فلم ریویو جوانی پھر نہیں آنی

تھائی لینڈ میں فلمائے گئے ڈانس کلب اور ساحل سمندر کے مناظر فیملی کے ساتھ دیکھنے کے قابل نہیں۔

مور، شاہ اور منٹو نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ فلموں کی کامیابی کے لیے صرف فحاشی اور عریانیت نہیں بلکہ اچھی کہانی کا ہونا ضروری ہے۔

اگر آپ عید الاضحیٰ پر تفریح کا سامان کرنے کا سوچ رہے ہیں تو فلم 'جوانی پھر نہیں آنی' کے ٹکٹ بُک کرالیجئے۔ سکس سگما پلس کے بینر تلے بننے والی اس فلم کے لکھاری ڈرامہ ایکٹر واسع چوہدری ہیں۔ جنھوں نے فلم میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ فلم کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں جبکہ ہمایوں سعید فلم کے پرو ڈیوسرز میں شامل ہیں۔


کاسٹ: فلم کا دلچسپ پہلو اس کی کاسٹ ہی تو ہے۔ جہاں فلم انڈسٹری کے بڑے نام ایک ہی جگہ سمو دئیے گئے ہیں۔ اسماعیل تارا، جاوید شیخ، بشری انصاری، حمزہ علی عباسی، ہمایوں سعید، احمد بٹ، واسع چوہدری، مہوش حیات، ثروت گیلانی، سوہاعلی ابڑو، عائشہ خان اور دیگر شامل ہیں۔ کون کس کردار میں ہے وہ آپکو ریویو کے ساتھ سمجھ آجائے گا۔




بھاگ، بھاگ، ہانپتے کانپتے سیڑھیاں چڑھتے پرویز یعنی احمد بٹ صاحب ایک بلند عمارت کی آخری منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ احمد بٹ کے دونوں دوست حمزہ علی عباسی اور واسع چوہدری، احمد کو خود کشی سے روکتے ہیں۔ احمد بٹ آخر مرنے کی خواہش کیوں رکھتا ہے؟ یہ راز فلم کے انٹرویل تک آپکے سامنے آجائے گا۔


انٹر ویل سے قبل فلم کی کہانی کافی حد تک بھارتی فلم "مستی" سے مشابہت رکھتی ہے، ہاں البتہ مکالمے اور موسیقی میں پاکستان بازی لے گیا ہے۔ خاص کر ہمایوں سعید یعنی شیری کی فلم میں اینٹری بھرپور تھی۔ شیری جو کہ اپنے 3 شادی شدہ دوستوں احمد، واسع اور حمزہ کا اکلوتا کنوارا دوست ہوتا ہے، اور نیو یارک میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوتا ہے، پاکستان آکر اپنے تینوں دوستوں کی حالت پر شدید خائف ہوتا ہے اور انکی بیویوں سے بہانہ بنا کر تینوں کو تھائی لینڈ لے جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں پیش آنے والے واقعات بڑے دلچسپ ہیں۔ بنکاک میں ہی ہمایوں سعید کی ملاقات مہوش حیات یعنی مرینہ سے ہوتی ہے۔ مرینہ کا باپ اسماعیل تارا جنہیں فلم میں تھائی لینڈ کا ڈان دکھایا گیا ہے، وہ شیری اور مرینہ کی شادی طے کردیتا ہے۔ یہاں انٹرویل سے قبل فلم ہینگ اوور کی سی کچھ جھلک دکھائی دے گی۔


انٹرویل کے بعد سیلفیز اور ہیش ٹیگز کا بڑا دلچسپ سلسلہ ہے۔ جہاں ہمایوں سعید یعنی شیری لاہور آکر ایک امیر شخص جاوید شیخ کی بیٹی سوہاعلی ابڑو سے شادی رچانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہاں فلم کی کہانی یوں لگی جیسے ورن دھون، نرگس فخری اور الیانا دی کروز کی فلم ''میں تیرا ہیرو''، انداز وہی، پر مکالمے مختلف۔ فلم کا دوسرا حصہ پہلے حصے کی تشریح ہے۔ فلم کے ریویو کے ساتھ کچھ بات فلم کی خامیوں اور خوبیوں پر بھی کرلی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔


حمزہ علی عباسی، پی ٹی آئی اور فحاشی؟

فلم میں انٹرویل سے قبل ایک منظر ایسا ہے جہاں عائشہ خان جو کہ حمزہ کی بیوی کے کردار میں جلوہ گر ہوئی ہیں۔ قابلِ اعتراض منظر میں حمزہ سے مخاطب ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تھائی لینڈ پہنچنے کے بعد ڈانس کلب اور ساحل سمندر پر فلمائے گئے مناظر دیگر ممالک کے حساب سے تو ٹھیک ہونگے، مگر پاکستان کے تناظر میں انھیں فیملی میں بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ ایسے میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے حمزہ علی عباسی انہیں مناظر کی وجہ سے خبروں کی زینت بنے رہے ہیں۔



کیا فحاشی ہمارا کلچر ہے ؟؟

ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی کامیاب فلموں مور، شاہ اور منٹو نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ فلموں کی کامیابی کے لیے صرف فحاشی اور عریانیت نہیں بلکہ اچھی کہانی کا ہونا ضروری ہے۔ فلم جوانی پھر نہیں آنی میں پروموٹ کیا جانے والا فرنگی خواتین کے ساتھ گانے اور ناچنے کا کلچر ہرگز ہمارا نہیں ہو سکتا۔ ایسی فلموں کو ایک مخصوص طبقہ تو بہت پسند کرے گا لیکن تمام فلم بین نہیں۔

منفرد موسیقی اور اسپانسرڈ گانے:
پاکستانی فلموں میں آئے دن اشتہارات کا وہ انداز جو بھارت میں ایک عرصہ قبل پایا جاتا تھا، اپنایا جانے لگا ہے۔ یعنی گانوں، مکالموں اور پس منظر میں لگے بل بورڈز خاموشی سے اشتہاری مہم چلا کے فارغ بھی ہوجاتے ہیں۔ فلم کے گانوں میں "کھل جائے بوتل"، "ڈانس دی پارٹی"، "جلوہ"، "جے منڈیا"، "ایسا جوڑ ہے" اور ٹائٹل سانگ "یہ جوانی پھر نہیں آنی" شامل ہیں۔ جنہیں پاکستانی اور بھارتی گلوکاروں نے گایا ہے۔ یہ گانے کسی بھی صورت بھارتی گانوں سے کم نہیں۔


جوانی پھر نہیں آنی یا ہلہ گلہ؟؟

اتفاق دیکھئے، ایک اور پاکستانی مزاحیہ فلم ہلہ گلہ بھی عین اسی روز سینما گھروں کی زینت بن رہی ہے کہ جب جوانی پھر نہیں آنی سینما میں اینٹری مارے گی ۔ یوں تو دونوں ہی فلمیں کہیں نا کہیں بھارتی فلموں کا چربہ ہیں، تاہم درست فیصلہ آپ دیکھنے کے بعد ہی کر پائیں گے۔



[poll id="670"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

Load Next Story