تقریب کچھ تو بہر ’’رقومات‘‘ چاہیے

ہمیں ایک تو ورکشاپوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا ہے، کیا کمال کی چیز ہے جس کسی نے اسے ایجاد کیا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq September 22, 2015
ہمیں ایک تو ورکشاپوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا ہے، کیا کمال کی چیز ہے جس کسی نے اسے ایجاد کیا ہے

PARIS: باتیں دو ہو گئیں، ایک تو وہ بیکار ''مباش کچھ کیا کر'' اور دوسرے ''روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر'' چنانچہ ابتدا میٹنگ سے ہو گئی اور انتہا سیمینار بلکہ ''ورکشاپ''؟ پر ہو گئی اور آگے اگے دیکھئے کہ کام نہ کرنے، مفت کی کمانے کے اور کیا کیا طریقے پیدا ہوتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہم نے ان کے ''کام'' پر کچھ بھی اضافہ نہیں کیا، وہی پٹواری ہے وہی تھانہ ہے وہی دفتر ہے وہی فیتہ ہے اور وہی کام نہ کرنے کے لیے نوٹا فاٹی کا سلسلہ دراز ہے، لیکن یہ بالکل غلط ہے۔

انگریز تو صرف ایک ''میٹنگ'' چھوڑ گئے تھے جو کسی دفتر میں کسی کام کے لیے منعقد ہوتی تھی لیکن ہم نے اسے بام ترقی پر چڑھا کر اس کے اور بہت سارے انڈے بچے پیدا کر لیے، وہ بھی کام نہ کرنے کے لیے، اور یہ بہت بڑی بات بلکہ کمال ہے کام کرنے کے لیے تو کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی سوائے کام کے، لیکن کام نہ کرنے کے لیے سو سو جتن کرنا پڑتے ہیں، چنانچہ انگریز جو ''میٹنگ'' چھوڑ کر گئے تھے اور کام کرنے کے لیے چھوڑ گئے تھے۔

ہم نے اسے انڈوں پر بٹھا کر وہ وہ چوزے بلکہ مرغے مرغیاں پیدا کر لیں کہ پورا ایک پولٹری فارم بنا کر رکھ دیا، میٹنگ کے ان انڈے بچوں اور مرغ مرغیوں میں سب سے پہلی پیدائش ''کانفرنس'' کی ہوئی چنانچہ ہر محکمے اور سرکاری ادارے نے روزانہ کے معمول یا کام نہ کرنے کی تدبیر کو پھیلا کر کانفرنس بنا ڈالا بلکہ چونکہ انگریز بے چارے صرف کام کرتے تھے اس لیے ''میٹنگ'' میں صرف میٹنگ ہوتی ہے۔

جب ہمارے ایجادات عالیہ یعنی کانفرنس سیمینار ورکشاپ وغیرہ میں کام کے ساتھ ''دام'' کا سلسلہ بھی ہوتا ہے بلکہ کمال فن تو دیکھئے کہ کام نہ کرنے سے ''کمائی'' کا سلسلہ چلا، کیونکہ میٹنگ تو صرف دفتر میں ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ صرف چائے پر گزارہ ہو جاتا ہے جب کہ کانفرنس سیمینار اور ورکشاپ کے لیے کم از کم کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی ضرورت ہوتی، پھر وہاں لازمی ہے کہ تین اور کام بھی ضروری ہو جاتے ہیں، کھانا پینا اور جینا باکمانا کمینہ، ایک محقق قسم کے ماہر سرکاریات نے کافی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں برپا ہونے والے ان فائیو کے مقاصد بھی فائیو ہوتے ہیں۔ میٹنگ تو پرانے زمانے کا سادہ دل بندہ تھا یا یوں کہیے کہ ''عشق'' تھا کہ جب کہ یہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی پیدائشں عقل کا درجہ رکھتی ہیں کہ اور

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

ان کانفرنسوں سیمیناروں اور ورکشاپوں میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا کہ سال بھر کام نہ کرنے اور صرف میٹنگز کرنے سے جو رقومات بچ جاتی ہیں اور خطرہ ہوتا ہے کہ خرچ نہ کر سکنے کی وجہ سے واپس ہو جائے گی، ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے ان پنج بھوتوں سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے چنانچہ ہر محکمہ جب دیکھتا ہے کہ بسیار کوشش کے باوجود کچھ رقم سرپلس ہو جائے گی تو کانفرنس یا سیمینار یا ورکشاپ یا تربیتی کورس کا تیر بہدف امرت دھارا استعمال کیا جاتا ہے، ہوٹل والے بھی جانتے ہیں کہ مقصد کیا ہے چنانچہ وہ بھی بل بناتے وقت اپنا اور ''اپنوں'' کا خیال رکھتے ہیں۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ کچھ پسندیدہ عزیز و اقربا کے گلے بھی ''تر'' ہو جاتے ہیں، چوتھے فائدے کے طور پر دوسرے محکموں اور اداروں سے سفارتی تعلقات بھی قائم ہو جاتے ، من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو ، تم مجھے کانفرنس میں بلاؤ میں تجھے سیمینار میں بلا لوں گا، اب ذرا باری باری ان ''پنج بھوتوں'' کا الگ الگ تفصیلی ذکر بھی ہو جائے تو اچھا ہے جہاں تک ''کام نہ کرنے'' کے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے پہلے پڑاؤ میٹنگ کا تعلق ہے تو چونکہ یہ پرانے زمانے کی چیز ہے اس لیے نہایت ہی ''باپردہ'' ہوتی ہے، صرف محرموں کو اس کی خبر ہوتی ہے ۔

نامحرم کو اس کی جھلک بھی نہیں پاتے، نامحرموں یا آؤٹ سائیڈروں کو اسٹول پر بیٹھے ہوئے ''خواجہ سرا'' یا بابو سیکریٹری قسم کے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اندر ''میٹنگ'' ہو رہی ہے جو اتفاق سے ہر وقت ہر دم اور ہر دفتر میں ہمیشہ چل رہی ہوتی ہے،کوئی بھی آئے کوئی بھی جائے قیامت برپا ہو جائے، حشر نشر ہو جائے لیکن ''میٹنگ'' ٹس سے مس نہیں ہوتی بس چل رہی ہوتی ہے، جس طرح ''گلشن ھمہ بہار'' کی اصطلاح ہے اسی طرح آپ ہر سرکاری دفتر کو ''دفتر ہمیشہ میٹنگ'' بھی کہہ سکتے ،اس سلسلے میں رحمان بابا نے اچھی مثال دی ہے۔ انھوں نے خود کو ''میٹنگ'' کا درجہ دے کر فرمایا ہے کہ

لکہ ونہ مستقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان را باند راشی کہ بہار

( میں ایک پیڑ کی طرح اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا ہوں چاہے خزاں آئے یا بہار) یہی سلسلہ میٹنگ کا بھی ہے، آپ کسی بھی دفتر میں جا کر کسی بھی سے ملنا چاہیں وہ میٹنگ میں ہوتا ہے چنانچہ اب تو یہ بات سب کو معلوم ہو چکی ہے کہ سرکاری اہل کار اور کہیں بھی نہیں پائے جاتے اگر پائے جاتے ہیں تو صرف میٹنگ میں ہی پائے جاتے ہیں گویا ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ پرانے بڑے اچھے زمانے تھے ۔ میٹنگوں کا وقت بھی ہوتا تھا اور ایک لمٹ بھی، یہ الگ بات ہے کہ وہاں ہوتا کیا تھا، ریڈیو میں ہر روز نو بجے سے لے کر گیارہ بجے تک میٹنگ ہوتی تھی جس کی تفصیل کچھ یوں ہوتی تھی۔

ہا ہا ارے شرف الدین کل بڑا اچھا پروگرام دیا، قدرتی کھاد ہا ہا منگواؤ چائے، نہیں ٹھہرو بکر عمر نے بھی تو بڑی اچھی تقریر نشر کروائی، کباب تو بنتے ہیں پھر چائے کباب کا سلسلہ چلتا اور ہر پروڈیوسر دوسرے کی فیمیل آرٹسٹوں اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرتا، آخر میں انکریمنٹوں اور ترقیوں پر بات ختم ہو جاتی تھی، لیکن انسان تو مسلسل ارتقا پذیر ہے اور پھر سرکاری افسر تو کچھ زیادہ ہی ارتقا پذیر ہوتے ہیں، مال مفت کا ہو تو دل بے رحم ہو ہی جاتا ہے، اتنے چھوٹے پیمانے پر ''کام نہ کرنے'' کا کام وہ بھی آپس میں چائے پانی پر ؟ نہیں نہیں، سو کانفرنسوں اور سیمیناروں کی ابتداء ہو گئی ؎ پھر آیا وہ زمانہ جب جہاں میں ''جام جم'' نکلے

پہلے ہر بات پہ ہم بولتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

پرایا گھر ہے تو جتنے چاہو مہمان گھسا دو، تیرا کیا ان کانفرنسوں اور سیمیناروں کے لیے موضوعات واہ واہ ۔۔۔۔ بازار میں کسی بھی چلتی پھرتی ٹہلتی یا اڑتی ہوئی چڑیا کو پکڑ لو، بھوت دانشور ٹکے کے بارہ تیرہ مل جاتے ہیں، اپنے عزیزوں دوستوں کو بلا لو ۔ ہو گئی کانفرنس بھی اور سیمینار بھی۔گذشتہ کئی عشروں سے تو موضوع کی تلاش بھی کوئی مسئلہ نہیں رہی ہے ۔

کم از کم ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک کانفرنسیں اور سیمینار تو صرف ''امن'' کے نام پر برپا ہو چکی ہیں اور اس سے دس ہزار گنا اور کی ابھی گنجائش ... امن کے ساتھ کچھ بھی لگا لو، امن اور ہم، امن اور وہ، امن اور عوام، امن اور کبوتر، ان اور چمگارڈ، امن اور ہاتھی، امن اور آلو چھولے، امن اور دہی بھلے، امن اور اونٹ، امن اور ہاتھی، امن اور گدھا ... اگر کچھ زیادہ ہی رنگ چوکھا کرنا ہو تو امن اور ادیب کی ذمے داری، امن اور قصائی کی ذمے داری، امن اور چوروں کی ذمے داری، امن اور الوؤں کی ذمے داری۔ اس کے علاوہ اور نہ جانے کیا کیا ہے جسے امن کی دم کے ساتھ باندھا جا سکتا ہے حتیٰ کہ امن اور جوتوں، امن اور اچار، امن اور مینڈک کے درمیان بھی کوئی نہ کوئی جائز یا ناجائز تعلق دریافت کر سکتے ہیں۔

امن کے موضوع پر بولنے والے دانشوروں کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ کوئی کنکر بھی اٹھا دیں تو اس کے نیچے سے آٹھ دس دانشور اپنے مقالے لہراتے ہوئے پھدک کر باہر آجائیں گے کیونکہ سرکاری مال بہت ہوتا ہے اور یہ وہ فردوسی کا زمانہ نہیں ہے کہ

پئے مشورہ مجلس آرا ستند
نشتند و گفتند و برخواستند

بلکہ محکماتی بجٹ کو ٹھکانے لگانے کا زمانہ ہے، اس لیے نشتند و گفتند کے ساتھ ''خوردند'' کا اضافہ بھی کیا جا چکا ہے، سرکاری مال مفت اور دل بے رحم کی آخری تدبیر یا یوں کہیے کہ ترقی یافتہ شکل ''ورکشاپ'' بھی کچھ کم نہیں ہے، پتہ نہیں یہ کس ذہن رسا کا دریافت کیا ہوا نام ہے کمال کا طنز ہے اس میں... ورک شاپ کا لفظی مطلب ہوتا ہے کام کی دکان ... یا جہاں کام ہوتا ہے لیکن یار لوگوں نے اس کا مطلب ہی الٹ کر کے رکھ دیا ،کام نہ کرنے کے نتیجے میں سرپلس ہونے والی رقم کو ٹھکانے لگانے یا مستحق لوگوں میں بانٹنے کے لیے ورکشاپ منعقد کی جاتی ہے جو زیادہ تر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہوتی ہے اور تین چار دنوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس میں اصل روح یہ ہوتی ہے کہ کس کس طرح سے ''کام نہ کرنے'' کا ٹاسک پورا کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں ایک تو ورکشاپوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا ہے، کیا کمال کی چیز ہے جس کسی نے اسے ایجاد کیا ہے، جی چاہتا ہے کہ اس کی قبر تلاش کریں اور اس پر پہلے تو آٹھ دس گدھوں کی ورکشاپ برپا کریں تاکہ چاروں اطراف سے وہ اس پر خوب خوب کودیں، پھر ٹولیوں میں بٹ کر لڑھکا لڑھکی کھیلیں اور آخر میں باجماعت طور پر ایک ساتھ ڈھینچو ڈھینچو شروع کر دیں کیونکہ ورکشاپ سے زیادہ ، کام نہ کرنے کا سب سے مہنگا طریقہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔