بدلتے موسموں کے سماجی اثرات جو سائنسی تحقیق میں شامل نہیں

پاکستان میں آنے والے پے درپے سیلابوں سے ہمیں کچھ تو سیکھنا ہوگا۔


شبینہ فراز September 20, 2015
خواتین قدرتی آفات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ فوٹو : فائل

اس سے پہلے کہ اپنے موضوع پر روشنی ڈالی جائے، آئیے انیلا سے ملتے ہیں۔انیلا جلال، ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں محب بانڈا کی رہنے والی ہے۔ اس کی کہانی دل دہلانے والی ہے۔

سترہ اٹھارہ سال کی یہ چھوٹی سی لڑکی، جب سیلاب آیا تو تین ماہ کی دلہن تھی۔ اس کا کمرا سجا ہوا اور جہیز کے نئے اور خوب صورت سامان سے بھرا ہوا تھا۔ الماری میں جہیز کے کپڑے بھرے ہوئے تھے اور کمرے کی دیوار پر لگی شیلف میں اسٹیل اور شیشے کے برتن چمک رہے تھے۔ وہ بہت خوش تھی، زندگی میں پہلی بار اسے اتنا ڈھیر سارا سامان ملا تھا۔ سجا سجایا کمرا اسے نہال کیے دے رہا تھا، لیکن رات کے اندھیرے میں آنے والا سیلاب اس کی ساری خوشیاں بہا لے گیا۔



برتن کپڑے، آرائشی اشیا، سب کچھ ریلے میں بہہ گیا۔ انیلا اور اس کے سسرال والے صرف جانیں بچا پائے۔ اب ان کا گھر اینٹوں کے ڈھیر کا نام تھا، جس پر وہ چھپر ڈال کے بیٹھے ہوئے تھے۔اس تباہی کو انیلاسہہ نہ سکی اور گہرے صدمے نے اسے خاموش کردیا۔ وہ نفسیاتی مریض بن چکی تھی۔ اگرچہ انیلا بظاہر ٹھیک ٹھاک اور اپنے بیٹے میں مگن نظر آتی ہے، مگر اس کے روح کے زخموں کااحوال آج بھی اس کی آنکھوں سے چھلکتا ہے۔

دو ہزار دس سے دوہزار پندرہ تک۔۔۔۔ ان چھے سالوں میں پاکستان نے سیلاب کے نام پر مسلسل عذاب سہا ہے۔ چاروں جانب پانی ہی پانی۔۔۔ ہر صوبے کی ایک سی کہانی ہے۔ کبھی سندھ تو کبھی پنجاب، کبھی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اس بار تو چترال بھی شدید تباہی سے گزرا ہے۔

گھر، مویشی، سامان سبھی کچھ پانی بہا لے جاتا ہے، خوش نصیب وہ ٹھہرتے ہیں جو زندگی بچانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ آتی جاتی سانسوں کا نام ہی اگر زندگی ہے تو یہ لوگ واقعی خوش نصیب ہیں!

ناکافی غذا، پینے کے لیے گندا پانی، بیت الخلا کا نہ ہونا اوپر سے مچھروں کی بہتات اور بیماریاں، سیلاب سے متاثرہ اکیاسی لاکھ انسانوں کی اس حالت پر شاید انسانیت بھی شرما جائے۔

اگرچہ لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثرہ ہوئے ہیں، لیکن مردوں کے اس معاشرے میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کی حالت مزید تباہ کن ہے۔ انہیں ہر قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ غذا کی کمی، صحت کے مسائل اور بے گھری جیسے عذابوں کے ساتھ ساتھ یہ بنت حوا عزت کے خطرے سے بھی دوچار ہے۔ جہاں تک صحت کے مسائل کا تعلق ہے تو ایک لاکھ حاملہ عورتیں براہ راست خطرے کی زد میں ہیں۔ غذائی کمی اور طبی سہولتوں کی عدم دستیابی ان کی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔



دنیا بھر کے سائنس داں اور ماحولیات پر کام کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک خطرناک دور میں داخل ہوگیا ہے۔ مختلف سرویز میں پاکستان کو خطرے کی زد میں آئے ہوئے اولین دس ممالک میں شامل کرلیا گیا ہے۔ بس اس کے نمبر آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔

جس برس سیلابوں کی شدت بڑھ جاتی ہے پاکستان اس فہرست میں اوپر ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے اب دنیا بھر کی تحقیق میں پاکستان اور یہاں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سرفہرست ہیں۔ لیکن سائنس داں اور تمام ماحولیات داں تمام پہلوؤں پر سیر حاصل تحقیق کرتے ہوئے سماجی اور نفسیاتی اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اس حقیقت پر بھی بات نہیں کی جاتی کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے آنے والی تمام قدرتی آفات خواتین پر مردوں سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ حتیٰ انہیں مختلف نفسیاتی امراض گھیر لیتے ہیں۔ خوف کا عنصر ان کی زرخیزی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

قدرتی آفات میں بے گھر ہونے والی خواتین اور خصوصاً نوعمر لڑکیاں بے پردگی کا عذاب سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ سیلاب کے بعد متاثرہ خاندانوں کی رہائش کے لیے مناسب جگہ نہ ہونے کے باعث بہت سے خاندان اکھٹا ایک چھت تلے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ غیر مردوں کے ساتھ اکھٹا رہنے اور مناسب پردہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں مردوں کی ہر طرح کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے متاثرین کے کیمپوں میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

خواتین کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں باقاعدہ بیت الخلا کا نہ ہونا بھی ان کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ انہیں حوائج ضروریہ کے لیے دوردراز اور سنسان جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔ ایسی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں کم از کم تیس سے چالیں فیصد اضافہ ہوا ہے۔



قدرتی آفات میں جرائم پیشہ افراد کی بن آتی ہے، لڑکیوں کا اغوا ایسے ہی جرائم کی ایک مثال ہے۔ 2005 کے زلزلے میں ایسے گھناؤنے واقعات عام تھے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی ایسی وارداتیں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی آفت زدہ علاقوں میں لڑکیوں کی نوعمری میں شادی کرنے کا رحجان بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پچھلے سال کے سیلاب میں بھی یہی حال تھا۔ اکثر بچیاں ابھی گیارہ برس کی ہی ہوتی ہیں کہ انہیں شادی کرکے رخصت کردیا جا ہے۔

کھیلنے کودنے کی اس عمر میں یہ معصوم بچیاں، جنہیں شاید ابھی گھریلو ذمے داریوں کے معنی بھی معلوم نہیں ہوتے سر پر سے کسی بوجھ کی طرح اتار کر پھینک دی جاتی ہیں۔

اگرچہ کم عمری کی شادی کے خلاف قانون بن چکا ہے، اس کے باوجود یہ چلن عام ہے۔پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں امدادی کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے سال کے سیلاب کے بعد صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں میں مناسب امداد نہ ملنے کی وجہ سے کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کرنے کی شرح میں20 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم کے مطابق کم عمری کی شادیاں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن سیلاب کے بعد ان کی تعداد بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔

تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اجتماعی شادیاں کروانا بھی کم عمری کی شادیوں کی ایک وجہ ہے۔

سیلاب کے مارے یہ لوگ اپنی مالی بدحالی کی وجہ سے تنگ آکر اپنی بیٹیوں کی شادی کم عمری میں کردیتے ہیں۔ لوگوں کا موقف ہے کہ آج تو کوئی تنظیم یا امدادی ادارہ ان کی بیٹی کی شادی کروادے گا، لیکن کل جب ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا تو وہ کس طرح اس فرض کی ادائیگی کریں گے۔ خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں انتہائی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، مثلاً تعلیمی شعبے ہی کو دیکھیے، پاکستان میں 41 فی صد لڑکیاں بنیادی تعلیم حاصل نہیں کرپاتیں۔



ہمسایہ ملک بھارت میں یہ تعداد تیس فی صد ہے۔ ملک میں قائم ڈیڑھ لاکھ پرائمری اسکولوں میں سے 45 فی صد لڑکوں کے اور 31 فی صد لڑکیوں کے لیے ہیں۔ اب اگرچہ عالمی طور پر یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات کے خواتین پر زیادہ شدت سے اثرات رونما ہوتے ہیں، اس کے باوجود بدلتے موسموں کے سماجی اثرات پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمی تبدیلیوں کے بین الحکومتی ادارے Intergovernmental Panel on climate Change آئی پی سی سی کی 2001 میں جاری کی گئی رپورٹ بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ اس کے مطابق ''موسمی تبدیلیوں کے اثرات مختلف علاقوں میں مختلف افراد اور خصوصا مرد و خواتین پر مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اثرات تمام ممالک میں غریب اور نچلے طبقوں پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں، اندیشہ ہے کہ اس کا اثر صحت ، خوراک ، صاف پانی اور دیگر وسائل کی فراہمی میں عدم تناسب کی صورت میں پیدا ہوگا۔ ''

موسمی تبدیلیوں اور خصوصاً شدید موسموں مثلاً گرمی کی شدت، خشک سالی، طوفانوں اور سیلابوں کی صورت میں عورتیں ہمیشہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور اس کے لیے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ اس کا ثبوت آکسفیم (OXFAM)کی چشم کشا رپورٹ سے ملتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سونامی میں ہلاک ہونے والوں میں 75 فی صد تعداد خواتین کی تھی۔ نیز یہ کہ اس ہلاکت خیز طوفان سونامی سے زندہ بچ جانے والوں میں دوبارہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہونے والوں میں بھی اکثریت خواتین کی ہی ہے۔

اس کے نتیجے میں علاقے میں مردوخواتین کی آبادی کا تناسب تین مرد اور ایک خاتون ہوگیا، یعنی کل آبادی میں تین چوتھائی مرد اور صرف ایک چوتھائی خواتین رہ گئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بے شمار مائیں بھی شامل تھیں، جس کے نتیجے میں شیرخوار بچوں کی اموات کی شرح بھی بڑھ گئی۔ پھر ان علاقوں میں بچیوں میں کم عمری میں شادی، ان پر مکمل توجہ نہ دینے اور لڑکیوں پر جنسی تشدد اور ان کی اسمگلنگ کے واقعات بھی بہت بڑھ گئے۔ یہ اور بات کہ ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہ ہونے کے سبب دنیا سے یہ حقائق پوشیدہ رہے۔

اسی طرح نیپال کے ہمالیائی علاقے میں 1993-1994 میں ایکشن ایڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک تجزیے کے مطابق ماحولیاتی تنزلی نے اس علاقے میں گھریلو مسائل میں اضافہ کردیا ہے جس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ چونکہ لڑکیاں گھریلو کام کاج میں زیادہ حصہ لیتی ہیں اس لیے ان پر ہی ان گھریلو مسائل کا بوجھ بھی زیادہ پڑا ہے جس سے ان کی تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے اور گھریلو حالات کی ناسازگاری کے سبب لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں اسکولوں کی طرف متوجہ کرنے والے پروگرام بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

2003 میں جب یورپ کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا تو صرف فرانس میں بیس ہزار افراد ہلاک ہوئے اور ان میں مردوں کے مقابلے میں معمر خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں (ترقی یافتہ یا ترقی پذیر) قدرتی آفات میں بنیادی طور پر غریب طبقے کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی غریب آبادی میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں بسنے والی غریب طبقے کی خواتین موسمی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں، کیوںکہ مقامی قدرتی وسائل پر زیادہ انحصار کی وجہ سے ان کی گھریلو ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ ان میں ایندھن جمع کرنا، مویشیوں کے لیے چارا لانا ، کاٹنا اور گھریلو استعمال کے لیے دوردراز علاقوں سے پانی لانا شامل ہے۔

پاکستان میں آنے والے پے درپے سیلابوں سے ہمیں کچھ تو سیکھنا ہوگا۔ موسمی تبدیلیوں کو زمینی حقائق کی طرح تسلیم کرنا ہوگا اور اس حوالے سے مستقبل کے لیے تیار کی جانے والی حکمت عملیوں میں خواتین اور ان کی حساسیت کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ تبھی ہمارا آنے والا کل ''آج'' سے مختلف ہوسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں