میری یادیں
جب لوگ حسن ِکلام پہ نازکریں تو تم حسن ِسکوت پر فخرکرو۔‘
LUXEMBOURG:
لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ '' جب لوگ حسن ِکلام پہ نازکریں تو تم حسن ِسکوت پر فخرکرو۔'' یہ غالباً ان اچھے دنوں کا قصہ ہوگا جب ٹی وی چینلز کا کہیں وجود نہ تھا اور حسن کلام کو کسی بزرگ عالم اور اسکالرکی خاموشی پر طعنہ زنی کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔گزشتہ دنوں جواں سال زاویہ شناس فوٹوگرافر عاف سومرو نے سینئر صحافی لطیف بلوچ کی یادوں پر مبنی دلفریب اور درد انگیز انگریزی کتاب My Reminiscences عنایت کی تو لیاری سمیت سندھ ، بلوچستان اور کراچی سے متعلق یادوں کا سونامی امنڈ آیا۔سینئر صحافی خالد رحمان نے اپنے پیش لفظ میں یادوں کے اس تلاطم خیزدریا کوکوزے میں بند کیا ہے۔
نرم گو لطیف بلوچ لیاری میں تعلیم کی شمع جلانے میں مصروف ہیں۔ ان کا پورا گھرانا اس مہم میں شریک ہے، وہ بنیادی طور پر فعال، روشن خیال، انقلابی سوچ اور سماج بدل آدرش رکھنے والے سیاسی کارکن تھے جسے ممتاز بلوچ رہنماؤں کی مسلسل قربت، صحبت زنداں، ذوق مطالعہ، وژن اور انٹرویوز نے مہمیزکیا۔ ایک وقت تھا وہ اور صدیق بلوچ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کے کراچی میں بے تاج ترجمان تھے۔ لطیف نے 6 فروری 1945 میں لیاری کے قصرقندی محلے میں جنم لیا، ایک محنت کش باپ گل محمد کے بیٹے تھے، ان کی والدہ کا نام محترمہ نور بی بی تھا جو لطیف بلوچ کو پیش آنیوالے سیاسی واقعات سے خود کو الگ نہ رکھ سکیں، ان کی بار بار گرفتاریوں اور جیل میں ان سے ملاقاتوں کے عذابوں کے ساتھ زندگی بسر کرتی رہیں مگر ان کی بھی اپنے بیٹے سے ایک سیاسی کمٹمنٹ تھی جو لطیف بلوچ کی سیاسی جدوجہد اور مزاحمتی انداز فکر میں کبھی آڑے نہیں آئی، وہ زمانہ این ایس ایف، بی ایس او اور دیگر طلبا تنظیموں کی سرفروشانہ جدوجہد سے معمور تھا، کراچی اور لیاری انقلاب جنکشن تھے، آمریت کوکبھی کسی دوسرے شہروں اور علاقوں نے اس شدت اور اولیت کے ساتھ چیلنج نہیں کیا جس طرح کراچی کے مکینوں اور لیاری کے محنت کشوں نے اسے اپنے سیاسی خون سے سینچا تھا۔
لطیف بلوچ بی ایس او کے فعال رہنما تھے پھر بلوچ قوم پرستی اور بلوچستان میں وقفے وقفے سے شورشوں، آپریشنوں کے باعث مزاحمت کی رنگ بدلتی تحریکوں کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، ان کے گہرے مشاہدات اب ان کی زیر نظر کتاب میں جابجا ملتے ہیں، کتاب یادوں کی حسیں وفکر انگیزچلمن ہے جس میں سے میر غوث بخش بزنجو، سردار خیر بخش مری، سردارعطااللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی ،گل خان نصیر، شیر محمد عرف جنرل شیروف، ڈاکٹرعبدالمالک ، ڈاکٹر عبدالحئی، باقی بلوچ، منظورگچکی ، ڈاکٹر یٰسین، ڈاکٹر کہورکی نظریاتی کشمکش، بی ایس او میں نظریاتی دراڑ سمیت اس بلوچستان آشوب کی جھلک ملتی ہے جسے ایک بیباک صحافی نے اپنے سیاسی اضطراب و پیشہ ورانہ معروضیت کے اعصاب شکن تجربوں کی آنچ پر رکھ کر پیش کیا ہے۔ میری یادیں ماہی گیروں، مزدوروں،کراچی کے مختلف علاقوں کی غریب اور پسماندہ بستیوں کے مکینوں کے نوحوں سے پر ہے، بہت سادہ اور سلیس انداز تحریر ہے،کتاب میں رپورٹنگ کے کئی ملکی، شہری اور صوبائی حوالے ہیں جب کہ انتظامی نااہلی اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلتوں کی عجیب تفصیلات ہیں،کراچی کو بطور خاص فوکس کیا ہے، ماضی کے بلوچستان کے سلگتے آتش کدے کی چشم کشا باتیں ہیں۔
بین السطور میں بڑی رمزیت اور اشاریت ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بدحالی کا مختصر سا مرثیہ ہے۔ان کا ایک باب ''کیس آف بلوچستان'' پڑھنے کی چیزہے۔ علاوہ ازیں اس میں لیاری، ملیر،گڈاپ، ماری پور، لانڈھی، کورنگی، اورنگی کی گلیوں اور ان سے اٹھنے والے انسانی مسائل اور مصائب کا منظرنامہ ان کی دل گداز رپورٹنگ کا حصہ ہے۔کئی ماسٹر پلانز اور کاغذی منصوبوں کی دھجیاں اڑائی ہیں، کئی بیوروکریٹ چہرے بے نقاب کیے ہیںاور نوکر شاہی کی شہر سے محبت کی آڑ میں بے نام دشمنی ،بے نیازی، سنگدلی اور بے حسی کا وہ نقشہ اپنے قلم سے کھینچا ہے کہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ول دوران نے کہا تھا آیندہ نسل آج کے احمقوں کے ہاتھوں تربیت پا رہی ہے، تعصب و واہمہ ، صوبہ پرستی اور رجعت پسندی کو جہلا کی زرخیزی سے نئی زندگی مل رہی ہے۔ بات امریکا کی تھی مگر آفاقیت اسے ہم تک لے آئی۔ آدمی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ کیا واقعی کراچی اوردیگر مقامات پر ایسا ہی کچھ ہے۔ اسی شدت احساس کے ساتھ وہ بلوچستان کے ناقابل یقین اورسیاسی طلسم کدے کے راز بیان کرتے ہیں بلوچستان کے مقتدر سیاست دانوں اور دانشوروں، سیاسی ساتھی کارکنوں کا ذکرکرتے ہیں۔
لطیف بلوچ شہری مسائل پر اپنا نقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں۔ کئی سمپوزیمز، ورکشاپوں اور اجتماعات کی بہترین رپورٹنگ کی لہو لہو بلوچستان ان کے دکھی دل کا اہم باب ہے جس کے لیے انھوں نے جلسے جلوسوں میں جوانی کے کئی سال نذرکیے۔ لیاری ان کا دوسرا مائی باپ عنوان ہے جسے وہ عزیز رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ امن و قناعت پسند سیاہ فاموں کی اس بستی سے جسے گینگ وار کی ظلمت نے برباد کردیا بے پناہ جذباتی اور روحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ وہ لیاری کے معروف شاعر ن م دانش کی دانش کے معتقد ہیں مگر ن م دانش ان سب کو چھوڑ کر امریکا جا بسے ۔ اس کا برادر حسن مجتبیٰ کو بھی رنج ہے۔وہ بھی لیاری کے ماضی، حال اور مستقبل کو کسی اور درویشانہ نظر سے دیکھتے تھے۔ دانش کی لیاری کے روح فرسا سماجی اتھل پتھل سے دل برداشتہ ہونے کی ایک ہلکی سی جھلک ان کے اس بلوچی شعر میں ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ (ترجمہ) ہمارے سر پر جو یہ آسمان ہے کسی اور کا ہے، اور دل میں سوزش کی جو لہر اٹھتی رہتی ہے وہ بھی کسی اور دی ہوئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ لطیف بلوچ اور ن م دانش نے زمانہ طالب علمی میں لیاری کے کئی خواب دیکھے مگر سب خاک بسر ہوگئے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن صرف خورد بین سے ہی دیکھا جاسکتا ہے لیکن لیاری کے اصل دشمنوں کو دیکھنے کے لیے دل بینا کی صرف دعا ہی مانگی جاسکتی ہے۔ دونوں اسیران ضمیر کے طور پر لیاری نوردی میں مصروف رہے اور شاید اس انداز نظر کے حامی تھے کہ ''انسان کا سب سے بڑا دشمن صرف خورد بین سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔'' لیکن لیاری کے اصل دشمنوں کو دیکھنے کے لیے دونوں کے پاس دل بینا کی دولت تھی۔ وہ کبھی بھی حکمرانی کے مروجہ اور فرسودہ سامراجی ہتھکنڈوں کو رگیدے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ درست ہے کہ لطیف بلوچ نے لیاری سے متعلق اپنی یادیں امریکی دانشورکینتھ بی کلارک جیسے سماجی علوم کے ماہر کے انداز نظر سے رقم نہیں کیں جن کی مشہور زمانہ کتاب ''ڈارک گیٹو ، ڈائلیما آف سوشل پاور '' ہارلم کی تاریک راہوں میں جگنو چمکاتی رہی۔ لطیف بلوچ رہنماؤں ، بی ایس او اور نظریاتی طور پر ترقی پسندانہ خیالات و افکار کے کارواں سے وابستہ رہے، ڈیلی ''ڈان'' کے 33 برس تک اسٹاف رپورٹر رہے، انھوں نے رپورٹنگ بھی داخلی کرب و جذب کے ساتھ کی ، یعنی ''لکھتے رہے جنون کی حکایات خونچکاں۔'' ڈان کے بیشتر مدیران باوقار ان کی تراش خراش میں پیش پیش رہے، احمد علی خان ، سلیم عاصمی اور عباس ناصر سے فیضیاب ہوئے۔ ظفر عباس کا ادب کرتے ہیں، وہ شہر اور خاص طور پر لیاری، اس کے ساحلی علاقوں پر رینگتے ہوئے مجبور انسانوں کے شب وروز سے جڑے رہے۔
لیاری کا عجیب قصہ ہے، اس بستی کو اگرچہ مختار رانا نے کالے ہیروں کی کان کہا مگر اکثر اہل علم کو یہ کہتے سنا گیا کہ اس بستی کے افتادگان خاک کے نصیب میں کراچی ایڈمنسٹریشن نے پسماندگی اور ناخواندگی لکھ دی ہے' وہ عہد ان خیالات کی تکذیب یا قبولیت میں گزرا کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر 2001 سے گینگ وار کے نام پر لیاری مں کالی آندھی آئی ۔کئی گھر اجڑے، ہزاروں نوجوان تاریک راہوں میں مارے گئے۔کس کس کے اشارے پر؟ اس کا احوال شاید وہ اپنی آیندہ کسی تصنیف میں بیان کریں گے۔ فی الوقت کتاب میں ''رابن ہڈ آف لیاری'' کے عنوان سے انھوں نے رحمان ڈکیت، منشیات فروشوں اور کرمنل عناصر کی لاقانونیت کے ابتدائیہ کے طور پر کچھ حقائق بیان کیے، مگر لیاری کی ادھوری کہانی رمضان بلوچ کے ہاتھوں انجام پائی۔
اب اسے خوبصورت موڑ دے کر ختم کرنے کی ذمے داری لطیف بلوچ کی ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی کتاب یا مصنف کی یادیں اعتبار کے قابل نہ ہوں تو مصنف کی داخلیت بھی مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یقین کریں ، ''میری یادیں'' قابل اعتبار پیس آف ریڈنگ ہے۔ جو مصنف پر گزری وہ رپورٹ ہوبہو رقم ہوئی۔ داستان درازی اور حاشیہ آرائی کی گنجائش کہاں؟ بات اب عظیم سیاہ فام ماہر علم الانسان کینتھ کلارک کے اس قول پر ختم کرتے ہیں کہ ''ہم خودکو شکوک و شبہات اور توہمات کے ہاتھوں اسی طرح تباہ و برباد کرتے ہیں جیسے ہلاکت خیز بم ہمارے چھیتڑے اڑا دیتے ہیں۔''