توراجا کے کشتی نما گھر
مخصوص مکانات، عجیب رسوم، منفرد رواج،ان گھروں میں فرنیچر برائے نام ہوتا ہےلوگ sarongs اوڑھ کر براہ راست فرش پر سوتے ہیں
جنوب مشرقی ایشیا میں آباد زیادہ تر لوگ چاہے وہ انڈونیشیا میں بستے ہوں، ملائیشیا میں رہتے ہوں یا فلپائن میں، پولی نیشیا، مائیکرونیشیا، میلانیشیا یا پھر اس خطے کے دیگر حصوں میں آباد ہوں، یہ سب ملاوی زبان بولتے ہیں۔ یہ سبھی لوگ زمانۂ قدیم میں تائیوان سے نقل مکانی کرکے آنے والے منگول قبائل کی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
مذکورہ منگول قبائل اپنی ہجرت کے وقت پہلے فلپائن میں داخل ہوئے تھے اور وہاں سے وہ پورے بحرالکاہل اور انڈونیشیا تک پھیل گئے۔ لیکن Austronesian یا آسٹرونیشیائی ہجرت سے پہلے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں وہ سیاہ فام آباد تھے جنہیں ایشیائی سیاہ فام نسل کہا جاتا تھا۔ یہ نسل آج بھی نیوگنی اور میلانیشیا میں آباد ہے۔ ممکن ہے کہ Pygmies یا پستہ قد لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں، کیوں کہ اب ان Pygmies کو نیگرو کہہ کر پکارا جاتا ہے اور یہ لوگ فلپائن کے دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کثرت سے آباد ہیں۔
اس خطے میں آنے والی پہلی آسٹرونیشیائی لہر کم از کم پانچ ہزار سال پرانی ہے جب اس خطے میں ابتدائی ملاوی داخل ہوئے تھے۔ یہ لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کا قدوقامت اوسط درجے کا تھا اور ان کی جلد اور بال دونوں سیاہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے انڈونیشیا اور فلپائن کو آباد کیا تھا اور بعد میں انہی لوگوں کو یہاں کے مقامی لوگ کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس کے بعد اس خطے میں دوسری آسٹرونیشیائی لہر لگ بھگ دو ہزار سال پہلے آئی تھی۔ اس لہر میں آنے والے لوگ انڈو چائنا سے آئے تھے۔ انہیں Deutero-Malayans یا ''ملاوی ثانی'' کہہ کر پکارا گیا۔ یہ بڑے مہذب اور اعلیٰ اقدار کے حامل لوگ تھے جو زیادہ تر ان جزائر کے ساحلوں اور کناروں پر آباد ہوئے۔
ان مقامات پر رہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ بہت اچھے ماہی گیر بھی تھے اور ماہر ملاح بھی۔ یہ سمندر کے مزاج کو سمجھتے تھے اور اس کے مطابق کام کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اصل ملائیMalayکی ترجمانی کرتے ہیں، یعنی یہ لوگ اصل ملائی ہیں۔ Proto-Malayans یا ابتدائی ملاوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کا شکار بھی کرتے تھے اور کبھی کبھار اپنی مذہبی رسومات میں انسان کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ لیکن یہ لوگ آدم خور نہیں تھے، بلکہ صرف کوئی رسم ادا کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے۔
بورنیو کے جزیرے پر رہنے والے Dayaksاس کی مشہور مثال ہیں۔ دوسری جانب جزائر انڈونیشیا کے جنوبی پہاڑی علاقوں (Sulawesi) میں آباد Toraja اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مردوں کی آخری رسومات نہایت پیچیدہ انداز سے انجام دیتے ہیں اور ان پر بہت خرچ بھی کرتے ہیں۔
یہ لوگ بھی مذکورہ گروپ کا ہی حصہ ہیں۔ لگ بھگ 4,500سال پہلے یہ لوگ ان علاقوں میں اس طرح داخل ہوئے تھے کہ یہ بڑے بڑے بحری جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہوکر آئے تھے۔ ان کے ان جہازوں اور کشتیوں کی یاد آج بھی آپ کو Torajaمیں اس طرح نظر آئے گی کہ اس علاقے کے سبھی مکانوں کی چھتیں بحری جہازوں اور کشتیوں جیسی ہیں۔ یہ مکان دیکھنے میں بالکل بحری جہاز لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی سمندر میں اتر جائیں گے۔
ہم اگر اپنی بات دسویں صدی عیسوی سے شروع کریں تو اس وقت ایک اسلامی گروپ نے جسے Bugis کا نام دیا گیا تھا، بلند جنوبی پہاڑی علاقوں میں اپنی آبادیاں قائم کرنی شروع کیں جس کے نتیجے میں Torajaکے رہنے والوں کے ساتھ طویل خونی لڑائیاں چھڑ گئیں اور طرفین کا زبردست نقصان بھی ہوا۔ اس کے نتیجے میں جو لوگ قیدی بنائے گئے، وہ بعد میں غلام بنالیے گئے۔
پھر ان کے درمیان جنگیں جاری رہیں اور سولھویں صدی عیسوی تک نوبت یہ آگئی تھی کہ Toraja کے لوگوں کی مزاحمت دم توڑ گئی اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا جس کے نتیجے میں انہوں نے جزیرے کے اندرونی پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لی جہاں انہوں نے اپنے رہنے کے لیے محفوظ اور مستحکم مکانات تعمیر کیے اور انہیں دشمن سے بچانے کے لیے ہر طرح کے حفاظتی اقدامات بھی کیے۔
اس کے بعد Bugis نے بڑی مضبوط اور مستحکم سلطنتوں کی بنیادیں ڈالیں جیسے Bone۔ اس نے خطے کی تجارت کو کنٹرول کیا۔ پھر ان کا گوا کی حکومت Makassar کے ساتھ ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ Makassar ایک ایسی ملاوی آبادی تھی جو ایک بالکل الگ اور مختلف زبان بولتی تھی۔ ولندیزیوں نے اس تنازعے کا فائدہ اٹھایا اور انہوں نے گوا کی سلطنت کو شکست دینے کے لیے Bugis کے ساتھ عسکری اتحاد کرلیا۔ مگر بعد میں انہوں نے Bugis کے ساتھ بھی بے وفائی کی اور انہیں زیر کرکے پورے خطے پر حکومت کرنے لگے۔
Toraja کے قدیم طرز کے روایتی گاؤں کو مقامی زبان میں tondok کہتے ہیں۔ ہر tondok یا گاؤں میں مکانات ایک قطار کی صورت میں بڑی سڑک پر مشرق مغرب کے محور پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ تمام گھروں کے سامنے والے حصے میں انہی گھروں کی طرح کے چھوٹے گھر تعمیر کیے جاتے ہیں، جو اصل میں چاول رکھنے کے گودام یا کھلیان ہیں۔ انہیں مقامی زبان میں lambang padi کہا جاتا ہے۔ ان گوداموں کی تعداد مکانات کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں کے رہنے والے ان کی حفاظت اور تزئین و آرائش بالکل اپنے مکانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ ان کا انداز بھی گھروں جیسا ہوتا ہے، بس یہ ان سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
یہ کھلیان زمین سے لگ بھگ دو میٹر بلند ہوتے ہیں۔ انہیں زمین سے بلند رکھنے کے لیے بانس کے چھے مضبوط لٹھوں سے ایک اونچا پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے۔ لیکن مکانوں کے لیے پلیٹ فارم بناتے وقت بانس کے زیادہ لٹھے یا تنے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے پلیٹ فارم کے نیچے والی جگہ کو لکڑی کی ایک دیوار سے بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح مکانوں کے سامنے ایک طرح کے ٹیرس بن جاتے ہیں۔ مکانوں کا رخ شمال کی طرف ہوتا ہے جب کہ کھلیانوں یا گوداموں کا رخ جنوب کی طرف ہوتا ہے۔
Toraja کی زبان میں banua کا مطلب ہے: گھر یا مکان اور tongkonan کا مطلب ہے: روایتی قدیم گھر۔ روایتی قدیم گھر وہ ہوتے ہیں جہاں والدین یا دادا دادی یا اس گھر کے مالک پیدا ہوئے ہوں۔ ان گھروں کا Toraja کے لوگوں کی سماجی زندگی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ روایتی گھر اصل میں ذاتی گھر یا انفرادی گھر نہیں ہوتے، بلکہ ان گھروں کا تعلق خطے کے شریف، مہذب اور اعلیٰ گھرانوں سے ہوتا ہے اور یہ ایک طرح سے خاندانی گھر ہوتے ہیں جو کسی فرد کے بجائے پورے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں۔
Toraja معاشرہ ذات پات کے ایسے ہی نظام میں منقسم ہے جس طرح ہندوؤں کا معاشرہ اونچی نیچی ذاتوں میں بٹا ہوا ہے۔ اعلیٰ ذات کے لوگ مقامی زبان میں Toka Pua کہلاتے ہیں اور یہ مجموعی آبادی کے دس فی صد پر مشتمل ہیں۔ ان کے پاس اچھی خاصی زمینیں ہوتی ہیں اور یہ دولت مند لوگ معاشرے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ صرف اس اعلیٰ ذات کے لوگ ہی مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے مجاز ہوتے ہیں جو سات دن اور سات راتوں تک جاری رہتی ہیں۔ اس دوران کم از کم 24 بھینسیں اور سیکڑوں سؤر کاٹے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ مرغوں اور بھینسوں کی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور متعدد جلوس بھی نکالے جاتے ہیں جن میں رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس طرح کی چیزوں سے اعلیٰ ذات والے بڑی شان کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں بسنے والی دوسری ذاتوں سے برتر ہیں۔
اعلیٰ ذات کی کوئی عورت اپنے سے نیچے والی ذات کے کسی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ کسی زمانے میں اس اصول کو توڑنے کی سزا موت تھی، مگر اب یہ اصول ختم ہوچکا ہے، بلکہ ایک نئی ذات وجود میں آچکی ہے جسے small nobles یا کم درجے کی اعلیٰ ذات کہا جاتا ہے۔ اس خطے کی ایک اور ذات makaka کہلاتی ہے جو آزاد لوگوں پر مشتمل ہے۔
یہ لوگ سپاہی یا جنگجو ہیں اور چھوٹی زمینوں کے مالکان ہیں۔ ان کے علاوہ توراجا میں اور بھی کئی ذاتیں پائی جاتی ہیں جنہیں تانا، بوڈا اور کونن کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ سابقہ غلاموں کی نسل سے ہیں۔ ماضی میں طویل قبائلی جنگوں میں جو قیدی پکڑے جاتے تھے، انہیں بعد میں غلام بنالیا جاتا تھا، مگر ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا جاتا تھا۔ نہ تو ان کا کسی قسم کا استحصال کیا گیا اور نہ ہی انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے مذہبی تقاریب میں انسانی جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی۔ ہاں، ایسی تقاریب کے لیے اگر انسانی قربانی دینی ہوتی تھی تو اس کے لیے آس پاس کے گاؤں دیہات سے غلام منگوالیے جاتے تھے۔
ولندیزیوں نے 1905میں Tana Toraja پر قبضہ کیا تو انسان کو غلام بنانے پر سختی سے پابندی لگادی، اسی طرح کسی بھی مذہبی رسم میں انسانی قربانی بھی ممنوع قرار پائی۔ اس خطے کی ایک قدیم رسم یہ تھی کہ کسی بھی ایسے شخص کی موت کے وقت جسے ناحق کسی نے قتل کیا ہو، مذہبی پیشوا یہ بتاتا تھا کہ اس سے دیوتا انسان کی قربانی مانگ رہے ہیں۔
ایسے میں کوئی نہ کوئی بے قصور پھنس جاتا تھا اور دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس بے چارے کی جان لے لی جاتی تھی۔ لیکن آج یہاں کے لوگوں کی ذہنی بیداری کا یہ حال ہے کہ سابقہ غلام اپنے سابق آقاؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ملازمتیں بھی دلواتے ہیں، تاکہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال سکیں۔ ان کا جب جی چاہے وہ گاؤں چھوڑکر کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پہلے کی طرح ان کی موت کے بعد انہیں سؤروں کے آگے نہیں پھینکا جاتا، بلکہ ایک سادہ سی تقریب میں انہیں زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔
اس علاقے کے صرف اعلیٰ ذات کے لوگ ہی اعلیٰ قسم کے مکان tongkonans تعمیر کرسکتے ہیں اور انہیں عمدگی سے سجا بھی سکتے ہیں۔ ان گھروں میں خاندان کے اجتماعات ہوتے ہیں جہاں شادی بیاہ کی تاریخیں طے ہوتی ہیں۔ انہی گھروں میں خونی رشتوں کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ علاقے کے لوگ اپنے رشتے داروں سے زیادہ ان خصوصی مکانوں tongkonans کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کے جماعت خانے یا کمیونٹی مراکز ہوتے ہیں۔
وہ ان مراکز سے وابستگی میں ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے گھروں میں سبھی لوگ خود کو اپنے ماں باپ اور دادا دادی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، بلکہ وہ یہ تک سمجھتے ہیں کہ وہ سب اس جگہ آنے کے بعد بھائی بہن کی طرح ہوجاتے ہیں۔
انہیں اپنے خاندانی گھروں یعنی ان جماعت خانوں سے بے حد محبت ہوتی ہے، بلکہ وہ کسی حد تک عقیدت کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ بچے دونوں طرف سے یعنی اپنی ننھیال اور ددھیال کی طرف سے ان خاندانی گھروں یا جماعت خانوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور ہر جگہ ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔
اس کمیونٹی مرکز یا tongkonan کی تعمیر نو یا اس کی مرمت اور تزئین و آرائش میں سب لوگ اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، زندہ لوگ تو ان میں حصہ لیتے ہی ہیں، وہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں جو دنیا سے جاچکے ہوں۔ ان کی طرف سے ان کے وارث حصہ ملاتے ہیں۔ tongkonan ایک ایسا جماعت خانہ یا مرکز ہے جس کا پوری بستی میں بہت احترام ہوتا ہے۔ سب اس کی عزت کرتے ہیں۔ جب یہ تعمیر ہوتا ہے تو اس کی بلندی بستی کے دیگر مکانوں سے زیادہ ہوتی ہے، تاکہ اس کا تقدس برقرار رہے۔
tongkonan کے بیرونی ستون کو جو اس کی چھت کو سہارا دیتا ہے، بڑے احترام سے سجایا جاتا ہے۔ اس موقع پر لکڑی سے تیار کردہ بھینس کا سر مین گیٹ پر لگایا جاتا ہے جس میں قدرتی سینگ بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ ایک Kabango یعنی ایک سووینئر کی طرح ہے جسے کسی مردے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہی لگایا جاتا ہے۔
اس کے نیچے کم از کم 24 بھینسوں کے سینگ لگائے جاتے ہیں جو نیچے زمین تک پہنچتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مردے کی آخری رسوم کی ادائیگی کے موقع پر اتنے جانور قربان کیے گئے۔ لیکن سینگوں کی یہ تعداد ہر tongkonan یا جماعت خانے میں الگ ہوتی ہے۔
طلاق کی صورت میں مرد کو tongkonan یعنی کمیونٹی سینٹر میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، بلکہ اسے یہ مرکز چھوڑ کر کھلیان (lembang padi) میں جانا ہوتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو اپنے اس کھلیان کو کسی دوسری جگہ بھی منتقل کرسکتا ہے، لیکن tongkonan یعنی کمیونٹی مرکز کو ایک بار تعمیر ہونے کے بعد اسے اس کی جگہ سے کوئی نہیں ہٹاسکتا۔ یہ اس علاقائی جماعت خانے کا احترام ہوتا ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقع پر بچے کا باپ اس کی آنول نال (پلاسینٹا) کو نرسل کے سرکنڈوں سے تیار کردہ ایک چھوٹی سی ٹوکری میں رکھتا ہے اور اسے گھر کے مشرقی حصے میں دفن کردیتا ہے۔
Toraja کی روایات میں انسان کی زندگی کو cardinal point یا نقطۂ اصلی سے بھی جوڑا جاتا ہے اور حمایتی روحوں سے بھی۔ گویا اس کی زندگی میں مذکورہ بالا دونوں چیزوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ یہاں کے ان جماعت خانوں tongkonans کے مقابلے میں اپنے تناسب کی وجہ سے کھلیان زیادہ متوازن اور شان دار ہوتے ہیں۔ ان کی چھتوں کو سہارا دینے والے بڑے ستون کی ضرورت نہیں ہوتی جیسی کہ گھروں میں ہوتی ہے۔ ان کھلیانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں بانس کے تنوں کی پہلی یا بالائی چھال سے بنایا جاتا ہے۔ انہیں چھیل کر بڑی عمدگی کے ساتھ سیٹ کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اس پر چاول کے چھلکے کی موٹی تہ لگائی جاتی ہے اور بیرونی حصے کو کیلے کے پتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ استوائی طوفانی بارشوں میں بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ دوسرے اس کی وجہ سے اندر کا حصہ گرم نہیں ہوتا، بلکہ ٹھنڈا اور فرحت بخش رہتا ہے۔ کھلیان صرف چاول کو رکھنے کی ہی خدمات انجام نہیں دیتا، بلکہ یہ مہمانوں کے کمرے کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ تمام گھروں اور کھلیانوں کو چار خوش نما رنگوں سے آراستہ کیا جاتا ہے:
زرد: یہ رنگ دیوتاؤں کا رنگ کہلاتا ہے۔
سرخ: یہ خون کا رنگ ہے۔
سفید: یہ مرنے والوں کی ہڈیوں کا رنگ ہے۔
سیاہ: یہ تاریکی کی سلطنت کا نشان ہے۔
اس جماعت خانے کے دروازے پر لگائے گئے بھینس کے سر کو بڑی مہارت سے تراشا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں یہاں کے مقامی ہنرمند اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں، کیوں کہ اس کا ان کی زندگیوں میں بہت اہم مقام ہوتا ہے۔ بھینس کے سر کے علاوہ اس کے دونوں طرف گلاب کے پھول جیسے ڈیزائن پر لکڑی سے تراشے ہوئے مرغ بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ مرغ ان کے عقیدے کے مطابق استوائی دنیا اور روحانی دنیا یعنی عالم بالا کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس خطے میں مرغ کی بانگ طلوع آفتاب کا اعلان ہوتی ہے۔ مرغ کو توراجا کی لوک داستانوں اور ستاروں کے جھرمٹ کی کہانیوں میں اہم مقام حاصل ہے۔ ان جماعت خانوں کے دیگر حصوں کو قدرتی بیلوں، جڑی بوٹیوں کی شاخوں اور دائروں سے سجایا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں عام طور سے گھیرے دار دائروں کو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں خصوصی مقام حاصل ہوتا ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے اور گزرے واقعات کے حوالے سے راہ نمائی لیتے ہیں۔
خاندان کے سبھی افراد کے لیے اس گھر کا پورا بیرونی حصہ ایک خاص علامت ہوتا ہے۔ katik یہاں کے جنگلوں کا ایک فرضی یا خیالی پرندہ ہے جو دوسروں کو یہ بتاتا ہے کہ اس گھر کے مالک نے زمینوں اور فصلوں کی زرخیزی بڑھانے کے لیے بہت محنت کی تھی اور متعدد خصوصی رسوم انجام دی تھیں۔
اس گھر میں داخل ہونے کے کچھ طریقے اور آداب ہیں جن کے مطابق گھر میں جانے کے لیے ہر ایک کو سات قدم سیڑھیوں پر چڑھنا ہوتا ہے تب گھر کا فرش آتا ہے، وہاں سے ایک خصوصی دروازے کے ذریعے ایک پندرہ مربع میٹر بلند کمرے میں داخل ہوا جاتا ہے جس میں شٹر لگے ہوتے ہیں۔
یہ اس گھر کا سب سے بڑا اور خاص کمرہ ہوتا ہے۔ اس کے سروں پر دو چھوٹے اور اضافی کمرے بھی ہوتے ہیں۔ مرکزی کمرہ شوہروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے، مگر یہ دن میں پورے خاندان کے ملنے اور بات چیت کرنے کی جگہ ہوتا ہے۔ دوسرے کمرے بچوں اور پوتا پوتیوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔
ان گھروں میں فرنیچر برائے نام ہوتا ہے۔ لوگ sarongs اوڑھ کر براہ راست فرش پر سوتے ہیں۔ sarongs ایک طرح کی پتلی رضائیاں ہوتی ہیں۔ گھر کے پچھلے حصے میں کھانا تیار کیا جاتا ہے، تاکہ آگ اور دھوئیں سے بچاجاسکے۔ یہاں کے لوگ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی میتیں ہفتوں بلکہ بعض حالات میں تو مہینوں رکھتے ہیں، اس کے بعد کہیں جاکر ان کی آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔
مذکورہ منگول قبائل اپنی ہجرت کے وقت پہلے فلپائن میں داخل ہوئے تھے اور وہاں سے وہ پورے بحرالکاہل اور انڈونیشیا تک پھیل گئے۔ لیکن Austronesian یا آسٹرونیشیائی ہجرت سے پہلے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں وہ سیاہ فام آباد تھے جنہیں ایشیائی سیاہ فام نسل کہا جاتا تھا۔ یہ نسل آج بھی نیوگنی اور میلانیشیا میں آباد ہے۔ ممکن ہے کہ Pygmies یا پستہ قد لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں، کیوں کہ اب ان Pygmies کو نیگرو کہہ کر پکارا جاتا ہے اور یہ لوگ فلپائن کے دور دراز اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کثرت سے آباد ہیں۔
اس خطے میں آنے والی پہلی آسٹرونیشیائی لہر کم از کم پانچ ہزار سال پرانی ہے جب اس خطے میں ابتدائی ملاوی داخل ہوئے تھے۔ یہ لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کا قدوقامت اوسط درجے کا تھا اور ان کی جلد اور بال دونوں سیاہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے انڈونیشیا اور فلپائن کو آباد کیا تھا اور بعد میں انہی لوگوں کو یہاں کے مقامی لوگ کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس کے بعد اس خطے میں دوسری آسٹرونیشیائی لہر لگ بھگ دو ہزار سال پہلے آئی تھی۔ اس لہر میں آنے والے لوگ انڈو چائنا سے آئے تھے۔ انہیں Deutero-Malayans یا ''ملاوی ثانی'' کہہ کر پکارا گیا۔ یہ بڑے مہذب اور اعلیٰ اقدار کے حامل لوگ تھے جو زیادہ تر ان جزائر کے ساحلوں اور کناروں پر آباد ہوئے۔
ان مقامات پر رہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ بہت اچھے ماہی گیر بھی تھے اور ماہر ملاح بھی۔ یہ سمندر کے مزاج کو سمجھتے تھے اور اس کے مطابق کام کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اصل ملائیMalayکی ترجمانی کرتے ہیں، یعنی یہ لوگ اصل ملائی ہیں۔ Proto-Malayans یا ابتدائی ملاوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کا شکار بھی کرتے تھے اور کبھی کبھار اپنی مذہبی رسومات میں انسان کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ لیکن یہ لوگ آدم خور نہیں تھے، بلکہ صرف کوئی رسم ادا کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے۔
بورنیو کے جزیرے پر رہنے والے Dayaksاس کی مشہور مثال ہیں۔ دوسری جانب جزائر انڈونیشیا کے جنوبی پہاڑی علاقوں (Sulawesi) میں آباد Toraja اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مردوں کی آخری رسومات نہایت پیچیدہ انداز سے انجام دیتے ہیں اور ان پر بہت خرچ بھی کرتے ہیں۔
یہ لوگ بھی مذکورہ گروپ کا ہی حصہ ہیں۔ لگ بھگ 4,500سال پہلے یہ لوگ ان علاقوں میں اس طرح داخل ہوئے تھے کہ یہ بڑے بڑے بحری جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہوکر آئے تھے۔ ان کے ان جہازوں اور کشتیوں کی یاد آج بھی آپ کو Torajaمیں اس طرح نظر آئے گی کہ اس علاقے کے سبھی مکانوں کی چھتیں بحری جہازوں اور کشتیوں جیسی ہیں۔ یہ مکان دیکھنے میں بالکل بحری جہاز لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی سمندر میں اتر جائیں گے۔
ہم اگر اپنی بات دسویں صدی عیسوی سے شروع کریں تو اس وقت ایک اسلامی گروپ نے جسے Bugis کا نام دیا گیا تھا، بلند جنوبی پہاڑی علاقوں میں اپنی آبادیاں قائم کرنی شروع کیں جس کے نتیجے میں Torajaکے رہنے والوں کے ساتھ طویل خونی لڑائیاں چھڑ گئیں اور طرفین کا زبردست نقصان بھی ہوا۔ اس کے نتیجے میں جو لوگ قیدی بنائے گئے، وہ بعد میں غلام بنالیے گئے۔
پھر ان کے درمیان جنگیں جاری رہیں اور سولھویں صدی عیسوی تک نوبت یہ آگئی تھی کہ Toraja کے لوگوں کی مزاحمت دم توڑ گئی اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا جس کے نتیجے میں انہوں نے جزیرے کے اندرونی پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لی جہاں انہوں نے اپنے رہنے کے لیے محفوظ اور مستحکم مکانات تعمیر کیے اور انہیں دشمن سے بچانے کے لیے ہر طرح کے حفاظتی اقدامات بھی کیے۔
اس کے بعد Bugis نے بڑی مضبوط اور مستحکم سلطنتوں کی بنیادیں ڈالیں جیسے Bone۔ اس نے خطے کی تجارت کو کنٹرول کیا۔ پھر ان کا گوا کی حکومت Makassar کے ساتھ ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ Makassar ایک ایسی ملاوی آبادی تھی جو ایک بالکل الگ اور مختلف زبان بولتی تھی۔ ولندیزیوں نے اس تنازعے کا فائدہ اٹھایا اور انہوں نے گوا کی سلطنت کو شکست دینے کے لیے Bugis کے ساتھ عسکری اتحاد کرلیا۔ مگر بعد میں انہوں نے Bugis کے ساتھ بھی بے وفائی کی اور انہیں زیر کرکے پورے خطے پر حکومت کرنے لگے۔
Toraja کے قدیم طرز کے روایتی گاؤں کو مقامی زبان میں tondok کہتے ہیں۔ ہر tondok یا گاؤں میں مکانات ایک قطار کی صورت میں بڑی سڑک پر مشرق مغرب کے محور پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ تمام گھروں کے سامنے والے حصے میں انہی گھروں کی طرح کے چھوٹے گھر تعمیر کیے جاتے ہیں، جو اصل میں چاول رکھنے کے گودام یا کھلیان ہیں۔ انہیں مقامی زبان میں lambang padi کہا جاتا ہے۔ ان گوداموں کی تعداد مکانات کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں کے رہنے والے ان کی حفاظت اور تزئین و آرائش بالکل اپنے مکانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ ان کا انداز بھی گھروں جیسا ہوتا ہے، بس یہ ان سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
یہ کھلیان زمین سے لگ بھگ دو میٹر بلند ہوتے ہیں۔ انہیں زمین سے بلند رکھنے کے لیے بانس کے چھے مضبوط لٹھوں سے ایک اونچا پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے۔ لیکن مکانوں کے لیے پلیٹ فارم بناتے وقت بانس کے زیادہ لٹھے یا تنے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے پلیٹ فارم کے نیچے والی جگہ کو لکڑی کی ایک دیوار سے بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح مکانوں کے سامنے ایک طرح کے ٹیرس بن جاتے ہیں۔ مکانوں کا رخ شمال کی طرف ہوتا ہے جب کہ کھلیانوں یا گوداموں کا رخ جنوب کی طرف ہوتا ہے۔
Toraja کی زبان میں banua کا مطلب ہے: گھر یا مکان اور tongkonan کا مطلب ہے: روایتی قدیم گھر۔ روایتی قدیم گھر وہ ہوتے ہیں جہاں والدین یا دادا دادی یا اس گھر کے مالک پیدا ہوئے ہوں۔ ان گھروں کا Toraja کے لوگوں کی سماجی زندگی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ روایتی گھر اصل میں ذاتی گھر یا انفرادی گھر نہیں ہوتے، بلکہ ان گھروں کا تعلق خطے کے شریف، مہذب اور اعلیٰ گھرانوں سے ہوتا ہے اور یہ ایک طرح سے خاندانی گھر ہوتے ہیں جو کسی فرد کے بجائے پورے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں۔
Toraja معاشرہ ذات پات کے ایسے ہی نظام میں منقسم ہے جس طرح ہندوؤں کا معاشرہ اونچی نیچی ذاتوں میں بٹا ہوا ہے۔ اعلیٰ ذات کے لوگ مقامی زبان میں Toka Pua کہلاتے ہیں اور یہ مجموعی آبادی کے دس فی صد پر مشتمل ہیں۔ ان کے پاس اچھی خاصی زمینیں ہوتی ہیں اور یہ دولت مند لوگ معاشرے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ صرف اس اعلیٰ ذات کے لوگ ہی مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے مجاز ہوتے ہیں جو سات دن اور سات راتوں تک جاری رہتی ہیں۔ اس دوران کم از کم 24 بھینسیں اور سیکڑوں سؤر کاٹے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ مرغوں اور بھینسوں کی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور متعدد جلوس بھی نکالے جاتے ہیں جن میں رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس طرح کی چیزوں سے اعلیٰ ذات والے بڑی شان کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں بسنے والی دوسری ذاتوں سے برتر ہیں۔
اعلیٰ ذات کی کوئی عورت اپنے سے نیچے والی ذات کے کسی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ کسی زمانے میں اس اصول کو توڑنے کی سزا موت تھی، مگر اب یہ اصول ختم ہوچکا ہے، بلکہ ایک نئی ذات وجود میں آچکی ہے جسے small nobles یا کم درجے کی اعلیٰ ذات کہا جاتا ہے۔ اس خطے کی ایک اور ذات makaka کہلاتی ہے جو آزاد لوگوں پر مشتمل ہے۔
یہ لوگ سپاہی یا جنگجو ہیں اور چھوٹی زمینوں کے مالکان ہیں۔ ان کے علاوہ توراجا میں اور بھی کئی ذاتیں پائی جاتی ہیں جنہیں تانا، بوڈا اور کونن کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ سابقہ غلاموں کی نسل سے ہیں۔ ماضی میں طویل قبائلی جنگوں میں جو قیدی پکڑے جاتے تھے، انہیں بعد میں غلام بنالیا جاتا تھا، مگر ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا جاتا تھا۔ نہ تو ان کا کسی قسم کا استحصال کیا گیا اور نہ ہی انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے مذہبی تقاریب میں انسانی جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی۔ ہاں، ایسی تقاریب کے لیے اگر انسانی قربانی دینی ہوتی تھی تو اس کے لیے آس پاس کے گاؤں دیہات سے غلام منگوالیے جاتے تھے۔
ولندیزیوں نے 1905میں Tana Toraja پر قبضہ کیا تو انسان کو غلام بنانے پر سختی سے پابندی لگادی، اسی طرح کسی بھی مذہبی رسم میں انسانی قربانی بھی ممنوع قرار پائی۔ اس خطے کی ایک قدیم رسم یہ تھی کہ کسی بھی ایسے شخص کی موت کے وقت جسے ناحق کسی نے قتل کیا ہو، مذہبی پیشوا یہ بتاتا تھا کہ اس سے دیوتا انسان کی قربانی مانگ رہے ہیں۔
ایسے میں کوئی نہ کوئی بے قصور پھنس جاتا تھا اور دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس بے چارے کی جان لے لی جاتی تھی۔ لیکن آج یہاں کے لوگوں کی ذہنی بیداری کا یہ حال ہے کہ سابقہ غلام اپنے سابق آقاؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ملازمتیں بھی دلواتے ہیں، تاکہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال سکیں۔ ان کا جب جی چاہے وہ گاؤں چھوڑکر کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پہلے کی طرح ان کی موت کے بعد انہیں سؤروں کے آگے نہیں پھینکا جاتا، بلکہ ایک سادہ سی تقریب میں انہیں زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔
اس علاقے کے صرف اعلیٰ ذات کے لوگ ہی اعلیٰ قسم کے مکان tongkonans تعمیر کرسکتے ہیں اور انہیں عمدگی سے سجا بھی سکتے ہیں۔ ان گھروں میں خاندان کے اجتماعات ہوتے ہیں جہاں شادی بیاہ کی تاریخیں طے ہوتی ہیں۔ انہی گھروں میں خونی رشتوں کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ علاقے کے لوگ اپنے رشتے داروں سے زیادہ ان خصوصی مکانوں tongkonans کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کے جماعت خانے یا کمیونٹی مراکز ہوتے ہیں۔
وہ ان مراکز سے وابستگی میں ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے گھروں میں سبھی لوگ خود کو اپنے ماں باپ اور دادا دادی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، بلکہ وہ یہ تک سمجھتے ہیں کہ وہ سب اس جگہ آنے کے بعد بھائی بہن کی طرح ہوجاتے ہیں۔
انہیں اپنے خاندانی گھروں یعنی ان جماعت خانوں سے بے حد محبت ہوتی ہے، بلکہ وہ کسی حد تک عقیدت کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ بچے دونوں طرف سے یعنی اپنی ننھیال اور ددھیال کی طرف سے ان خاندانی گھروں یا جماعت خانوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور ہر جگہ ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔
اس کمیونٹی مرکز یا tongkonan کی تعمیر نو یا اس کی مرمت اور تزئین و آرائش میں سب لوگ اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، زندہ لوگ تو ان میں حصہ لیتے ہی ہیں، وہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں جو دنیا سے جاچکے ہوں۔ ان کی طرف سے ان کے وارث حصہ ملاتے ہیں۔ tongkonan ایک ایسا جماعت خانہ یا مرکز ہے جس کا پوری بستی میں بہت احترام ہوتا ہے۔ سب اس کی عزت کرتے ہیں۔ جب یہ تعمیر ہوتا ہے تو اس کی بلندی بستی کے دیگر مکانوں سے زیادہ ہوتی ہے، تاکہ اس کا تقدس برقرار رہے۔
tongkonan کے بیرونی ستون کو جو اس کی چھت کو سہارا دیتا ہے، بڑے احترام سے سجایا جاتا ہے۔ اس موقع پر لکڑی سے تیار کردہ بھینس کا سر مین گیٹ پر لگایا جاتا ہے جس میں قدرتی سینگ بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ ایک Kabango یعنی ایک سووینئر کی طرح ہے جسے کسی مردے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہی لگایا جاتا ہے۔
اس کے نیچے کم از کم 24 بھینسوں کے سینگ لگائے جاتے ہیں جو نیچے زمین تک پہنچتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مردے کی آخری رسوم کی ادائیگی کے موقع پر اتنے جانور قربان کیے گئے۔ لیکن سینگوں کی یہ تعداد ہر tongkonan یا جماعت خانے میں الگ ہوتی ہے۔
طلاق کی صورت میں مرد کو tongkonan یعنی کمیونٹی سینٹر میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، بلکہ اسے یہ مرکز چھوڑ کر کھلیان (lembang padi) میں جانا ہوتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو اپنے اس کھلیان کو کسی دوسری جگہ بھی منتقل کرسکتا ہے، لیکن tongkonan یعنی کمیونٹی مرکز کو ایک بار تعمیر ہونے کے بعد اسے اس کی جگہ سے کوئی نہیں ہٹاسکتا۔ یہ اس علاقائی جماعت خانے کا احترام ہوتا ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقع پر بچے کا باپ اس کی آنول نال (پلاسینٹا) کو نرسل کے سرکنڈوں سے تیار کردہ ایک چھوٹی سی ٹوکری میں رکھتا ہے اور اسے گھر کے مشرقی حصے میں دفن کردیتا ہے۔
Toraja کی روایات میں انسان کی زندگی کو cardinal point یا نقطۂ اصلی سے بھی جوڑا جاتا ہے اور حمایتی روحوں سے بھی۔ گویا اس کی زندگی میں مذکورہ بالا دونوں چیزوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ یہاں کے ان جماعت خانوں tongkonans کے مقابلے میں اپنے تناسب کی وجہ سے کھلیان زیادہ متوازن اور شان دار ہوتے ہیں۔ ان کی چھتوں کو سہارا دینے والے بڑے ستون کی ضرورت نہیں ہوتی جیسی کہ گھروں میں ہوتی ہے۔ ان کھلیانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں بانس کے تنوں کی پہلی یا بالائی چھال سے بنایا جاتا ہے۔ انہیں چھیل کر بڑی عمدگی کے ساتھ سیٹ کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اس پر چاول کے چھلکے کی موٹی تہ لگائی جاتی ہے اور بیرونی حصے کو کیلے کے پتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ استوائی طوفانی بارشوں میں بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ دوسرے اس کی وجہ سے اندر کا حصہ گرم نہیں ہوتا، بلکہ ٹھنڈا اور فرحت بخش رہتا ہے۔ کھلیان صرف چاول کو رکھنے کی ہی خدمات انجام نہیں دیتا، بلکہ یہ مہمانوں کے کمرے کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ تمام گھروں اور کھلیانوں کو چار خوش نما رنگوں سے آراستہ کیا جاتا ہے:
زرد: یہ رنگ دیوتاؤں کا رنگ کہلاتا ہے۔
سرخ: یہ خون کا رنگ ہے۔
سفید: یہ مرنے والوں کی ہڈیوں کا رنگ ہے۔
سیاہ: یہ تاریکی کی سلطنت کا نشان ہے۔
اس جماعت خانے کے دروازے پر لگائے گئے بھینس کے سر کو بڑی مہارت سے تراشا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں یہاں کے مقامی ہنرمند اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں، کیوں کہ اس کا ان کی زندگیوں میں بہت اہم مقام ہوتا ہے۔ بھینس کے سر کے علاوہ اس کے دونوں طرف گلاب کے پھول جیسے ڈیزائن پر لکڑی سے تراشے ہوئے مرغ بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ مرغ ان کے عقیدے کے مطابق استوائی دنیا اور روحانی دنیا یعنی عالم بالا کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس خطے میں مرغ کی بانگ طلوع آفتاب کا اعلان ہوتی ہے۔ مرغ کو توراجا کی لوک داستانوں اور ستاروں کے جھرمٹ کی کہانیوں میں اہم مقام حاصل ہے۔ ان جماعت خانوں کے دیگر حصوں کو قدرتی بیلوں، جڑی بوٹیوں کی شاخوں اور دائروں سے سجایا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں عام طور سے گھیرے دار دائروں کو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں خصوصی مقام حاصل ہوتا ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے اور گزرے واقعات کے حوالے سے راہ نمائی لیتے ہیں۔
خاندان کے سبھی افراد کے لیے اس گھر کا پورا بیرونی حصہ ایک خاص علامت ہوتا ہے۔ katik یہاں کے جنگلوں کا ایک فرضی یا خیالی پرندہ ہے جو دوسروں کو یہ بتاتا ہے کہ اس گھر کے مالک نے زمینوں اور فصلوں کی زرخیزی بڑھانے کے لیے بہت محنت کی تھی اور متعدد خصوصی رسوم انجام دی تھیں۔
اس گھر میں داخل ہونے کے کچھ طریقے اور آداب ہیں جن کے مطابق گھر میں جانے کے لیے ہر ایک کو سات قدم سیڑھیوں پر چڑھنا ہوتا ہے تب گھر کا فرش آتا ہے، وہاں سے ایک خصوصی دروازے کے ذریعے ایک پندرہ مربع میٹر بلند کمرے میں داخل ہوا جاتا ہے جس میں شٹر لگے ہوتے ہیں۔
یہ اس گھر کا سب سے بڑا اور خاص کمرہ ہوتا ہے۔ اس کے سروں پر دو چھوٹے اور اضافی کمرے بھی ہوتے ہیں۔ مرکزی کمرہ شوہروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے، مگر یہ دن میں پورے خاندان کے ملنے اور بات چیت کرنے کی جگہ ہوتا ہے۔ دوسرے کمرے بچوں اور پوتا پوتیوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔
ان گھروں میں فرنیچر برائے نام ہوتا ہے۔ لوگ sarongs اوڑھ کر براہ راست فرش پر سوتے ہیں۔ sarongs ایک طرح کی پتلی رضائیاں ہوتی ہیں۔ گھر کے پچھلے حصے میں کھانا تیار کیا جاتا ہے، تاکہ آگ اور دھوئیں سے بچاجاسکے۔ یہاں کے لوگ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی میتیں ہفتوں بلکہ بعض حالات میں تو مہینوں رکھتے ہیں، اس کے بعد کہیں جاکر ان کی آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔