کوئی اگر بری ہے تو بندوق کی زبان
ہم اردو زبان کا نفاذ اس لیے چاہتے ہیں کہ ہمارے ’’اردو والے غریب بچے‘‘ ’’رُل کھُل‘‘ کے ہی رہ جاتے ہیں
ISLAMABAD:
ہم اردو زبان کا نفاذ اس لیے چاہتے ہیں کہ ہمارے ''اردو والے غریب بچے'' ''رُل کھُل'' کے ہی رہ جاتے ہیں اور ''انگریزی والے بچے'' خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ یہ ''امتیاز'' سازشاً رکھا گیا جن کے پاس دولت ہے، زمینیں ہیں، جاگیریں ہیں ان کے بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور رسماً رکھے گئے اردو کے پرچے میں ہمیشہ رعایتی نمبر لے کر پاس کردیے جاتے ہیں اور ان انگریزی بچوں کے والدین کو اردو رعایتی نمبروں پرکوئی شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ وہ فخریہ گفتگو کرتے ہیں کہ ''ہم نے اردو کے لیے ٹیوشن بھی رکھی مگر ہمارے بچوں کو اردو سمجھ میں نہیں آتی'' بلکہ انگریزی والدین یہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے کہ ''اردو کو سلیبس سے نکال دیا جائے۔ ہمارے بچوں کے لیے یہ بیکار مضمون ہے، اس کی کیا ضرورت ہے۔''
''انگریزی والدین'' یہ بات سوا سولہ آنے درست کہتے ہیں، میں خود اس صورتحال کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں، میرے پاس بھی اے، او لیول کا ایک بچہ اردو ٹیوشن لینے کے لیے آیا تھا اور باوجود ہزارکوشش کے اسے اردو کی الف، ب، بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی اسی ''انگریزی بچے'' کی اردو کاپی دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ اس کے اسکول ٹیچر کی اردو بھی انتہائی کمزور تھی۔
بالکل یہی صورتحال ''اردو بچوں'' کی ہے وہ اردو اسکولوں میں پڑھتے ہیں، جہاں استادوں کی انگریزی بھی درست نہیں ہے اور بچے انگریزی ٹیوشن کے بعد بھی فیل ہوجاتے ہیں۔ انگریزی سے پریشان ہوکر اردو بچے اسکول سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر پوری عمر چھوٹے چھوٹے کام کرتے گزار دیتے ہیں۔ ان اردو بچوں کو انگریزی کیسے آئے گی کہ ان کا گھریلو ماحول، خاندان اور دوست یار محلے دار، بازار سب کے سب اردو ہیں۔ اردو بچے گھر سے باہر تک اردو بولتے اردو سنتے، اسکول جاتے ہیں اور ایک آدھ گھنٹہ انگریزی پیریڈ میں کچھ یوں گزارتے ہیں کہ دماغ دکھنے لگتا ہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں مگر انگریزی دماغ میں فٹ ہی نہیں ہوتی۔
ہمارے ملک میں دو طرح کے تعلیمی دھارے بہہ رہے ہیں اعلیٰ انگریزی اسکولز کے دھارے میں جو بچے شامل ہوتے ہیں وہ انگریزی ماحول، بود و باش والے گھر سے نکل کر انگریزی اسکولوں میں جاتے ہیں، انگریزی بولتے ہیں، سنتے ہیں، پڑھتے ہیں اور واپس انگریزی گھروں میں آجاتے ہیں یہ انگریزی اسکول بہت مہنگے ہوتے ہیں، ہزاروں روپے ماہانہ فیس، داخلہ بھی ہزاروں روپوں میں، پھر یہ بھی کہ ایک ایک بچے کو چھوڑنے اور لینے کے لیے ایک ایک کار آتی ہے صبح اور دوپہر ان انگریزی اسکولوں کے باہر اعلیٰ اور انتہائی قیمتی لش پش کاروں کا میلہ سا لگ جاتا ہے، اردو گھرانے اور اردو بچے یہ لش پش مناظر دیکھ کر آہیں بھرتے رہ جاتے ہیں۔
وہ اردو ماسی کی بچی جسے اصولاً اس اسکول میں پڑھنا چاہیے تھا وہ انگریزی بچے کا بھاری بھرکم بستہ اٹھاکر کار تک لاتی ہے۔ انگریزی بچہ کتابوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھاتا، انگریزی بچے کا گھر مکمل جدید ماحول لیے ہوئے، انگریزی رسالے انگریزی فلمیں، انگریزی پانی، ساتھ ساتھ جدید اسلحہ، دہشت ناک گارڈ، ہیبت ناک گاڑیاں اور دوسری طرف ذرا رکیے مجھے ضیا سرحدی یاد آگئے ہیں، ہائے کیا کیا لوگ تھے جو زندگی کی سچائیوں کی طرف بلاتے رہے حقیقی کیا ہے بتاتے رہے مگر دنیا والے نہ سدھرنے تھے نہ سدھرے۔ ضیا سرحدی کہتے ہیں:
اک طرف ہے اونچے محلوں کا غرور اور دولت کا نشہ
دوسری جانب ہزاروں بے قصور اور دکھ افلاس کا
کس کو مصنف جان کر آواز دوں
شام غم پھر آگئی، پھر اداسی چھاگئی
اب دوسری طرف کیا ہے ، کیا بیان کروں، ضیا سرحدی کے کہنے کے سامنے میں کیا کہوں، کیا لکھوں، اونچے محلوں اور دولت کے نشے والے جو کررہے ہیں، کیا وہ یہی کچھ کرتے رہیںگے؟ اور افلاس کے مارے، بے قصور، یونہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے کھپتے رہیںگے؟ یہ شام غم کبھی ختم نہیں ہوگی؟
یہ بیچارے اردو گھر اور اردو بچے جن کے گھروں میں اردو یا اپنی اپنی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں، یہ اسی ماحول سے اٹھ کر اسکول جاتے ہیں اور پھر واپس اسی ''دیسی ماحول'' میں آجاتے ہیں، انھیں انگریزی کیسے آئے گی! 68 سال گزر گئے اور غریبوں کے بچے انگریزی سیکھنے میں ہی ادھ موئے ہوکے رہ گئے۔ یہ ''انگریزی بچے'' اور یہ ''اردو بچے'' دونوں شدید عذاب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ''انگریزی بچے'' اردو کے عذاب میں اور اردو بچے انگریزی کے عذاب میں ان بچوں کو انگریزی اور اردو کے عذابوں سے نکال دو۔ انگریزی بچوں کے نصاب سے اردو نکال دو اور اردو بچوں کے نصاب سے انگریزی کا عذاب نکال دو، اردو بچے دنیا سے پہلے اپنے ملک میں تو ''مقام'' بنالیں۔
سپریم کورٹ پاکستان نے آئین کی دفعہ 251 کے تحت جو تاریخی فیصلہ سنایا ہے ،اس پر عمل درآمد شروع ہوجانا چاہیے، ہمیں معلوم ہے ہم نفاذ اردو والے خوب جانتے ہیں کہ 68 سال کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے اور بانیٔ پاکستان کے فرمان کہ ''اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی'' (خطاب پلٹن میدان ڈھاکہ 1948) پر اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد عمل در آمد پر وقت لگے گا اردو کو سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں، عدالتوں، قانونی کتب،، ڈاکٹری کتب، انجینئرنگ کتب وغیرہ کو اردو میں ڈھالنے میں خاصا وقت لگے گا تو بسم اﷲ وقت لگایئے اور کام شروع کردیں اب سرکاری نوکریوں کے لیے مقابلے کا امتحان (css) بھی اردو زبان میں ہوا کرے گا بے شک اس امتحان میں انگریزی بچے بھی بیٹھیںگے پتہ چل جائے گا کہ قابلیت کا معیار اردو بچوں میں زیادہ ہے یا انگریزی بچوں میں، شعور کہاں زیادہ ہے۔
ہمارے ملک میں صرف سندھی زبان ہے کہ جو ہر لحاظ سے جامع ہے یہ زبان انگریز دور سے پہلے بھی سرکاری زبان رہی ہے لہٰذا اس پیاری زبان کو صوبہ سندھ میں ضرور رائج کیا جائے ہمیں اپنی تمام زبانوں سے پیار ہے بڑے لوگ کہہ گئے ہیں جو اپنی زبان سے پیار نہیں کرتا وہ دوسری زبانوں سے کیا پیار کرے گا! لیجیے جالب یاد آگئے چار مصرعے سن لیجیے یہ اس زمانے میں لکھے گئے جب سندھ میں زبان کے مسئلے پر خوں ریزی، فسادات ہوئے تھے۔
سہمی ہوئی ہے لب پہ، میرے دل کی داستان
زنداں کا ہو رہا ہے، وطن پر مجھے گماں
ہر اک زباں عظیم ہے، اے نقطہ دانِ ملک
کوئی اگر بری ہے تو بندوق کی زباں
سبط حسن کی آواز بھی اس وقت میرے کانوں میں گونج رہی ہے ''افریقہ کے دور افتاد گھنے جنگلوں میں سیاہ فام ماں جس زبان میں اپنے بچوں کو لوری سنا رہی ہے وہ پیار کی زبان ہے'' اب لوری تو ہر زبان میں ہوتی ہے لہٰذا سب زبانیں پیار ہی پیار ہیں۔
کچھ صاحبانِ علم و دانش انگریزی کے حق میں بولتے ہوئے فرماتے ہیں بھئی! اب تو چین، فرانس، جرمنی، جاپان کو بھی ہوش آگیا ہے اور یہ ممالک بھی انگریزی کو اپنے ہاں رائج کررہے ہیں ان صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت طویل بے ہوشی کا عرصہ ان ممالک نے گزارا اور بے ہوشی میں ہی خوب ترقی کی۔ سپر پاور میں شمار ہوئے، چین بھی بڑے بڑے فولادی پل بناکر پہاڑ کاٹ کر دریا بہاکر، خلا میں پہنچ گیا، امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا اور ''ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے۔''
پہلے انگریز نے برصغیرکے لوگوں کو کیسا کیسا ذلیل کیا جو انگریز کے غلام بن گئے وہ بے غیرتی کی چادر اوڑھ کر زندگی گزارنے کے پروردہ کالے انگریز ہمیں ذلیل و رسوا کررہے ہیں۔ بانی پاکستان نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک زبان اتحاد کی ضامن ہوتی ہے، اردو بچوں کو بھی آگے بڑھنے دو، یوں ملک بھی آگے بڑھے گا۔