کراچی میں حالات بہتر ہوتے ہی تعمیراتی سرگرمیاں تیز
منجمد 40 رہائشی وتجارتی منصوبوں پرکام اور25 پروجیکٹس کی بکنگ شروع
LOS ANGELES:
کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے گزشتہ 6ماہ میں ان منجمد 40 رہائشی وتجارتی منصوبوں پر تعمیراتی سرگرمیاں تیزی رفتاری کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں جو طویل مدت سے زیرالتوا تھے جبکہ بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے اعتماد کی بحالی کے بعد 100 ارب روپے سے زائد مالیت کے 25 نئے تعمیراتی منصوبوں کے اعلان کے ساتھ بکنگ بھی شروع کردی ہے۔
شعبہ تعمیرات کے باخبر ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ شہرکے مضافاتی مڈل اور لوئرمڈل کلاس علاقوں میں سرگرمیاں زیادہ بڑھی ہیں جہاں جائیدادوں کی قیمتوں میں بھی گزشتہ 6ماہ کے دوران 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں اگرمستقل بنیادوں پر امن قائم رہا تو سرجانی ٹاؤن، نیوکراچی، لیاری، نارتھ کراچی، اسکیم33، اسکیم 36، اسکیم 41، اسکیم 42 اور سپرہائی وے کے علاقوں میں جائیدادوں کی قیمتیں صرف 2 سالہ مدت میں50 فیصد بڑھ جائیں گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے بھی ماضی میں شہر کے نوگوایریاز میں شامل مضافاتی علاقوں میں فنانسنگ خصوصا گڈاپ نادرن بائی پاس سے متصل لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کے120 گزکے گھروں کے لیے70 فیصد فنانسنگ کے لیے بھی رضامندی ظاہر کردی ہے، امکان ہے کہ اکتوبر میں لوکاسٹ ہاؤسنگ کی اسکیم کی منظوری مل جائے گی۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین جنید اشرف تالو نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ فی الوقت 80 لاکھ گھروں کی قلت ہے جس میں سالانہ 0.6 ملین کا اضافہ ہو رہاہے۔
فی الوقت نئے رہائشی یونٹوں کی سب سے زیادہ ضرورت مڈل اور لوئرمڈل کلاس کے حامل علاقوں میں ہے جس کی مجموعی شرح82 فیصد ہے جبکہ مہنگے اور پوش علاقوں میں یہ ضرورت صرف 8 فیصد تک محدود ہے کیونکہ خوشحال طبقہ اپنی ضروریات کے مطابق نئے گھر تعمیرکرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ''اپناگھر'' اسکیم کے تحت 5 لاکھ لوکاسٹ گھروں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا، حکومت اگر کراچی میں قبضہ شدہ سرکاری اراضی سے تجاوزات کا خاتمہ کرے اور کچی آبادیوں کو ختم کردے تو لوکاسٹ گھروں کے حکومتی اسکیم پر عمل درآمد ممکن ہے۔
آباد نے گزشتہ 2 سال سے لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے لیکن انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی ودیگر مسائل کی وجہ سے تاحال ناکامی کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں امن قائم ہوتے ہی آباد ممبران نے شہر کے مضافاتی علاقوں میں نہ صرف نئے رہائشی منصوبوں کا اعلان کیا بلکہ طویل عرصے سے رکے ہوئے منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو بھی ریونیو کی مد میں کثیرآمدنی ہوگی کیونکہ ہرتعمیراتی منصوبے میں استعمال ہونے والی80 فیصد پروڈکٹس پر حکومت کو ریونیو ملتا ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ مارگیج فنانس ہاؤسنگ پالیسی پر گزشتہ 10 سال سے بحث ومباحثہ ضرور ہورہا ہے لیکن تاحال اس پالیسی کو حتمی شکل دی گئی نہ منظورکرکے متعارف کرایا گیا حالانکہ مذکورہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اس پالیسی کے نفاذ سے ہی شعبہ تعمیرات کے مالیاتی انفرااسٹرکچر سمیت دیگر متعدد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ایک اور سوال پر جنید تالو نے بتایا کہ ماضی میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے شہر کے مہنگے علاقوں کی جائیدادوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی تھیں جبکہ شہر کے مضافات اور نوگوایریاز میں جائیدادوں کی نہ صرف قیمتیں گھٹ گئی تھیں بلکہ وہاں جائیدادوں کی فروخت بھی منجمد ہوگئی تھی۔
کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے گزشتہ 6ماہ میں ان منجمد 40 رہائشی وتجارتی منصوبوں پر تعمیراتی سرگرمیاں تیزی رفتاری کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں جو طویل مدت سے زیرالتوا تھے جبکہ بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے اعتماد کی بحالی کے بعد 100 ارب روپے سے زائد مالیت کے 25 نئے تعمیراتی منصوبوں کے اعلان کے ساتھ بکنگ بھی شروع کردی ہے۔
شعبہ تعمیرات کے باخبر ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ شہرکے مضافاتی مڈل اور لوئرمڈل کلاس علاقوں میں سرگرمیاں زیادہ بڑھی ہیں جہاں جائیدادوں کی قیمتوں میں بھی گزشتہ 6ماہ کے دوران 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں اگرمستقل بنیادوں پر امن قائم رہا تو سرجانی ٹاؤن، نیوکراچی، لیاری، نارتھ کراچی، اسکیم33، اسکیم 36، اسکیم 41، اسکیم 42 اور سپرہائی وے کے علاقوں میں جائیدادوں کی قیمتیں صرف 2 سالہ مدت میں50 فیصد بڑھ جائیں گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے بھی ماضی میں شہر کے نوگوایریاز میں شامل مضافاتی علاقوں میں فنانسنگ خصوصا گڈاپ نادرن بائی پاس سے متصل لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کے120 گزکے گھروں کے لیے70 فیصد فنانسنگ کے لیے بھی رضامندی ظاہر کردی ہے، امکان ہے کہ اکتوبر میں لوکاسٹ ہاؤسنگ کی اسکیم کی منظوری مل جائے گی۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین جنید اشرف تالو نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ فی الوقت 80 لاکھ گھروں کی قلت ہے جس میں سالانہ 0.6 ملین کا اضافہ ہو رہاہے۔
فی الوقت نئے رہائشی یونٹوں کی سب سے زیادہ ضرورت مڈل اور لوئرمڈل کلاس کے حامل علاقوں میں ہے جس کی مجموعی شرح82 فیصد ہے جبکہ مہنگے اور پوش علاقوں میں یہ ضرورت صرف 8 فیصد تک محدود ہے کیونکہ خوشحال طبقہ اپنی ضروریات کے مطابق نئے گھر تعمیرکرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ''اپناگھر'' اسکیم کے تحت 5 لاکھ لوکاسٹ گھروں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا، حکومت اگر کراچی میں قبضہ شدہ سرکاری اراضی سے تجاوزات کا خاتمہ کرے اور کچی آبادیوں کو ختم کردے تو لوکاسٹ گھروں کے حکومتی اسکیم پر عمل درآمد ممکن ہے۔
آباد نے گزشتہ 2 سال سے لوکاسٹ ہاؤسنگ اسکیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے لیکن انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی ودیگر مسائل کی وجہ سے تاحال ناکامی کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں امن قائم ہوتے ہی آباد ممبران نے شہر کے مضافاتی علاقوں میں نہ صرف نئے رہائشی منصوبوں کا اعلان کیا بلکہ طویل عرصے سے رکے ہوئے منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو بھی ریونیو کی مد میں کثیرآمدنی ہوگی کیونکہ ہرتعمیراتی منصوبے میں استعمال ہونے والی80 فیصد پروڈکٹس پر حکومت کو ریونیو ملتا ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ مارگیج فنانس ہاؤسنگ پالیسی پر گزشتہ 10 سال سے بحث ومباحثہ ضرور ہورہا ہے لیکن تاحال اس پالیسی کو حتمی شکل دی گئی نہ منظورکرکے متعارف کرایا گیا حالانکہ مذکورہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اس پالیسی کے نفاذ سے ہی شعبہ تعمیرات کے مالیاتی انفرااسٹرکچر سمیت دیگر متعدد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ایک اور سوال پر جنید تالو نے بتایا کہ ماضی میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے شہر کے مہنگے علاقوں کی جائیدادوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی تھیں جبکہ شہر کے مضافات اور نوگوایریاز میں جائیدادوں کی نہ صرف قیمتیں گھٹ گئی تھیں بلکہ وہاں جائیدادوں کی فروخت بھی منجمد ہوگئی تھی۔