محسن پاکستان جناب عبدالقدیر خان
اور اب آتے ہیں ان کتابوں کی طرف جن کے مطالعے نے کالم لکھنے کی تحریک پیدا کی۔
حال ہی میں الجلیس انٹرنیشنل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان فخر پاکستان شان پاکستان کے حوالے سے کتابیں شایع کی ہیں، جلیس سلاسل نے محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ(ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ڈی بریفنگ) اور ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' جیسی اہم کتابیں مجھے عنایت کیں، میں ان کی اس کرم نوازی کے لیے بے حد شکر گزار ہوں اس کی وجہ کروڑوں پاکستانیوں کی طرح میرے دل میں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے بے پناہ عزت و احترام پنہاں ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے اس کا وقار بلند کرنے اسے تحفظ دینے اور پوری دنیا میں اس کا چہرہ روشن کرانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا کردار اہم ہے۔
جلیس سلاسل نے عسکری قائدین کے انٹرویوز بھی کیے جو کتابی شکل میں ''کورٹ مارشل'' کے عنوان سے شایع ہوچکے ہیں، ان انٹرویوز میں ایئر مارشل نورخان، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم اظہر، جنرل ٹکا خان، نواب زادہ میجر جنرل شیر علی خان پٹودی، میجر جنرل اکبر خان، سابق چیف آف جنرل اسٹاف پاکستان آرمی، فخر پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی عظیم ہستیاں ''کورٹ مارشل'' میں گفت و شنید کے حوالے سے شامل کتاب ہیں۔ ''ٹیبل ٹاکس'' یہ کتاب بھی اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہے، ایک کتاب ''جلیس سلاسل کے قلمی کارنامے'' کے عنوان سے جلد ہی منصہ شہود پر آجائے گی، یہ تو جلیس سلاسل کا مختصر سا تعارف ہوا، ورنہ کام تو انھوں نے اتنا کیا ہے کہ جس کے لیے بہت سے صفحات درکار ہوں گے۔
اور اب آتے ہیں ان کتابوں کی طرف جن کے مطالعے نے کالم لکھنے کی تحریک پیدا کی۔ ''محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ'' ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' نامی کتب کے محقق و مصنف زاہد ملک ہیں، جنھوں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے بہت سے مصائب جھیلے، وسوسوں نے ان کا پیچھا کیا، لوگوں نے ڈرایا، لیکن وہ حق کی ترجمانی کرنے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے، انھوں نے ڈٹ کر لکھا اور خوب لکھا، وہ ان حالات میں بھی، جب انسان کا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دم اس لیے بھرتے رہے کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے بانی تھے۔
اپنے وطن کے لیے جان قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار، ان کے دشمن یقینا وطن کے دشمن ہیں ان دشمنوں نے انھیں ذہنی اذیت سے ہمکنارکردیا، ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو شاہی تخت پر بٹھائے جاتے ان کے قدم چومے جاتے، لیکن قدم تو ان کے چومے گئے جب چاغی کے ایک قبائلی سردار نے اپنی پگڑی اس عظیم انسان کے قدموں پر رکھ دی اور جذباتی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہوئے کہا کہ ''جناب میرے تین بیٹے ہیں جب کہیں گے پاکستان کے لیے قربان کردوں گا۔''
اس سردار کو معلوم تھا کہ اب وہ اس ملک کا باشندہ ہے جس کی طرف دشمن آنکھ اٹھاتے ہوئے خوف کھائے گا، اب پاکستان کا کوئی مائی کا لال بال بیکا نہیں کرسکے گا۔ لیکن گہرا صدمہ اس بات پر ہے اور رہے گا کہ ہمارے اپنے وطن میں اپنے ہی مجاہد کی قدر نہیں کی گئی بلکہ ناکردہ گناہوں کی سزا یہ ملی کہ شرمناک جرائم کے مرتکب قیدیوں کے ساتھ جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ دردناک واقعے کو جناب عبدالقدیر خان کی ہی زبانی سنتے ہیں۔
13 اگست 1989 کو دوپہر دو بجے کے قریب ایف آئی اے سب انسپکٹر شمس مجھے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حکام کے حوالے کرگئے جیل حکام نے ضابطے کی کارروائی کرنے کے بعد مجھے وصول کرلیا اور انسپکٹر شمس کو رسید جاری کردی، جب میں نئی تعمیر شدہ جیل کے آہنی صدر دروازے کی چھوٹی کھڑکی سے جھک کر جیل کے اندر ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو ایک طرف دیوار پر خطرناک قیدیوں کی تصاویر اور ان کے کارنامے مختصر طور پر درج تھے جب کہ دوسری پر جیل کے مکینوں کی تفصیل درج تھی (2626کے بعد) میں قیدی نمبر 2627تھا۔
یقیناً ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی مایہ ناز اور بے مثال شخصیت کے نام کے سامنے یہ ضرور لکھا ہوگا کہ ''ایٹم بم کے خالق''۔ یہ ہی تو ان کا جرم یا کارنامہ تھا، لیکن حکم کے تابعدار اتنی جرأت کہاں سے لاتے؟ دشمن مخالف قوتیں پاکستان کو مضبوط دیکھنا کیونکر پسند کرتیں ایک اسلامی ملک دنیا کے خطے میں ایٹمی طاقت بن کر ابھرے، لہٰذا ایسے الزامات لگا کر عبدالقدیر خان جیسے نیک اور سچے مسلمان کو بہت سی مشکلات سے ہمکنار کیا گیا۔
پرائے تو پرائے ہی ہوتے ہیں لیکن جب اپنے ہی ظلم کے پہاڑ (اس بات کو بھلا کر کہ مکافات عمل انسان کا پیچھا کرتا ہے اور ایک دن ایسا ہوکر رہتا ہے) توڑنا شروع کردیں تب انسان بڑا ہی بے بس اپنے آپ کو پاتا ہے بارہا یہ سوچ دامن گیر رہتی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا ہی کچھ جناب عبدالقدیر خان کے ساتھ ہوا۔
انھیں نظر بند کردیا گیا جہاں ان کی بیگم ہینی خان بھی اپنی مرضی سے اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے تھیں کہ وفا شعار شوہر پرست تھیں، اپنے مجازی خدا کی قدر و قیمت، ایثار و قربانی اور ان کی خدمات سے واقف تھیں ان کی پاکیزہ طبیعت اور ان کے خلوص و محبت سے بھی آگاہ تھیں کیسے ان حالات میں تنہا چھوڑ دیتیں۔ کتاب کے مصنف و مولف زاہد ملک نے ان کے اعلیٰ کردار کے حوالے سے ایک پورا باب بعنوان ''اے عظیم خاتون ہم سب شرمندہ ہیں'' درج کیا ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب ''محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ'' میں یہ بھی بتایا کہ فخر پاکستان ڈی بریفنگ سے پہلے بالکل صحت مند تھے لیکن ڈی بریفنگ کا عمل شروع ہوتے ہی وہ فشار خون اور اختلاج قلب میں مبتلا ہوگئے۔
محسن پاکستان پر الزامات لگانے والے، انھیں چور اور لالچی کہنے والوں نے ان کا اعتماد کرچیاں نہیں کیا، بلکہ اپنا وقار اپنی عزت اور اپنے اعتبار کو داؤ پر لگایا۔ آج سچ اور جھوٹ سب کے سامنے ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے یا ذلت دے، یہ انسان کے کرتوتوں پر منحصر ہے۔ آج بھی محسن پاکستان کی وہی عزت اور نیک نامی ہے جو کل تھی۔ بے شک جو بویا جاتا ہے، اسے کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ محسن پاکستان اور شان پاکستان نے بڑا کام کیا تھا لہٰذا بڑائی ان کے حصے میں آئی۔
زاہد ملک صاحب ایک درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں یوں تو ان کی ہر کتاب قارئین کی توجہ کا مرکز بنی ہے لیکن ان کی دو کتابوں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ (1)۔مضامین قرآن حکیم (2)کو جو پہلے اردو میں اور پھر Subject of Quran کے نام سے انگریزی میں شایع ہوئی۔ دوسری کتاب ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' (Dr. Abdul Qadir Khan and Islamic Bomb)کے نام سے انگریزی میں شایع ہوئی۔ آج میں نے بھی ان کی مذکورہ کتابوں پر خامہ فرسائی کرنے کی جرأت کی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زور اشاعت اور زیادہ ہو، زاہد ملک صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں یقیناً یہ جہاد ہے۔