضمن میں جہازراں کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو خفیہ دستاویز قرار دیا جارہا ہے، ایل این جی کی درآمدی ادائیگی پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کے ذمے لگائی گئی ہے۔
انڈسٹری کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمینل لگانے والی نجی کمپنی کے سابقہ سی ای او کو پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کردیا گیا ہے جس سے ٹرمینل لگانے والی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے خدشات تقویت اختیار کر گئے ہیں۔