ایکسپریس نیوز ہی پاکستان میں میڈیا لیڈر ہے معتبر عالمی اداروں کے ڈیٹا نے تصدیق کردی

سوشل میڈیا پر مقبولیت اور ٹی وی ریٹنگ میں براہ راست گہرا تعلق ہے، دنیا کی بہترین ٹی وی ریٹنگ کمپنی نیلسن کی رائے

میڈیا لاجک معاملہ،کچھ لوگ ایکسپریس سے بدلہ لینا چاہتے ہیں، احمد قریشی

KARACHI:
عالمی سطح پر معتبر اور قابل تصدیق ڈیٹا نے پاکستان کی نشریاتی انڈسٹری میں ایکسپریس نیوز کے مارکیٹ لیڈر ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

ٹی وی ریٹنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں بہترین تصور کی جانے والی کمپنی نیلسن نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کا ریٹنگ بڑھنے سے براہ راست تعلق ہے۔ لائیو ٹی وی نشریات کے ٹویٹر اور فیس بک پوسٹس سے تعلق کے تجزیے سے تصدیق ہوتی ہے کہ ٹوئٹر اور ٹی وی ریٹنگ میں گہرا تعلق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ سال کی ریٹنگ اور ایڈورٹائزنگ اخراجات کے بعد ٹوئٹر کسی بھی چینل کی ریٹنگ کے لیے تیسرا اہم ترین شماریاتی تغیر (variable) ہے۔

سوشل میڈیا اور آن لائن ٹریفک میں ایکسپریس نیوز مارکیٹ لیڈر ہے۔ دیگر ٹی وی چینلوں کے مقابلے میں ایکسپریس نیوز کے فالورز کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ بعض کیسز میں فالورز کی تعداد دیگر ٹی وی چینلز کے فالورز کی تعداد سے دو گنا زائد ہے۔ ٹوئٹر پر ایکسپریس نیوز کے فالورز کی تعداد 6 لاکھ 75 ہزار ہے۔جیو نیوز کے فالورز کی تعداد 3 لاکھ 88 ہزار، دنیا کے فالورز کی تعداد 3 لاکھ 33 ہزار، اے آر وائی کے فالورز کی تعداد 2 لاکھ 95 ہزار، سما کے فالورز کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار ہے۔ ٹوئٹر کی طرح فیس بک پر بھی ایکسپریس نیوز کی بہت بڑی فالونگ ہے۔

پاکستان میں ایکسپریس نیوز کے فینز کی تعداد تمام دیگر ٹی وی چینلز سے زائد ہے۔ ایکسپریس نیوز کے فیس بک پر فینز کی تعداد 68 لاکھ ہے اور مزید بڑھ رہی ہے اور یہ تعداد جیو نیوز کے فینز کی تعداد سے 5 گنا زائد ہے۔ اے آر وائی کے فینز کی تعداد 55 لاکھ، سما کے فینز کی تعداد 51 لاکھ اور دنیا کے فینز کی تعداد 43 لاکھ ہے۔ آن لائن ٹریفک میں بھی ایکسپریس نیوز سب سے آگے ہے اور اس کا بھی براہ راست تعلق ٹی وی ریٹنگ سے ہے۔ دنیا میں تجزیاتی معلومات اور عالمی معیارات کی بانی کمپنی الیکسا کے مطابق ایکسپریس نیوز پاکستان کی سب سے مقبول ویب سائٹ ہے۔

ڈیٹا کے مطابق ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹ پاکستان میں 14 ویں نمبر پر ہے جبکہ جیو کی 82 ویں، سماء کی 112 ویں، دنیا کی 45 ویں اور اے آر وائی کی 147 ویں نمبر پر ہے۔ الیکسا کیلیفورنیا میں واقع کمپنی ہے جو ویب ٹریفک ڈیٹا اور ان کا تجزیہ دیتی ہے اور یہ امریکا کی بہت بڑی کمپنی امیزون ڈاٹ کام (amazon.com) کا ذیلی ادارہ ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت ایکسپریس نیوز کو بدنام کرنے کی ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایک بدنام ریٹنگ کمپنی میڈیا لاجک نے انٹرنیشنل آڈیٹر کی رپورٹ پی بی اے کو پیش کی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد زور زبردستی، بلیک میلنگ اور اغوا کے ذریعے حاصل کردہ مواد ہے۔ آڈیٹر رابرٹ روڈ نے رپورٹ پی بی اے کے حوالے کی مگر اس کے نتائج قابل بھروسہ نہیں کیونکہ اس کا انحصار میڈیا لاجک کے مالک سلمان دانش کی جانب سے فراہم کردہ مواد پر ہے اور یہ مواد اپنی ہی کمپنی کی ملازمہ کے اغوا اور اس سے ایکسپریس نیوز کیخلاف زبردستی حلف نامہ لیکر اور اس کے 2 بھائیوں کو اغوا کرکے حاصل کیا گیا۔ اس ریٹنگ کا سمپل سائز بھی بہت چھوٹا ہے اور انتظامی مشق بھی مشکوک ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں میڈیا لاجک کو ناقابل بھروسہ، غیرپیشہ وارانہ اور ناقص انتظامی مشق کی حامل کمپنی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اب میڈیا لاجک بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور بلیک میلنگ میں بھی ملوث ہے۔


اس صورتحال میں میڈیا لاجک کی جانب سے فراہم کردہ مواد بھی مشکوک ہے جبکہ دیگر ذرائع کا مستند ڈیٹا ایکسپریس نیوز کو میڈیا انڈسٹری میں لیڈنگ چینل ثابت کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے قابل بھروسہ ڈیٹا اور ٹی وی ریٹنگ میں تعلق کی بنیاد پر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایکسپریس نیوز بلاشبہ مارکیٹ لیڈر ہے۔

ایکسپریس نیوز کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے مشکوک اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کمپنی میڈیا لاجک نے سی آئی اے پولیس اور دیگر اداروں جیسے جنگ گروپ سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ اب یہ مزید واضح ہوگیا ہے کہ میڈیا لاجک بلیک میلنگ اور اغواء کے ذریعے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر ایکسپریس نیوز کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ ظلم کا نشانہ بننے والے میڈیا لاجک کے ملازمین پہلے ہی اپنی کمپنی کے خلاف عدالت جا چکے ہیں۔ اب انٹرنیشنل آڈیٹر کے ذریعے نئے الزامات بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کی بنیاد مجرمانہ اقدامات کے ذریعے حاصل کردہ مواد ہے۔

تجزیہ کار احمدقریشی نے کہاہے کہ ایکسپریس نیوزجیسے بڑے میڈیاگروپ کیخلاف حملے کاسیاسی پہلو ہے، فرسودہ ریٹنگ سسٹم پر میڈیالاجک کیخلاف مقدمہ ہوناچاہیے۔ انھوں نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام ایٹ کیومیں میزبان وقارملک کے ساتھ جنیوا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے برس جیوکا کروڑوں روپے کانقصان ہواتھا ،اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف جیوکی وطن دشمنی پرمبنی مہم میں ایکسپریس گروپ نے ذمہ دارانہ اورمدبرانہ موقف اختیارکیا تھا، جیو اسکا بدلہ لینے کے چکروں میں ہے۔ ٹی وی صنعت میں اتنا پیسہ ہونے کے باوجود اتنے فرسودہ ریٹنگ سسٹم کی بنیاد پرکسی چینل کونشانہ نہیں بنایاجاسکتا۔ میڈیالاجک صرف900میٹرلگاکراپنے آپ کو سیمپلنگ کی اتھارٹی ظاہرکر رہی ہے۔

ایکسپریس اوردیگرخودمختار لوگوں کوچاہیے کہ عدالت میں مقدمہ کریں کہ میڈیالاجک نمائندہ کمپنی نہیں، اسکی ریٹنگ رپورٹ پر مختلف چینلزکے اشتہارات کے نرخوں کاتعین کیاجاناغلط ہے، اس کاخودمختارآڈٹ ہوناچاہیے، پیمرا نیا معیار قائم کرنے کے بعد پھر تفتیش کرے۔ اتنے بڑے میڈیاگروپ کو دیوالیہ کرکے گرادیں جیسے یہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہو، اس حملے کاسیاسی پہلوبھی ہے۔

اس کے پیچھے کچھ پارٹیاں ہیں جو پچھلے برس متاثرہوئیں تھیں۔ ایک چینل کاکروڑوں کانقصان ہوا تھا، اس سال ایکسپریس کا نقصان کرکے حساب برابرکرناچاہتی ہیں کیونکہ ایکسپریس نے اس چینل کی بجائے حکومت اور ریاست کاساتھ دیاتھا۔ جیو نے اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف مہم چلائی تھی تاہم ایکسپریس نے بڑامدبرانہ اورذمہ دارانہ موقف اختیارکیاتھاکہ قومی سلامتی کے اداروں کواس طرح بدنام نہیں کرسکتے کہ ایسا لگے آپ غیرملکی ایجنڈہ پرکام کررہے ہوں۔ اب کچھ لوگ بدلہ لینے کے چکروں میں ہیں اور سیاست بھی کھیل رہے ہیں۔ وقار ملک نے تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ ریٹنگ کے موجودہ فرسودہ نظام کامتبادل انٹرنیٹ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی 3کروڑسے زائدلوگوں کوہے جوتمام آبادی کا 16.8 فیصدبنتی ہے۔ 15،20بڑی ویب سائٹس کے حوالے سے کوئی غیرجانبدارادارہ ایساسافٹ وئیر بنا سکتاہے جو''لائکس'' شمارکرے، اس سلسلے میں پی ٹی سی ایل اقدام کرسکتا ہے۔ انھوں نے ریٹنگ کے حوالے سے سیمپلنگ تکنیک کے متعلق بتایاکہ سیپمل کابڑاحجم آبادی کے رجحان کا تعین کرتا ہے۔

امریکہ میں ٹی وی سیٹ 11 کروڑ 56 لاکھ اورریٹنگ میٹر 11لاکھ 56ہزارہیںجو آبادی کی ایک فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کافی حدتک قابل اعتبارہے مگراسکے باوجود وہاں اسے سنجیدہ نہیں لیاجاتا، وہاں بہت سے مشہورچینلزکی ریٹنگ صفرآتی ہے تاہم پاکستان میں صورتحال انتہائی مضحکہ خیزہے۔ یہاں ٹی وی سیٹ ایک کروڑ 40لاکھ جبکہ ریٹنگ میٹر صرف 900ہیں جوتمام آبادی کااوسطاً 0.0064نمائندہ ہے جوٹی وی ریٹنگ سسٹم کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نظام اعدادوشمار کے اعتبارسے سیپملنگ کی کسی تکنیک میں نہیں آتا۔ 300 میٹرکراچی میں،200میٹراسلام آبادمیں لگاکرریٹنگ کاتعین نہیں کیا جاسکتا۔ کے پی کے،گلگت بلتستان، بلوچستان بھی پاکستان کاحصہ ہیں، صرف لاہور، کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی کی آبادی کے رجحان جانچنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
Load Next Story