شام کے بحران پر روس امریکا اتفاق
امریکا خود بھی اپنے اتحادی یورپی ملکوں کے تعاون سے شام میں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔
روس نے شام کی بشارالاسد حکومت کو داعش کے خلاف روس کی فوجی مدد فراہم کرنے کے معاملے میں امریکا کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کے ساتھ تقریباً گھنٹہ بھر بات چیت کی۔ یوکرائن کے بحران کے بعد سے امریکا کا روس کے ساتھ یہ پہلا اہم رابطہ ہے۔ امریکا نے اس سے قبل روس کی شام میں پیشرفت پر گہری ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ امریکا خود بھی اپنے اتحادی یورپی ملکوں کے تعاون سے شام میں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کے ترجمان پیٹر کک کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کی اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوئیگو کے ساتھ ہونے والی گفتگو تعمیری نوعیت کی تھی جس میں شام کو داعش کے خطرے سے بچانے کی تدابیر پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کوناش اینکوئے نے بیان جاری کیا ہے کہ دونوں وزرائے دفاع نے اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور بہت حد تک اتفاق رائے پر پہنچ گئے نیز فیصلہ کیا کہ باہمی رابطے کو استوار رکھا جائے گا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جو لندن کے دورے پر ہیں، رپورٹروں کو بتایا کہ صدر اوباما روس اور امریکا کی فوج سے فوج کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں اور اسے ''اہم اگلا اقدام'' کہتے ہیں۔ نیز وہ شام میں دم بدم بگڑتی صورت حال کے حوالے سے اپنے اتحادی ممالک کے تعاون کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے روس اور امریکا کے وزرائے خارجہ بھی باہمی رابطہ کریں گے۔ جان کیری نے لندن میں یو اے ای کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید کے ساتھ ملاقات میں بھی شام کی صورت حال پر بات چیت کی۔ روس بھی شام میں داعش سے مقابلے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راغب کر رہا ہے تاہم روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بہترین طریقہ بشار الاسد کی فوج کی مدد کرنا ہے جو داعش پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پا سکتی ہے۔
البتہ امریکا کا موقف ہے کہ شام میں چار سال سے زیادہ عرصہ سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ صرف بشار الاسد کے حکومت چھوڑ دینے سے ہی ہو سکتا ہے لیکن روس بشار حکومت کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ شام کی بشار حکومت کو ایران کی مدد بھی حاصل ہے۔ جب کہ روس شام کی فضائی مدد کرے گا اور زمینی کارروائیوں کے لیے ایئر لفٹ کے ذریعے روسی ٹینک بھی شام بھیجے جا رہے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس شام کی مکمل فوجی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے شام بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کا مسئلہ سفارتی ذرائع سے حل کرانا سب سے بہتر ہو گا جس سے شام میں سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، نیز اس طرح داعش پر قابو پانے میں بھی آسانی ہو گی۔
امریکا نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سنٹ کام (سینٹرل کمان) کے چیف جنرل مارٹن ڈیمپسی کو اپنے روسی ہم منصب سے رابطہ کرنا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بتایا کہ ان کے روسی ہم منصب بھی امریکا اور روس کی فوج سے فوج کی بات پر زور دے رہے ہیں۔ جان کیری کے نزدیک باہمی مذاکرات سے اس پیچیدہ مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ واضح رہے شام کو اسلامی تہذیب کے مقدس مقامات میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے جہاں کئی قدیم ترین مقابر اور آثار موجود ہیں لیکن گزشتہ چار برس سے زیادہ کی خانہ جنگی میں اس ملک میں بہت زیادہ توڑپھوڑ ہو چکی ہے۔
شام کے سرکاری طیارے بھی باغی عناصر پر بمباری کرتے رہے جس کے نتیجے میں بے شمار ہلاکتوں کے علاوہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر بھی ہو گئے جو اب دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ یورپ والوں نے تو ان مجبور و مقہور لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے تاہم جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا مرکل نے ایک زبردست طنزیہ جملہ کہتے ہوئے کہ بے گھر ہونے والے شامیوں کے لیے حرمین شریفین کا علاقہ زیادہ قریب تھا تاہم وہ ہمارے ملک میں پہنچ گئے ہیں تو ہم چند لاکھ پناہ گزینوں کو اپنے پاس رکھ لیں گے جنھیں فنی اور تکنیکی تربیت دے کر انھیں ملکی ترقی کے منصوبے سونپے جا سکیں گے۔ یہ بات واقعی امت مسلمہ کی سرفرازی کے دعوے کرنے والے ممالک کے لیے خجالت کا سامان ہے۔
بہرحال اب یہ بات واضح ہے کہ شام کے حالات خراب کرنے میں امریکا اور روس نے بھی کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران، خلیجی عرب ریاستوں اور ترکی نے بھی معاملات کو سلجھانے کے بجائے یکطرفہ طرزعمل اختیار کیا، اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان شام کے عوام کا ہوا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے اور لاکھوں بے وطن ہو گئے۔ اب بھی اگر امریکا اور روس چاہیں تو شام میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کے ترجمان پیٹر کک کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کی اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوئیگو کے ساتھ ہونے والی گفتگو تعمیری نوعیت کی تھی جس میں شام کو داعش کے خطرے سے بچانے کی تدابیر پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کوناش اینکوئے نے بیان جاری کیا ہے کہ دونوں وزرائے دفاع نے اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور بہت حد تک اتفاق رائے پر پہنچ گئے نیز فیصلہ کیا کہ باہمی رابطے کو استوار رکھا جائے گا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جو لندن کے دورے پر ہیں، رپورٹروں کو بتایا کہ صدر اوباما روس اور امریکا کی فوج سے فوج کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں اور اسے ''اہم اگلا اقدام'' کہتے ہیں۔ نیز وہ شام میں دم بدم بگڑتی صورت حال کے حوالے سے اپنے اتحادی ممالک کے تعاون کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے روس اور امریکا کے وزرائے خارجہ بھی باہمی رابطہ کریں گے۔ جان کیری نے لندن میں یو اے ای کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید کے ساتھ ملاقات میں بھی شام کی صورت حال پر بات چیت کی۔ روس بھی شام میں داعش سے مقابلے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راغب کر رہا ہے تاہم روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بہترین طریقہ بشار الاسد کی فوج کی مدد کرنا ہے جو داعش پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پا سکتی ہے۔
البتہ امریکا کا موقف ہے کہ شام میں چار سال سے زیادہ عرصہ سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ صرف بشار الاسد کے حکومت چھوڑ دینے سے ہی ہو سکتا ہے لیکن روس بشار حکومت کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ شام کی بشار حکومت کو ایران کی مدد بھی حاصل ہے۔ جب کہ روس شام کی فضائی مدد کرے گا اور زمینی کارروائیوں کے لیے ایئر لفٹ کے ذریعے روسی ٹینک بھی شام بھیجے جا رہے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس شام کی مکمل فوجی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے شام بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کا مسئلہ سفارتی ذرائع سے حل کرانا سب سے بہتر ہو گا جس سے شام میں سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، نیز اس طرح داعش پر قابو پانے میں بھی آسانی ہو گی۔
امریکا نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سنٹ کام (سینٹرل کمان) کے چیف جنرل مارٹن ڈیمپسی کو اپنے روسی ہم منصب سے رابطہ کرنا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بتایا کہ ان کے روسی ہم منصب بھی امریکا اور روس کی فوج سے فوج کی بات پر زور دے رہے ہیں۔ جان کیری کے نزدیک باہمی مذاکرات سے اس پیچیدہ مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ واضح رہے شام کو اسلامی تہذیب کے مقدس مقامات میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے جہاں کئی قدیم ترین مقابر اور آثار موجود ہیں لیکن گزشتہ چار برس سے زیادہ کی خانہ جنگی میں اس ملک میں بہت زیادہ توڑپھوڑ ہو چکی ہے۔
شام کے سرکاری طیارے بھی باغی عناصر پر بمباری کرتے رہے جس کے نتیجے میں بے شمار ہلاکتوں کے علاوہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر بھی ہو گئے جو اب دنیا بھر میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ یورپ والوں نے تو ان مجبور و مقہور لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے تاہم جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا مرکل نے ایک زبردست طنزیہ جملہ کہتے ہوئے کہ بے گھر ہونے والے شامیوں کے لیے حرمین شریفین کا علاقہ زیادہ قریب تھا تاہم وہ ہمارے ملک میں پہنچ گئے ہیں تو ہم چند لاکھ پناہ گزینوں کو اپنے پاس رکھ لیں گے جنھیں فنی اور تکنیکی تربیت دے کر انھیں ملکی ترقی کے منصوبے سونپے جا سکیں گے۔ یہ بات واقعی امت مسلمہ کی سرفرازی کے دعوے کرنے والے ممالک کے لیے خجالت کا سامان ہے۔
بہرحال اب یہ بات واضح ہے کہ شام کے حالات خراب کرنے میں امریکا اور روس نے بھی کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران، خلیجی عرب ریاستوں اور ترکی نے بھی معاملات کو سلجھانے کے بجائے یکطرفہ طرزعمل اختیار کیا، اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان شام کے عوام کا ہوا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے اور لاکھوں بے وطن ہو گئے۔ اب بھی اگر امریکا اور روس چاہیں تو شام میں امن قائم ہو سکتا ہے۔