تھمی ہوا سکون کاباعث یاطوفان کا پیش خیمہ
ایک زمانہ تھا، جب ویٹی کن کو بنیاد پرستی کا مرکز اور پوپ کو قدامت پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
KARACHI:
ایک زمانہ تھا، جب ویٹی کن کو بنیاد پرستی کا مرکز اور پوپ کو قدامت پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بہت سے ایسے امور ہیں، جہاں پوپ کا نقطہ نظر جدید تحقیق کی بنیاد پر قائم تصورات سے متصادم ہوتا ہے۔ خاص طور پر کئی اہم صنفی معاملات پر ان کا رویہ سخت گیر قدامت پرستی پر اصرار کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ علم کے فروغ اور سائنسی تحقیق فکری جمود کے جالوں کو صاف کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جس کے جابجا مظاہر ترقی یافتہ دنیا کے مذہبی اکابرین کی وسعت القلبی کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں کے بارے میں موجودہ پوپ فرانسس کا ہمدردانہ بیان ان کی ذہنی وسعت اور فکری بالیدگی کا مظہر ہے۔
انسان کی صدیوں پر محیط ذہنی، فکری اور تحقیقی کاوشوں کے نتیجے میں صنعتی انقلاب بپا ہوا۔ جس نے انسانی سوچ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ ان چار سو برس کے دوران جنم لینے والے نشیب و فراز نے انسان کو سمجھایا کہ نظم حکمرانی اور قوانین و ضوابط جامد نہیں ہوتے، بلکہ انسانی معاشروں کی ضروریات کے مطابق ان میں ترامیم و اضافے ہوتے رہنے چاہییں۔ کارل مارکس کا کہنا تھا کہ Mode of production determines the social, political and intellectual life processes in a Society۔ یعنی ذرایع پیداوار کسی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظم حکمرانی بھی ذرایع پیداوار میں ہونے والی تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے۔ جب معیشت زرعی ہوا کرتی تھی، تو جاگیرداری اور شہنشاہیت جیسی طرز حکمرانی وقت کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ مگر جب پیداوار نظام تبدیل ہوا اور زرعی معیشت کی جگہ صنعتی معیشت نے لی، تو نظم حکمرانی میں تبدیلی کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی۔ اس طرح جمہوریت متعارف ہوئی۔
ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ جب معیشت قومی ہوا کرتی تھی، تو قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ساتھ ہی قومی تشخص جیسے جذبات بھی ابھر کر سامنے آئے۔ یوں قوم پرستی نے عقیدے کی بنیاد پر شناخت کی جگہ لے لی۔ آج معیشت عالمگیر ہو چکی ہے، اس لیے قوم پرستی کا تصور بھی فرسودہ ہو گیا ہے۔ آج دنیا میں قوم پرستی کی جگہ فکری کثرتیت اور انسانی حقوق کا احترام جیسے افکار قبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ رنگ، نسل، عقیدے اور صنفی بنیادوں پر امتیازات دم توڑ رہے ہیں۔ عورت کو مختلف سماجی زنجیروں میں پابند کرنے کا رویہ اور رجحان ختم ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کی پیدائش اور ان کی تعداد کا تعین مرد کے بجائے عورت کے حق کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور جنیاتی سائنس (Genetical Science) کی ہوشربا تحقیق نے ان فرسودہ عقائد و نظریات کو زمیں بوس کر دیا ہے، جو توہم پرستی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اس نئی صورتحال سے وہ حلقے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جن کا دال دلیہ عام انسانوں کی کم علمی، تو ہم پرستی اور کج عقیدگی سے جڑا ہوا ہے۔ انھیں خطرہ ہے کہ انسانی شعور میں اضافہ ان کی روحانی بالادستی کو ختم کر کے انھیں مالی مشکلات میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان ممالک کی حکمران اشرافیہ بھی عالمی سطح پر جنم لینے والے جدید تغیرات سے خوفزدہ ہے، جہاں آج تک پشتینی بادشاہتیں، امارتیں اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں بعض تارک الوطن کمیونٹیز میں عقیدہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی سامنے آ رہا ہے، جو ایک الگ بحث کا متقاضی ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر جاری معاشی برتری کے لیے کشمکش میں تیزی آ رہی ہے۔ نئے تجارتی معاہدے اور اتحاد قائم ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشی مرکز یورپ سے ایشیاء میں منتقل ہو رہا ہے۔ جس کے Beneficiaries بظاہر چین اور بھارت ہیں یا پھر آگے چل کر رشین فیڈریشن اور کوریا وغیرہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکمران اس کشمکش سے بے نیاز اپنے زمیں بوس ہوتے نظاموں کو بچانے کی کوشش میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ خلیجی ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی فکری دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔
کسی معاشرے میں مسابقت کی جستجو اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب وہاں تحقیق و تخلیق کا عمل جاری ہو۔ ریاستی مقتدرہ محققین اور اہل دانش کی سرپرستی کر رہی ہو۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے میں جمودی قوتیں موجود ہوتی ہیں، جو تحقیق و تخلیق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ترقی کی خاطر ان قوتوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہوتا ہے۔ یورپ میں ایک زمانے میں یہ قوتیں خاصی مضبوط و مستحکم تھیں۔ اسی لیے اس دور کو اہل یورپ دور تاریکی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ شاید گیلیلیو وہ آخری سائنسدان تھا، جو کلیسا کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوا۔ اس کے بعد وہاں تیز رفتار تبدیلیوں کا دور شروع ہوا اور سائنسدان و محققین نے توقیر پائی۔ یورپ کو ترقی اسی وقت نصیب ہوئی جب اس نے جمودی قوتوںکو دھکیل کر کلیسا تک محدود کر دیا۔
اس کے برعکس مسلم معاشرے 1258ء (تاتاریوں کے بغداد پر حملے) سے فکری جمہود کا شکار ہیں۔ یہ معاشرے گزشتہ 8 سو برسوں کے دوران تحقیق اور تخلیق سے دور ہونے کے باعث خود کوئی ایجاد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ معاشرے یورپ سے آنے والی ایجادات کے صارف ہیں۔ اس لیے انھیں اس کرب اور اذیت کا اندازہ نہیں ہے جس سے کوئی محقق اور تخلیق کار گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم معاشروں میں چونکہ ذرایع پیداوار تبدیل نہیں ہو رہے، اس لیے ان ممالک میں نہ نظم حکمرانی تبدیل ہو رہا ہے اور نہ مروجہ قوانین میں ترامیم و اضافے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ بلکہ بعض جمودی قوتیں ان معاشروں مزید پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جس کا ثبوت قبائلیت پر مبنی کلچر کے لیے بڑھتا ہوا اصرار ہے۔
جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے چھ بنیادی اصول بیان کیے جاتے ہیں: 1۔ تمام فیصلے شراکتی بنیاد پر ہوں۔ 2۔ تمام فیصلے اور اقدامات منصفانہ ہوں۔ 3۔ فیصلوں میں شفافیت ہو۔4۔ جوابدہی کا واضح میکنزم ہو۔5۔ حکومت مؤثر کارکردگی کی حامل اور اپنے ہر اقدام کی ذمے دار ہو۔6۔ ہر قسم کے امتیازات اور تعصبات سے پاک ہو۔ درج بالا خصوصیات کی توقع ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت ہی سے کی جا سکتی ہے، جو عوامی جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی استحکام کی خاطر فکری کثرتیت اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا کر معاشی و سماجی ترقی کے اہداف حاصل کر نے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ یہی رویہ اور طرز عمل ملک و معاشرے کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
اب اگر کرہ ارض پر موجودہ56 مسلم ممالک کا طائرانہ جائزہ لیں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ مسلم دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو ان چھ خصوصیات پر پورا اترتا ہو۔ چند ممالک میں عوام کو بعض سہولیات ضرور فراہم کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں اچھی حکمرانی کا تاثٔر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں پشتینی بادشاہتیں، امارتیں اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔ جن چند ممالک میں حکومتیں مقبول ووٹ کی بنیاد پر قائم ہیں۔ وہاں اول تو یہ حکومتیں مکمل آزاد نہیں ہیں، بلکہ بعض نادیدہ قوتوں کے مسلسل دباؤ میں رہتی ہیں۔ دوئم ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں، جو انسانی حقوق کو محدود کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے معاشرے میں مختلف نوعیت کے امتیازات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ تقریباً سبھی مسلم ممالک میں مقتدر اشرافیہ اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہبیت (Religiosity) کا سہارا لیتی ہے۔ جو متشدد فرقہ واریت کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔
اس حوالے سے اگر پاکستان کی مثال لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے امتیازات کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ ریاستی مقتدرہ خود مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ جب پانی سر سے بلند ہوا، تو اندرونی اور بیرونی دباؤ پر شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ مگر جلد ہی توپوں کا رخ لبرل اور سکیولر سیاسی قوتوں کی جانب موڑ دیا گیا۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ وارایت کے مکمل خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ لبرل اربن قوتوں کو جس انداز میں کمزور کیا جا رہا ہے، اس سے اس سوچ کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ غالباً شدت پسند عناصر کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ روش اور رویہ کسی طور بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے نفرتوں اور انتشار کو مزید پھیلانے کا باعث بنے گا۔ یاد رہے کہ تھمی ہوئی ہوا کسی سکون کی نوید نہیں ہوتی، بلکہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا، جب ویٹی کن کو بنیاد پرستی کا مرکز اور پوپ کو قدامت پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بہت سے ایسے امور ہیں، جہاں پوپ کا نقطہ نظر جدید تحقیق کی بنیاد پر قائم تصورات سے متصادم ہوتا ہے۔ خاص طور پر کئی اہم صنفی معاملات پر ان کا رویہ سخت گیر قدامت پرستی پر اصرار کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ علم کے فروغ اور سائنسی تحقیق فکری جمود کے جالوں کو صاف کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جس کے جابجا مظاہر ترقی یافتہ دنیا کے مذہبی اکابرین کی وسعت القلبی کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں کے بارے میں موجودہ پوپ فرانسس کا ہمدردانہ بیان ان کی ذہنی وسعت اور فکری بالیدگی کا مظہر ہے۔
انسان کی صدیوں پر محیط ذہنی، فکری اور تحقیقی کاوشوں کے نتیجے میں صنعتی انقلاب بپا ہوا۔ جس نے انسانی سوچ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ ان چار سو برس کے دوران جنم لینے والے نشیب و فراز نے انسان کو سمجھایا کہ نظم حکمرانی اور قوانین و ضوابط جامد نہیں ہوتے، بلکہ انسانی معاشروں کی ضروریات کے مطابق ان میں ترامیم و اضافے ہوتے رہنے چاہییں۔ کارل مارکس کا کہنا تھا کہ Mode of production determines the social, political and intellectual life processes in a Society۔ یعنی ذرایع پیداوار کسی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظم حکمرانی بھی ذرایع پیداوار میں ہونے والی تبدیلی سے مشروط ہوتی ہے۔ جب معیشت زرعی ہوا کرتی تھی، تو جاگیرداری اور شہنشاہیت جیسی طرز حکمرانی وقت کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ مگر جب پیداوار نظام تبدیل ہوا اور زرعی معیشت کی جگہ صنعتی معیشت نے لی، تو نظم حکمرانی میں تبدیلی کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی۔ اس طرح جمہوریت متعارف ہوئی۔
ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ جب معیشت قومی ہوا کرتی تھی، تو قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ساتھ ہی قومی تشخص جیسے جذبات بھی ابھر کر سامنے آئے۔ یوں قوم پرستی نے عقیدے کی بنیاد پر شناخت کی جگہ لے لی۔ آج معیشت عالمگیر ہو چکی ہے، اس لیے قوم پرستی کا تصور بھی فرسودہ ہو گیا ہے۔ آج دنیا میں قوم پرستی کی جگہ فکری کثرتیت اور انسانی حقوق کا احترام جیسے افکار قبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ رنگ، نسل، عقیدے اور صنفی بنیادوں پر امتیازات دم توڑ رہے ہیں۔ عورت کو مختلف سماجی زنجیروں میں پابند کرنے کا رویہ اور رجحان ختم ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کی پیدائش اور ان کی تعداد کا تعین مرد کے بجائے عورت کے حق کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور جنیاتی سائنس (Genetical Science) کی ہوشربا تحقیق نے ان فرسودہ عقائد و نظریات کو زمیں بوس کر دیا ہے، جو توہم پرستی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اس نئی صورتحال سے وہ حلقے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جن کا دال دلیہ عام انسانوں کی کم علمی، تو ہم پرستی اور کج عقیدگی سے جڑا ہوا ہے۔ انھیں خطرہ ہے کہ انسانی شعور میں اضافہ ان کی روحانی بالادستی کو ختم کر کے انھیں مالی مشکلات میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان ممالک کی حکمران اشرافیہ بھی عالمی سطح پر جنم لینے والے جدید تغیرات سے خوفزدہ ہے، جہاں آج تک پشتینی بادشاہتیں، امارتیں اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں بعض تارک الوطن کمیونٹیز میں عقیدہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی سامنے آ رہا ہے، جو ایک الگ بحث کا متقاضی ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر جاری معاشی برتری کے لیے کشمکش میں تیزی آ رہی ہے۔ نئے تجارتی معاہدے اور اتحاد قائم ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشی مرکز یورپ سے ایشیاء میں منتقل ہو رہا ہے۔ جس کے Beneficiaries بظاہر چین اور بھارت ہیں یا پھر آگے چل کر رشین فیڈریشن اور کوریا وغیرہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکمران اس کشمکش سے بے نیاز اپنے زمیں بوس ہوتے نظاموں کو بچانے کی کوشش میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ خلیجی ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی فکری دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔
کسی معاشرے میں مسابقت کی جستجو اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب وہاں تحقیق و تخلیق کا عمل جاری ہو۔ ریاستی مقتدرہ محققین اور اہل دانش کی سرپرستی کر رہی ہو۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے میں جمودی قوتیں موجود ہوتی ہیں، جو تحقیق و تخلیق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ترقی کی خاطر ان قوتوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہوتا ہے۔ یورپ میں ایک زمانے میں یہ قوتیں خاصی مضبوط و مستحکم تھیں۔ اسی لیے اس دور کو اہل یورپ دور تاریکی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ شاید گیلیلیو وہ آخری سائنسدان تھا، جو کلیسا کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوا۔ اس کے بعد وہاں تیز رفتار تبدیلیوں کا دور شروع ہوا اور سائنسدان و محققین نے توقیر پائی۔ یورپ کو ترقی اسی وقت نصیب ہوئی جب اس نے جمودی قوتوںکو دھکیل کر کلیسا تک محدود کر دیا۔
اس کے برعکس مسلم معاشرے 1258ء (تاتاریوں کے بغداد پر حملے) سے فکری جمہود کا شکار ہیں۔ یہ معاشرے گزشتہ 8 سو برسوں کے دوران تحقیق اور تخلیق سے دور ہونے کے باعث خود کوئی ایجاد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ معاشرے یورپ سے آنے والی ایجادات کے صارف ہیں۔ اس لیے انھیں اس کرب اور اذیت کا اندازہ نہیں ہے جس سے کوئی محقق اور تخلیق کار گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم معاشروں میں چونکہ ذرایع پیداوار تبدیل نہیں ہو رہے، اس لیے ان ممالک میں نہ نظم حکمرانی تبدیل ہو رہا ہے اور نہ مروجہ قوانین میں ترامیم و اضافے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ بلکہ بعض جمودی قوتیں ان معاشروں مزید پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جس کا ثبوت قبائلیت پر مبنی کلچر کے لیے بڑھتا ہوا اصرار ہے۔
جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے چھ بنیادی اصول بیان کیے جاتے ہیں: 1۔ تمام فیصلے شراکتی بنیاد پر ہوں۔ 2۔ تمام فیصلے اور اقدامات منصفانہ ہوں۔ 3۔ فیصلوں میں شفافیت ہو۔4۔ جوابدہی کا واضح میکنزم ہو۔5۔ حکومت مؤثر کارکردگی کی حامل اور اپنے ہر اقدام کی ذمے دار ہو۔6۔ ہر قسم کے امتیازات اور تعصبات سے پاک ہو۔ درج بالا خصوصیات کی توقع ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت ہی سے کی جا سکتی ہے، جو عوامی جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی استحکام کی خاطر فکری کثرتیت اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا کر معاشی و سماجی ترقی کے اہداف حاصل کر نے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ یہی رویہ اور طرز عمل ملک و معاشرے کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
اب اگر کرہ ارض پر موجودہ56 مسلم ممالک کا طائرانہ جائزہ لیں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ مسلم دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو ان چھ خصوصیات پر پورا اترتا ہو۔ چند ممالک میں عوام کو بعض سہولیات ضرور فراہم کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں اچھی حکمرانی کا تاثٔر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں پشتینی بادشاہتیں، امارتیں اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔ جن چند ممالک میں حکومتیں مقبول ووٹ کی بنیاد پر قائم ہیں۔ وہاں اول تو یہ حکومتیں مکمل آزاد نہیں ہیں، بلکہ بعض نادیدہ قوتوں کے مسلسل دباؤ میں رہتی ہیں۔ دوئم ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں، جو انسانی حقوق کو محدود کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے معاشرے میں مختلف نوعیت کے امتیازات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ تقریباً سبھی مسلم ممالک میں مقتدر اشرافیہ اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہبیت (Religiosity) کا سہارا لیتی ہے۔ جو متشدد فرقہ واریت کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔
اس حوالے سے اگر پاکستان کی مثال لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے امتیازات کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ ریاستی مقتدرہ خود مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ جب پانی سر سے بلند ہوا، تو اندرونی اور بیرونی دباؤ پر شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ مگر جلد ہی توپوں کا رخ لبرل اور سکیولر سیاسی قوتوں کی جانب موڑ دیا گیا۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ وارایت کے مکمل خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ لبرل اربن قوتوں کو جس انداز میں کمزور کیا جا رہا ہے، اس سے اس سوچ کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ غالباً شدت پسند عناصر کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ روش اور رویہ کسی طور بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے نفرتوں اور انتشار کو مزید پھیلانے کا باعث بنے گا۔ یاد رہے کہ تھمی ہوئی ہوا کسی سکون کی نوید نہیں ہوتی، بلکہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔