نجی تعلیمی ادارے یا بے لگام مافیا

ایک زمانہ تھا جب پرائیویٹ اسکولوں کو جاری کیے جانے والے سرکاری سرٹیفکیٹ کے ساتھ فیس اسٹرکچر بھی منسلک ہوا کرتا تھا

فیسوں میں بے تحاشا اضافے سے پریشان والدین کا کہنا تھا کہ اب فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں یا انھیں تعلیم دلوائیں

اس کالم کے ضبط تحریر میں آنے تک نجی اسکولوں کے خلاف والدین کے شدید احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ اس سلسلے کا آغاز پشاور سے ہوا تھا جہاں ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ 14 ستمبر کو اسکولوں کی فیس کا نظام ترتیب دینے کے لیے نشتر ہال میں والدین اور نجی اسکولوں کے مالکان کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کے علاوہ صوبائی محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

والدین کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ نجی اسکولوں کے مالکان من مانی کرتے ہوئے اسکول کی فیس میں اضافے پر اضافہ کیے چلے جا رہے ہیں اور محکمہ تعلیم اس معاملے میں محض چپ سادھے بیٹھا ہوا ہے اورخاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بعض نجی اسکول لوڈ شیڈنگ کے دوران جنریٹر چلانے کے نام پر ماہانہ اضافی 400 روپے فیس بھی وصول کر رہے ہیں۔ اس طرح پاورجنریٹر کی مد میں بے بس طلبا و طالبات سے لاکھوں روپے بٹورے جا رہے ہیں۔

چونکہ نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی فیس کے تعین کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے اور نجی اسکولوں کی انتظامیہ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہے، لہٰذا اس صورت حال سے نجی اسکول کے مالکان خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں کی من مانی کا یہ سلسلہ صرف صوبہ خیبرپختونخوا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر صوبوں میں بھی صورتحال کم و بیش ایک ہی جیسی ہے۔ چنانچہ گزشتہ 16 ستمبر کو کراچی میں بھی نجی اسکولوں کی جانب سے ٹیوشن فیس سمیت دیگر مدوں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب کے باہر شدید احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاج کرنے والے والدین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں غیر معمولی اور بے جا اضافے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ ان بینرز پر ''طلبا کا مستقبل بناؤ پیسے نہ بناؤ، طلبا کے مستقبل سے نہ کھیلو، والدین کو اے ٹی ایم مشین نہ سمجھو'' جیسے نعرے تحریر تھے۔

فیسوں میں بے تحاشا اضافے سے پریشان والدین کا کہنا تھا کہ اب فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں یا انھیں تعلیم دلوائیں۔ نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں مسلسل اور بے لگام اضافے سے متوسط درجے کے والدین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ اب ان کی ماہانہ آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ ان کے بچوں کی فیس کی ہی نذر ہو رہا ہے اور معاملہ ''ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا'' والا ہو رہا ہے۔ پریشان حال والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نجی اسکولوں کی جانب سے تعلیم کوکمرشلائز کرنے کے اقدام کے خلاف سخت اور فوری کارروائی کرے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب تعلیم کو ایک مقدس فریضہ تصورکیا جاتا تھا مگر اسکولوں کی نجکاری کے نتیجے میں تعلیم کو ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بنادیا گیا ہے۔ نجی اسکولوں کے مالکان اپنے تعلیمی اداروں کو ٹکسال کی طرح استعمال کر رہے ہیں جس کا کام صرف نوٹ چھاپنا ہے۔

ان اسکولوں مالکان کو بچوں کی تعلیم سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ ہر وقت اپنے منافعے کو دگنا اور چوگنا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وطن عزیز جیسے ملک میں جہاں ناخواندگی کی شرح تشویشناک اور شرمناک حد تک زیادہ ہے تعلیمی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ ایک مجرمانہ اور سفاکانہ طرز عمل کے مترادف ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تعلیم ہی وہ موثر ہتھیار ہے جس کی مدد سے دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے ملک دشمن رجحانات پر قابو پانے میں زبردست مدد حاصل ہوسکتی ہے۔ نجی اسکولوں کے مالکان کی نامناسب روش انتہائی قابل مذمت ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان بچوں کی تعلیم و تربیت کو نظرانداز کرکے اپنے بینک اکاؤنٹس کی ترقی کے عمل میں مصروف ہیں۔ ان کا حال مردہ نہلانے والے اس خود غرض شخص جیسا ہے جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ متوفی جنت میں جائے گا یا دوزخ میں، اسے تو محض یہ فکر لاحق ہے کہ مردہ نہلانے کی فیس کتنی ملے گی۔


بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کے دلوں سے خدمت خلق کا جذبہ اب ختم ہوتا جا رہا ہے اور خدمت گزاری کے تعلیم جیسے شعبے بھی اب مال بنانے کے دھندے بنتے جا رہے ہیں۔ مادہ پرستی کی اس مہم قاتل جیسی روش کے حوالے سے ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے:

دنیا کے بازار میں آ کر ' چاہت بھی بیوپار بنی
تیرے دل سے میرے دل تک چاندی کی دیوار بنی

آج سے کوئی پچاس سال قبل حبیب پینٹر نامی مشہور قوال کی انتہائی مقبول اور مشہور قوالی کے درج ذیل بول بھی ایسی ہی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہیں:

مسجد بِکتی مندر بِکتے
ٹکے ٹکے شِو شنکر بِکتے
یہ دنیا ایک منڈی ہے
یہاں ہر چیز بِکتی ہے
خریدارو بتاؤ کیا خریدو گے

افسوس صد افسوس کہ فروغ تعلیم جو کبھی ایک مشن ہوا کرتا تھا اب عملاً ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے اور نجی اسکولوں کالجوں اور جامعات نے ٹکسال مشینوں کی صورت اختیار کرلی ہے جن کا کام محض کرنسی نوٹ چھاپ چھاپ کر ناجائز دولت اکٹھا کرنا ہے۔ جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے والے ایک مشہور ملکی ادارے کا حال تو آپ گزشتہ دنوں اپنی آنکھوں سے بذات خود دیکھ ہی چکے ہیں۔ افسوس کہ تعلیمی مافیا ہمارے تعلیمی نظام پر حاوی ہوچکا ہے جس کی حوصلہ شکنی کی فوری اور ازحد ضرورت ہے۔

ہمارے ملک کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ سرکاری اسکول یا تو طلبا کی حد سے زیادہ تعداد کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں یا وہ بوجوہ معیار تعلیم فراہم کرنے کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ایسی ناسازگار صورتحال سے مجبور ہوکر بے چارے والدین نجی اسکولوں کا ہی رخ کرتے ہیں جہاں کنڈرگارڈن میں داخلہ پانے والے چار سالہ نونہال کی ماہانہ ٹیوشن فیس 15 ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کا عالم تو یہ ہے کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کے بارے میں یہ تصور کرنا لازمی ہے کہ گویا وہ مشرق وسطیٰ میں تیل کے کنوؤں کے مالک ہیں۔

اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے اسکول میں پڑھنے والے نویں جماعت کے طالب علم کی ماہانہ فیس 50 ہزار روپے ہے۔ کراچی شہر میں ایسے 21 ہزار پرائیویٹ اسکول موجود ہیں جو طلبا کے والدین سے بھاری بھاری فیسیں وصول کرکے ان کی چمڑی ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔ اس طرح کے اسکولوں کو اگر پرائیویٹ اسکول مافیا کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ محکمہ تعلیم کی غفلت یا چشم پوشی ملاحظہ ہو کہ ان 21 ہزار پرائیویٹ اسکولوں میں سے صرف 8,500 اسکول ایسے ہیں جو رجسٹرڈ ہیں۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پرائیویٹ اسکولوں کو جاری کیے جانے والے سرکاری سرٹیفکیٹ کے ساتھ فیس اسٹرکچر بھی منسلک ہوا کرتا تھا مگر 2003 کے بعد سے یہ تکلف بھی ختم ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ اسکولوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ وہ چاہے جتنی فیس وصول کریں۔ حکومت سے ہماری استدعا ہے کہ نجی اسکولوں کے مالکان کو لگام دی جائے اور متاثرہ طلبا و طالبات کے والدین کو اسکول مالکان سے اضافی فیس واپس دلوائی جائے۔ نیز اسکولوں کی فیسوں کا منصفانہ فیس اسٹرکچر ترتیب دیا جائے اور اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
Load Next Story