عالمی شہرت یافتہ ایک امریکی فوٹو گرافر پاکستان میں

پاکستانیوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ آپ نے اپنے اوپر ٖخوف کا جو مصنوعی خول منڈھ رکھا ہے


سید عاصم محمود September 20, 2015
برینڈن سٹینٹن نے بڑی خوبصورتی سے عام پاکستانیوں کی مسّرتوں،اُمنگوں،دکھوں اور خوابوں کو تصاویر کا روپ دے کر انھیں خاص بنا ڈالا…دل چھو لینے والی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

یہ 2010ء کی بات ہے، پچیس سالہ امریکی نوجوان، برینڈن سٹینٹن اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وہ شکاگو میں حصص فروخت کرنے والی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔ وہ پھر چند ماہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتا رہا مگر اسے کوئی عمدہ ملازمت نہ ملی۔ ایک دن اسے خیال آیا، کیوں نہ پیشہ ور فوٹو گرافر بن جاؤں۔ وہ بچپن سے فوٹو گرافی کا شوق رکھتا تھا۔ اس نے طے کیا کہ انوکھے فطری مناظر کی تصاویر اتار کر رسائل و اخبارات کو فروخت کی جائیں۔ یوں گزارے لائق رقم تو ہاتھ آجاتی۔

وہ پھر امریکی شہروں میں گھوم پھر کر حسین و جمیل اور دلکش قدرتی مناظر کو تصاویر میں محفوظ کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ اسے احساس ہوا کہ سڑکوں پر چلتے پھرتے عام لوگ بھی بعض اوقات تصویر کا پُرکشش موضوع بن جاتے ہیں۔ چناں چہ وہ لوگوں سے اجازت لے کر ان کی تصاویر اتارنے لگا۔

اگست 2010ء میں برینڈن نے فیس بک پر اپنا صفحہ بہ عنوان ''ہیومنز آف نیویارک''(humans of new york) بنالیا۔ وہ پھر اتاری گئیں اپنی تصاویر اس میں پوسٹ کرنے لگا۔ وہ ایک ہمدرد نوجوان تھا۔ عام لوگوں کی تصاویر اتارتے ہوئے وہ ان سے باتیں بھی کرتا اور باتوں باتوں میں ان کی زندگی کے ڈھکے چھپے گوشے، تمنائیں، خواب، آدرش بھی جان جاتا۔

ایک دن اسے خیال آیا، کیوں نہ عام مردوزن کی تصاویر فیس بک پر دیتے ہوئے ہر ایک کے متعلق کچھ باتیں لکھ دی جائیں... ایسی باتیں جو ایک انسان کے دکھ درد، خوشیاں، خواہشیں، جذبات و احساسات واضح کرسکیں۔ یہ آئیڈیا اسے پسند آیا۔ چناں چہ وہ بڑی مہارت سے ہر تصویر کے ساتھ مختصر نوٹ دینے لگا۔ وہ چند جملوں میں ایک انسان کی جدوجہدِ زندگی بڑے جامع و بلیغ انداز میں سمیٹ کر رکھ دیتا۔

یہ ایک اچھوتا خیال تھا۔ الفاظ کی طاقت اور تصویر کی بصری قوت کا جب ملاپ ہوا، تو ایک دوآتشہ اثر نے جنم لیا۔ اسی اثر کی وجہ سے تصویر دیکھنے اور نوٹ پڑھنے والا بہت متاثر ہوتا اور تادیر اس میں کھویا رہتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک پر برینڈن کے پرستاروں کی تعداد بڑھنے لگی۔ لوگ اس کی تصاویر وسیع پیمانے پر شیئر کرنے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برینڈن کو مقبول بنانے میں فیس بک (یا سوشل میڈیا) نے بنیادی کردار ادا کیا۔

نومبر 2010ء میں برینڈن سٹیٹن نے''ہیومنز آف نیویارک'' کے نام ہی سے اپنے بلاگ کی بنیاد رکھ دی۔اس بلاگ کو بھی سوشل میڈیا میں زبردست مقبولیت ملی اور روزانہ لاکھوں لوگ اسے دیکھنے لگے۔ اب تک اس بلاگ پر برینڈن چھ ہزار سے زائد تصاویر لوڈ کرچکا۔ فیس بک پر اس بلاگ کے ''ایک کروڑ چھیالیس لاکھ'' فاؤلر یا پرستار ہیں۔ان میں بڑی بڑی ہستیاں مثلاً امریکی صدر اوباما،ہالی وڈ انجلینا جولی وغیرہ شامل ہیں۔اپنی اچھوتی ''انسانی تصویری کہانیوں'' کی وجہ سے برینڈن عالمی سطح پر جانی پہچانی شخصیت بن چکا۔

دراصل ہر انسان میں جذبات و احساسات سے بھری ایک انمول کہانی پوشیدہ ہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر یہ کہانی نمایاں نہیں ہوپاتی۔ برینڈن کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ صرف انسانوں کی کہانی سامنے لاتا بلکہ اسے ایسا جذباتی زاویہ دیتا کہ ایک عام انسان بھی اہم اور غیر معمولی بن جاتا ہے۔انسان کے ساتھ یہ عجیب جذبہ نتھی ہے کہ جب وہ دوسروں کی تکالیف اور پریشانیاں دیکھے، تو اسے اپنے دکھ درد ہلکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ برینڈن کی تصویری کہانیاں انسانوں میں یہی خاص جذبہ ابھارتیں اور ان میں ہمدردی، رحم اور محبت کے اعلیٰ انسانی جذبے پیدا کرتی ہیں۔ ان کہانیوں کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے انسان خود کو پوری انسانیت سے جڑا پاتا ہے اور اس کی ذہنی وسعت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔

انسانوں کی خوشیوں، غموں، دکھوں اور تمناؤں کو تصویری و تحریری روپ دینے والے اس منفرد امریکی فنکار نے پچھلے دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس نے شمالی علاقہ جات سے لے کر کراچی تک وطن عزیز کی سیاحت کی اور انمول یادیں دل میں بسائے امریکا لوٹا۔برینڈن سٹینٹن نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران تقریباً ایک سو تصویری کہانیاں تخلیق کیں جو آج بھی اس کے بلاگ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس نے شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن کو ''کرہ ارض پر سب سے حیرت انگیز فطری مناظر'' میں شمار کیا۔

برینڈن کی پاکستانی تصویری کہانیاں اپنے اندر دکھ، درد، طنز و مزاح اور خوشیاں سموئے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ دیکھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتی اور اسے بتاتی ہیں کہ دہشت گردی کا نشانہ بنا پاکستان بھی سبھی ممالک کی طرح ایسا ملک ہے جہاں اچھے اور برے، دونوں قسم کے انسان بستے ہیں۔ درحقیقت برینڈن کی تصویری کہانیوں نے دنیا بھر میں پاکستان کی اچھائیوں ہی کو نمایاں کیا اور لاکھوں غیر ملکیوں نے وطن عزیز کو ایک نئی نظر، نئے زاویے سے دیکھا اور بہت متاثر ہوئے۔

(1) بدقسمت خاتون
برینڈن کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے بھی یادگار و تاریخی رہا کہ وہ ایک سّکہ بند سماجی رہنما کی صورت سامنے آیا۔ 13 اگست کو اس نے اپنے بلاگ پر دکھوں کی ماری ایک پاکستانی عورت کی تصویر لگائی۔ اس مظلوم وعسرت زدہ عورت کا شوہر ظالم تھا اور اسے مارتا پیٹتا۔ چناں چہ وہ اپنے بچوں کو لیے گھر سے باہر نکل آئی۔

اسی دوران انکشاف ہوا کہ خاتون کو خطرناک بیماری، ہیپاٹائٹس سی بھی چمٹ چکی۔اس کے بعد رشتے داروں نے اسے پناہ دینے سے انکار کردیا۔ آخر مجبور عورت ایک ہمدرد نوجوان کے تعاون سے اتوار بازار میں پھل و سبزی کا ٹھیلا لگا کر روزی کمانے لگی۔ لیکن وہ اپنے بچوں کے لیے بہت فکر مند تھی۔ اسے ہر وقت یہ غم کاٹ کھانے کو دوڑتا کہ میں مرگئی تو بچوں کو کون سنبھالے گا!جب برینڈن نے یہ تصویر اور عورت کی داستانِ الم اپنے بلاگ پر لگائی، تو یقین جانیے، ہر طرف سے پاکستانی خاتون کی مدد کے لیے صدائیں اٹھنے لگیں۔ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک بیس ہزار سے زائد مرد و زن نے یہ پیشکش کی کہ وہ بے سہارا عورت کو امداد دینے کے لیے تیار ہیں۔



برینڈن بھی اپنے پرستاروں کے جوش و ولولے سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے پھر خاص طور پر اس پاکستانی خاتون کو تلاش کیا جو اسے راہ چلتے ملی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ بیچاری عورت کی داستان سچی ہے، تو اس نے ایک خصوصی ای میل پتا تخلیق کیا تاکہ مدد کی پیشکش کرنے والے ہمدرد لوگ اس سے رابطہ کرسکیں۔ 14 اگست، بروز یوم پاکستان برینڈن نے دوبارہ اس عورت کی تصویر لگا کر اپنے لاکھوں پاکستانیوں کو یہ مژدہ سنایا کہ بدقسمت پاکستانی خاتون کو مالی امداد دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے مصائب اور مشکلات سے چھٹکارا پاسکے۔ یوں برینڈن مصائب میں گرفتار پاکستانی عورت کے لیے فرشتہ نما انسان ثابت ہوا اور اسے ایک نئی، پُر امید اور روشن زندگی کا تحفہ بخش گیا۔

قارئین کرام! آپ اس تہی دامن اور بیمار عورت کی خودداری دیکھیے۔ شدید مصائب میں گرفتار ہونے کے باوجود اس نے نقد رقم لینے سے انکار کردیا۔ اس عظیم پاکستانی خاتون کی بس یہی خواہش تھی کہ کوئی اس کا علاج کرادے یا اچھی سی ملازمت مل جائے تاکہ وہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہو سکے۔اس نے نقد رقم لینے کو بھیک سمجھا اور اسے لینا گوارا نہ کیا۔

(2) بندھوا مزدوروں سے ٹاکرا
امریکی نوجوان کا سماجی سفر یہیں اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ 15 اگست کو ایک نیا موڑ اختیار کرگیا۔ ایک پاکستانی صحافی نے اس کی ملاقات سیدہ غلام فاطمہ سے کرائی۔ غلام فاطمہ لاہور کی سماجی رہنما اور بانڈیڈ لیبر لبریشن فرنٹ نامی تنظیم کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ یہ سماجی تنظیم خصوصاً اینٹوں کے بھٹّوں (یا کارخانوں) میں کام کرتے بندھوا مزدوروں کو رہائی دلانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

برینڈن نے ''بندھوا مزدوری'' (Bonded Labor) کے متعلق پڑھ رکھا تھا، مگر اس کے دل چیر کر رکھ دینے والے عملی نمونے پاکستان آکر دیکھے۔ بندھوا مزدوری غلامی کی ایک بدترین قسم ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود یہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی پائی جاتی ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ ایک غریب اور ضرورت مند دیہاتی علاقے کے کسی امیر زمین دار یا مالکِ بھٹّہ سے بطور قرض رقم لیتا ہے۔ بدلے میں طے پاتا ہے کہ وہ مقررہ مدت تک کھیتوں یا بھٹّے میں کام کرے گا۔ لیکن دیہاتی جب رقم ادا نہ کرسکے، تو اس کا سود بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یوں وہ زمین دار یا بھٹہ مالک کے ہاں پھنس جاتا ہے۔ ظاہر ہے، قرض مع سود کی ادائیگی کے بعد ہی اسے چھٹکارا ملے گا۔ بندھوا مزدوری کا یہ چکر اتنا خبیث و مکروہ ہے کہ دیہاتی کی اولاد بھی بطور بندھوا مزدور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ زمین دار، بھٹّہ مالک یا کارخانے دار کی نظر میں یہ بدقسمت بندھوا مزدور غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان پر ظلم و تشدد کرتے اور اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔

سیدہ غلام فاطمہ پچھلے کئی برس سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بندھوا مزوری کی لغت ختم کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ وہ اب تک بھاگ دوڑ کر کے رقم کا انتظام کرنے سے ''80 ہزار'' بندھوا مزدوروں کو رہائی کی نعمت عطا کرچکیں۔ بندھوا مزدوری جیسے لرزہ خیز ظلم کے خلاف جدوجہد میں انہیں دھمکیاں ملیں، حتیٰ کہ قاتلانہ حملے بھی ہوئے، مگر وہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔

برینڈن کو یہ بہادر پاکستانی خاتون بہت پسند آئیں۔ اس نے انہیں پاکستان کی ہیرٹ ٹبمین (Harriet Tubman) قرار دیا۔ہیرٹ ٹیمن(1869ء۔1888ء) ایک سیاہ فام امریکی غلام تھیں۔ وہ چھبیس سال کی تھیں کہ مالک کے فارم سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہوں نے پھر سیکڑوں غلاموں کو فرار ہونے میں مدد دی اور انہیں آزادی کی نعمت سے روشناس کرایا۔ امریکی حکومت 10 یا 20 ڈالر کے نوٹ پر ٹبمین کی شبیہہ دینا چاہتی ہے تاکہ ان کی لازوال خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔



سیدہ غلام فاطمہ کے ساتھ برینڈن نے مختلف بھٹّوں کادورہ کیا اور بندھوا مزدوروں کی حالت زار بچشم خود دیکھی۔ اس کا دل یہ دیکھ کر تڑپ اٹھا کہ سبھی مزدور اہل خانہ کے ساتھ نہایت غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ چناںچہ برینڈن نے فیصلہ کیا کہ بندھوا مزدوری کے خلاف جہاد میں سیدہ کا ہاتھ بٹایا جائے۔

انڈیگوگو (Indiegogo)امریکا کی وہ مشہور ویب سائٹ ہے جہاں لوگ کاروباری یا سماجی مقاصد کے لیے عوام و خواص سے فنڈ جمع کرتے ہیں۔ برینڈن نے انڈیگوگو میں Let's Help Fatima End Bonded Labor کے نام سے فنڈ ریزنگ مہم کا آغاز کردیا۔ وہ ایک لاکھ ڈالر (ایک کروڑ چار لاکھ روپے) جمع کرنا چاہتا تھا تاکہ اس رقم سے کئی بندھوا مزدوروں کو تکلیف دہ اسیری سے نجات مل جائے۔

ایک بار پھر برینڈن کے چاہنے والوں، دنیا کے رحم دل و ہمدرد لوگوں اور مخیر افراد نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اب تک تقریباً ''76 ہزار لوگ'' اس مہم میں ''23 لاکھ، 31 ہزار ایک سو اٹھارہ ڈالر'' کا چندہ دے چکے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ''چوبیس کروڑ روپے'' سے زیادہ بنتی ہے۔

کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ بن کر سمندر بن جاتا ہے۔ درج بالا سچائی اس مقولے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رنگ، نسل، اور مذہب سے بے نیاز ہوکر دنیا کے ہزارہا لوگوں نے اسی لیے اس فنڈ ریزنگ مہم میں حصہ لیا کہ مصائب سہنے والے پاکستانی بندھوا مزدور ایک آزاد و خود مختار زندگی کا آغاز کرسکیں۔ یہ رقم اب غلام فاطمہ کی تنظیم کے پاس ہے۔ تنظیم کی کوشش ہے کہ جو خاندان کئی برس سے بندھوا مزدوری کی لعنت کا شکار ہیں، پہلے انہیں آزاد کردیا جائے۔

حیرت انگیز بات یہ کہ از روئے قانون پاکستان میں بندھوا مزدوری ناجائز ہے۔ مگر دیہات میں طاقتور زمین دار اور کاروباری پولیس کے ساتھ مل کر قانون کو بے اثر بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے آج بھی پاکستان میں ہزارہا بندھوا مزدوروں کی موجودگی حکومت کے دامن پر نہایت بدنما دھبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ دورہ پاکستان کے دوران برینڈن کی کھینچی مزید جن تصاویر کو بہت شہرت ملی، ان کا تذکرہ درج ذیل ہے:

(3)خوشی کی برکت
حسین و جمیل وادی ہنزہ میں گھومتے پھرتے اسے ایک جگہ دو بچے بیٹھے ملے۔ اس نے انکی دلکش تصویر اتاری اور نیچے کیپشن یہ دیا:''تمہیں اپنی بہن کی کون سی بات سب سے زیادہ پسند ہے؟''


ننھے بھائی نے جواب دیا ''اس کی خوشی... وہ ہر وقت مسکراتی رہتی ہے۔''

(4) میرے مثالی شوہر
شاہراہ قراقرم پر دریائے ہنزہ کے نزدیک پاسو نامی چھوٹا سا قصبہ آباد ہے۔ اس قصبے میں وخی لوگ بستے ہیں۔ وہیں برینڈن کی ملاقات ایک جوڑے سے ہوئی جن کی محبت کو اس نے مثالی پایا۔ برینڈن نے جوڑے کی خوبصورت تصویر لیتے ہوئے بیگم کی زبانی بتایا:''میں اپنے خاوند کی بہت عزت کرتی ہوں۔ وہ کئی مردوں سے بہت مختلف ہیں۔



انہوں نے کبھی مجھے اپنے جذبات و خیالات ظاہر کرنے سے نہیں روکا۔ اگر وہ کبھی مجھے گھر آتا دیکھ لیں تو چائے اور کیک لیے میرے منتظر ہوتے ہیں۔''

یہ تصویر حقیقتاً ازدواجی زندگی کی مسّرتیں اور خوشیاں بڑی خوبی سے بیان کرتی اور بتاتی ہے کہ میاں بیوی مل جل کر رہیں تو زمین ہی پہ گویا جنت مل جاتی ہے۔

(5)ازدواجی محبت کا بے مثال مظاہرہ
کراچی میں بھی برینڈن کو ازدواجی محبت کا ایک بے مثال مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایک ادھیڑ عمر آدمی نے اسے بتایا :

''جب میری شادی ہوئی تو کچھ عرصے بعد میں تپ دق کا شکار ہوگیا۔ میرے پورے جسم پر دانے نکل آئے۔ ان سے اتنی بدبو آتی کہ کوئی بھی زیادہ دیر میرے قریب نہ ٹھہرپاتا۔ مگر اس بری حالت میں بھی میری بیگم دن میں تین بار میرا جسم صاف کرتی۔ وہ ہمیشہ مجھے تازہ کھانا دیتی اور یہ امر یقینی بناتی کہ غسل کے بعد مجھے صاف کپڑے ملیں۔ایک بار وہ میری تیمار داری کررہی تھی تو پوچھنے لگی ''اگر میں کبھی بیمار ہوگئی تو تم بھی میری دیکھ بھال کرو گے نہ؟''



''میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری سیوا کروں گا۔ چند سال پہلے وہ دماغی رسولی کی وجہ سے مرگئی۔ مرنے سے قبل وہ تین سال مسلسل بستر پہ پڑی رہی۔تب اس کی یادداشت ختم ہوچکی تھی اور وہ کسی کو پہچان نہ پاتی۔ دماغ سے رستا پانی اس کی آنکھوں کے راستے نکلتا رہتا۔ میں دن میں تین بار دکان چھوڑ کر اس کے پاس جاتا۔ اسے پاک صاف کرتا اور کھانا کھلاتا۔

''میں راتوں کو بھی جاگ کر اسے کروٹ دلواتا۔ یہی وجہ ہے، بستر پرمسلسل لیٹنے کے باوجود اسے کمر پر سوجن نہیں ہوئی نہ آبلہ نکلا۔ آخر کار ڈکٹروں نے اس کا علاج کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔پھر جلد ہی وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔''

(6)غربت کا جنجال
وادی ہنزہ میں برینڈن کی ملاقات ایک مقامی نوجوان سے ہوئی جس کی کہانی دل مسوس کردینے والی ہے:

''جب میں چھوٹا سا تھا تو ہمارے علاقے میں کوئی سڑک نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے، ہمیں ان علاقوں تک پیدل جاتے ہوئے تین دن لگ جاتے جہاں اب دو گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔میرا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ اسی لیے مجھے سکول جانے کا موقع نہیں ملا۔ والد کے پاس فیس دینے کے پیسے ہی نہ ہوتے۔ میں چھ سال کا تھا تو ایک مقامی ہوٹل میں برتن دھونے لگا۔ میں صبح سے رات تک یہی کام کرتا۔ میری ساری تنخواہ والد لے لیتے۔



''میں نے ہوٹل آنے والے سیاحوں کی زبانی سنا تھا کہ دنیا میں بڑے بڑے شہر آباد ہیں جہاں عجیب و غریب چیزیں ملتی ہیں ۔مگر ان کی باتیں مجھے پریوں کی کہانیاں محسوس ہوتیں۔ میرا جی کرتا کہ میں بھی دور پار کے دیس دیکھنے جاؤں پھر خالی جیب میرا منہ چڑانے لگتی۔

''چناں چہ میں جوان ہوا، تو میری دنیا وادی تک ہی محدود تھی۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ سبھی بچے میرے جیسے ہوتے ہیں۔ جب میں 16 سال کا ہوا، تو ایک دن ابا کے ساتھ گلگت شہر گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ہوٹل میں ایک لڑکا اپنے والد کے ساتھ کھانا کھارہا ہے۔ وہ میری عمر کا تھا۔ اس نے سکول یونیفارم پہن رکھا تھا۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔''

(7)باپ کا عظیم جذبہ
شہر قائد میں برینڈن کی ملاقات ایک سے ہوٹل کے نوجوان مالک سے ہوئی۔ اس نے اپنی داستان حیات کچھ یوں سنائی:

''یہ ہوٹل میرے ابا نے کھولا۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کی جگہ میں اسے دیکھنے لگا۔ وہ خود پروردہ (سیلف میڈ) انسان تھے۔ پانچویں جماعت میں تھے کہ ان کے والد فوت ہوگئے۔ ابا نے پڑھائی چھوڑی اور گلیوں میں چنے فروخت کرنے لگے۔رفتہ رفتہ انہوں نے خاصی رقم جمع کرلی۔ انہوں نے پھر ایک جگہ چائے کا سٹال لگالیا۔ اس نئے کاروبار سے زیادہ رقم جمع ہوئی، تو ایک ہوٹل کھول لیا۔ شروع میں ہوٹل میں صرف ایک میز تھی۔ اب یہ 25 میزوں والا ہوٹل بن چکا۔



''ابا کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ اسی لیے انہوں نے مجھے اچھے سکول میں داخل کرایا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو زندگی کی تمام سہولیات مہیا کیں۔ ان کی شفقت و پیار یاد آئے، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمیں بڑا آدمی بن جانا چاہیے تھا۔لیکن اپنی ناکامی کا میں ہی ذمے دار ہوں۔ دراصل ابا ہوٹل کے کاموں میں مصروف رہتے تھے، وہ ہم بچوں پر توجہ نہ دے پاتے۔ نتیجتاً میں پڑھنے کے بجائے کھیلوں میں وقت گزارنے لگا۔ ویڈیو گیمز کھیلتا رہتا۔

ابا نے سخت محنت اسی لیے کی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بناسکیں، مگر ہم پڑھ نہ سکے۔ مگر میرا بچہ مختلف ہوگا۔ میں اسے اپنی نگرانی میں پڑھا لکھا کہ بڑا آدمی بناؤں گا۔

(8)اللّٰہ تعالی کا کرم
بادشاہی مسجد، لاہور کی سیر کرتے ہوئے برینڈن ایک نوجوان مولوی سے باتیں کرنے لگا۔ نوجوان نے اسے بتایا:



''میری راج دلاری بیٹی کے دل میں سوراخ تھا۔ میں ہر وقت اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتا رہتا۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی میری التجا ضرور سنیں گے۔ ساتھ ساتھ میں بیٹی کا علاج بھی کراتا رہا۔ آخر اللہ پاک نے کرم فرمایا اور میری بیٹی کو صحت یاب کردیا۔''

(9)نشے کی لعنت
داتا کی نگری میں گھومتے، پھرتے امریکی فوٹو گرافر کا ایک نشئی سے بھی ٹاکرا ہوا۔ اس نے اپنی داستان الم کچھ یوں سنائی:



''میں جوانی میں جوئے کی لت کا شکار ہوگیا۔ اسی لت کے باعث اپنے گھر سے ہاتھ دھو بیٹھا جو مجھے وراثت میں ملا تھا۔ جب میں کنگال ہوا، تو فرار کے راستے ڈھونڈنے لگا۔میں جوانی میں تن ساز تھا۔ میرے بازو فولاد کی طرح سخت اور بھرے بھرے تھے۔ تب میں تم سے بھی زیادہ صحت مند تھا۔ مگر ہیروئن نے سب کچھ تباہ کردیا۔ اب یہی نشہ میرا کھانا ہے۔ اگر یہ راتب مجھے نہ ملے تو کلبلانے لگتا ہوں۔ دس سال سے اسی پر گزارا ہے۔''

(10)شکر کرنے کا انوکھا طریقہ
پاسو میں برینڈن ایک ایسے عام کسان سے ملا جو ہر دم مسکراتا رہتا تھا۔ اس نے پاسو کے باسی سے خوش رہنے کا راز پوچھا، تو وہ بولا:'' میں جب بھی بوریت کا شکار ہوں، تو ریڈیو پاکستان والوں سے رابطہ کرتا اور انہیں اپنا کوئی پسندیدہ نغمہ لگانے کی فرمائش کرتا ہوں۔



تھوڑی دیر بعد جب وہ نغمہ سنائی دے تو میں رقص کرنے لگتا ہوں۔بارش آئے یا طوفان، میں اس وقت بھی رقص کرتا رہتا ہوں۔ دراصل رب کریم نے مجھے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا کرنے کا یہ میرا طریقہ ہے۔ میں پاکستان کا سب سے زیادہ خوش باش آدمی ہوں۔''

(11)محنت رنگ لے آئی
شہر قائد کی سیر کرتے ہوئے برینڈن کی ملاقات ماں بیٹی کے جوڑے سے ہوئی۔ ماں نے دوران گفتگو امریکی کو اپنی زندگی کا یادگار واقعہ سنایا:



''جب میری بیٹی چھ برس کی ہوئی، تو ہم نے تقریبِ سالگرہ منعقد کی۔ اس میں بیٹی کی دو سہیلیاں بھی شریک تھیں۔ ایک سہیلی بڑا جبکہ دوسری چھوٹا سا تحفہ لائی۔ جب پہلی سہیلی نے چھوٹا تحفہ دیکھا تو وہ استہزائیہ ہنسی ہنسنے لگی۔مجھے اس کی ہنسی زہر لگی۔ چاہا کہ ان کی باتوں میں دخل دوں، مگر پھر کچھ سوچ کر رک گئی۔ دراصل میں سعی کررہی تھی کہ اپنی بیٹی کو نیکی اور بدی کے مابین تمیز سکھلا سکوں۔ اسے سمجھاؤں کہ کیا بات اچھی ہے اور کون سی بری!

میری بیٹی نے اپنی مغرور سہیلی کو کہا: ''مجھے دونوں تحفے پسند آئے ہیں۔'' یہ سن کر میں خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ آخر میری محنت رنگ لے آئی تھی۔''

(12)خدا حافظ پاکستان
برینڈن نے وطن عزیز سے رخصت ہوتے ہوئے A Final Word On Pakistanکے نام سے مدرسے جاتے ہوئے بچوں کی ایک خوبصورت تصویر اپنے بلاگ میں پوسٹ کی ۔پھر اپنے دورہ ِپاکستان کو دل چھو لینے والے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا:

''ذرا سوچئیے،جب بھی آپ سے کوئی غلطی سرزد ہو،وہ دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہو جائے اور سبھی ٹیلی ویژن نیٹ ورکوں پر اس کا چرچا کیا جائے۔آپ نے صبر کا دامن چھوڑ کر بچے کو مارا پیٹا،گاڑی چلاتے ہوئے دوسروں پہ چلائے،قطار توڑ ڈالی،کسی کو ناحق تنگ کیا اور بعد میں پچھتائے...آپ کی یہ ساری کوتاہیاں میڈیا کی وساطت سے دنیا والوںکے سامنے رہیں۔

''لیکن دنیا والوں کو یہ معلوم نہ ہو پائے کہ بقیہ 99.99 وقت آپ بالکل نارمل انسان رہتے،دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے اور کم وپیش اپنے ضمیر کی آواز پر چلتے ہیں۔مگر آپ کی شخصیت کا یہ مثبت پہلو دنیا والے نہیں دیکھ پاتے کیونکہ انھیں تو آپ کی صرف غلطیوں اور خامیوں کی خبریں ملتی ہیں۔ظاہر ہے،اس عالم میں دنیا والے آپ کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھیں گے۔کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی درپیش ہے۔



''درست کہ پاکستان کو دہشت گردی،کرپشن، غربت، جہالت، تشدد وغیرہ کا سامنا ہے۔پاکستانی ان مسائل کو مٹانے کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں۔مگر پاکستان میں ان مسائل کے علاوہ بہت کچھ خوبصورت اور دلکش بھی موجود ہے۔گو دنیا والے اس دیس کی خوبصورتیاں عموماً نہیں دیکھ پاتے کیونکہ میڈیا صرف برائیاں اجاگر کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے،پاکستان کا 99.99 فیصد حصہ ڈراؤنا نہیں جیسا مغرب میں سمجھا جاتا ہے۔

''پاکستانیوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ آپ نے اپنے اوپر ٖخوف کا جو مصنوعی خول منڈھ رکھا ہے،اسے اتار پھینکئے۔اور دوسرے انسانوں کو اپنا دوست سمجھئے،دشمن نہیں!پاکستانی متحد ہو کر اپنے سبھی مسائل بہت آرام و خوبی سے حل کر سکتے ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں