کراچی ٹرانسپورٹ اور ذہنی تناؤ
کراچی ایک تجارتی حب ہے، اس کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے
کراچی ایک تجارتی حب ہے، اس کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن بد قسمتی سے کراچی میں ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی فرسودہ ہے، شہریوں کو آمد ورفت میں شدید مشکلات اور مستقل ذہنی تناؤکا سامنا ہے۔
گزشتہ 15سالوں سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہے، رکشا وٹیکسی ڈرائیور شہریوں سے چند کلومیٹر فاصلے کے لیے من مانے کرائے وصول کرتے ہیں، 10 سال قبل رکشا ٹیکسی کے ڈرائیور میٹر کیمطابق مسافر سے کرایہ 9 روپے فی کلو میٹر وصول کرتے تھے۔
اب چند فاصلوں کے لیے کرایہ 60 روپے سے کم نہیں لیتے۔ شہرکی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہر میں معاشی اور تعلیمی سرگرمیاں بڑھنے کی وجہ سے مسافر شہریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کا مختص حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کو کھڑے ہوکر بھی سفر کرنا پڑ جاتا ہے، مسافر چوں کہ مقررہ منزل کے لیے کرایہ ادا کرتے ہیں تو وہ حق دار ہیں کہ انھیں طے شدہ سہولتوں کے ساتھ سفر کا موقع فراہم کیا جائے لیکن شہر کراچی میں معاملہ الٹا ہے، بسوں، ویگنوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر بٹھانے اور چھتوں پر سوار کرنے کا رواج عام ہے۔
اگرچہ سندھ ہائی کورٹ اور ٹریفک قوانین کے مطابق ایسا کرنا قانونی جرم ہے لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ گاڑیوں کے مالکان گاڑیوں کی کمی کی آڑ میں قانون توڑتے نظر آتے ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والی گاڑیاں بھی شہر کی سڑکوں پر موجود ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ بسوں، ویگنوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر بٹھانے پر پابندی عائد کرچکی ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ بسوں کی چھتوں پر بھی مسافروں کو سوار کرنا غیر قانونی ہے، ڈی آئی جی ٹریفک اور محکمہ ٹرانسپورٹ قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے،عدالتی حکم کے خلاف ورزی پر حکام کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے غیر سرکاری تنظیم راہ راست ٹرسٹ کی درخواست پر بدھ 4 جولائی 2015 کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔
راہ راست ٹرسٹ کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ موٹر وہیکل قوانین میں پبلک ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والی بسوں اور منی بسوں میں سواری کی گنجائش اور تعداد بھی درج ہوتی ہے، بسوں میں سفرکرنے کے لیے مسافر کا کرایہ بھی نشست کے مطابق ایندھن کے استعمال اور مسافت کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے مگر بسوں میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سفر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، مسافروں کو دروازے کے ساتھ لگے اسٹینڈ (پائیدان) پر کھڑے ہونے دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔
موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے سیکشن 44 اور 99 کے تحت بسوں اور منی بسوں میں مسافرکوکھڑا ہونے کی اجازت دینا بھی غیر قانونی ہے جب کہ بس کی چھت پر مسافر کو بیٹھنے کی اجازت دینا ان کی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے جوکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324 اور اقدام قتل کے زمرے میں آتا ہے، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سفر کرانا ان کی جان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مدعا علیہان کو موٹر وہیکل قوانین پر سختی سے عمل در آمد کرانے کی ہدایت کی جائے اور بسوں میں اوور لوڈنگ کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے، زمینی حقائق یہ ہیں کہ سرعام سرکار کی ناک کے نیچے ٹرانسپورٹ قوانین کے خلاف ورزی جاری ہے، ٹریفک پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ متعلقہ قوانین پر عمل در آمد یقینی بنائے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اوور لوڈنگ کی بڑی وجہ مسافروں کے لیے گاڑیوں کی شدید کمی ہے۔
شہرکراچی میں امن وامان کی صورتحال خصوصی طور پر ہڑتالوں کے موقعے پر مسافر بسوں، کوچز اور منی بسوں کے علاوہ بڑی تعداد میں گاڑیاں جلائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کاروبار میں سرمایہ کاری نہیں کی جارہی ہے، اور شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی ہے۔محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق شہر کراچی میں ڈیڑھ لاکھ سی این جی رکشے اور 25 ہزار ٹیکسیاں چلتی ہیں، 6 ہزار پرانے دو اسٹروک پٹرول پر چلنے والے رکشوں پر دسمبر 2012 سے ہی پابندی عائد ہے لیکن پھر بھی بیشتر سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں۔
اگرچہ محکمہ ٹرانسپورٹ رکشا، ٹیکسی کی فٹنس کی جانچ پڑتال کے لیے فٹنس سسٹم کی نگرانی کررہاہے اس کے باوجود ناکارہ گاڑیاں چل رہی ہیں جو شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ کم عمر ڈرائیوروں کے نہ تو قومی شناختی کارڈ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہوتے ہیں اور اکثر ڈرائیوروں کے پاس موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے کاغذات بھی موجود نہیں ہوتے ہیں اس طرح کم عمر ڈرائیور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ون وے اور سگنل کے خلاف ورزیاں بھی عام ہوتی جارہی ہیں جس سے حادثات ہوتے رہتے ہیں ایک رپورٹ کیمطابق 80 سے 90 فی صد ٹریفک حادثات انسانی غلطی کے باعث پیش آتے ہیں۔
10 فی صد حادثات میکینکل غلطی کے باعث ہوتے ہیں۔ اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔شہر میں ٹریفک حادثات میں قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز رات 9 بجے سے صبح 6 بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک چلائی جانے کا قانون ہے اور ان اوقات کار کی خلاف ورزی کرنیوالے ڈرائیوروں پر نہ صرف جرمانے کیے جائیں گے بلکہ سخت سزائیں بھی دی جائیں گی۔ ماضی میں دن کے اوقات میں چلنے والی ہیوی ٹریفک کے خلاف انتہائی موثر مہم چلائی گئی تھی جس پر ہیوی گاڑیوں کے مالکان کی جانب سے شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا اور 4 سے 5 روز کے لیے سڑکیں بند کرکے ٹینکرز اور کنٹینرز سروس معطل کردی گئی تھی۔
ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے واٹر ٹینکرز کو ہیوی ٹریفک میں شامل کرنے اور ان کے سڑکوں پر آنے کے اوقات کار رات 9 بجے سے بھی بہتری آنے کی توقع تھی کہ جب واٹر ٹینکر ہی نہیں بھرے جائیں گے تو ہائیڈرنٹس کو فراہم کیا جانے والا پانی علاقوں کی جانے والی پانی کی سپلائی میں اضافے کا سبب بنے گا اور شہریوں کو زائد وقت تک پانی فراہم کیا جاسکے گا لیکن افسوس! ایسا نہ ہوسکا اب بھی پرانا شہر کے علاقوں میں اور دیگر مقامات پر ہیوی ٹریفک اور واٹر ٹینکرز نظر آتے ہیں۔
آئی سی آئی پل پر سے گزرنا عذاب بن گیا ہے۔اندرون ملک چلنے والے مسافر بسوں کے اڈوں کو شہرکراچی سے باہر منتقل کرنے کے احکامات پر عمل در آمد نہ ہونے کے باعث حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس اور بلدیہ عظمیٰ شہر میں قائم غیر قانونی مسافر کوچزکے اڈوں کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے کے عوض بھاری رشوت وصول کرتے ہیں۔ دوسری جانب ٹریفک پولیس کی ملی بھگت سے ہیوی لوڈنگ ٹریفک ممنوعہ اوقات میں شہر کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں جو ٹریفک حادثات کی اہم وجہ ہیں۔ الغرض کہ شہر کراچی میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرنے میں جہاں شہری ڈرائیور قصور وار ہیں وہاں قانون کے رکھوالے ٹریفک پولیس اہلکار بھی ملوث ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟