قیادت کے بغیر انقلاب

یہ تحریری واقعات جوکہ ہمارے سامنے ہیں اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اسٹالن کو ٹراٹسکی نے جان سے مر وا نے کی کوشش کی


Zuber Rehman September 22, 2015
یہ تحریری واقعات جوکہ ہمارے سامنے ہیں اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اسٹالن کو ٹراٹسکی نے جان سے مر وا نے کی کوشش کی۔

سوشلزم کے بانی سینٹ سائمن نے مطلق اقتدارکی بات کی تھی یعنی ریاست کے آ لات اور مرکزی حکومت کی طاقت سے مزدورطبقے کو مطلق اقتدار پر مسند نشین کروانا ہے۔ اسی نظریے کی تقلید کرتے ہوئے کارل مارکس نے 'کمیونسٹ مینی فیسٹو 'میں کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد جب مزدور طبقہ اپنے مقاصد حاصل کرلے گا پھر فطری نظام یعنی کمیونسٹ نظام رائج ہوگا۔

جب کہ دوسری جانب بابائے سوشلزم روبارٹ اووین نے کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ریاستی آ لات کے ذریعے حکمرانی کر کے کمیونزم کی جانب نہیں بڑھا جاسکتا ہے۔اس لیے کہ ریاست جبرکا ادارہ ہے اور طبقاتی خلیج میں اضافہ کرتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ریاست کے متبادل عبوری تنظیم قائم کرکے مقامی عوامی کمیٹیوں کے ذریعے کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔کامریڈ میخائلالیکزینڈر ویچ باکونن کہتے ہیں کہ اگر ریاست کے آ لات کے ذریعے سوشلزم نافذکرنے کی کوشش کی گئی تو رد انقلاب ( سرمایہ داری) آسکتی ہے لیکن کمیونزم نہیں۔ لینن پرائز پانے والوں میں رامون مرکیڈور کا نام کہیں نہیں آتا۔

جن سات افراد کو لینن پرائزدیے گئے تھے ان کے نام باالترتیب فیڈل کاسٹرو، اوستاپ دلاسکی، ویلم مورو، رامیشوری نہرو، میخائل میڈووینو،اینٹونی ٹیبیٹ اور احمد سکوطورے ہیں۔ ٹراٹسکی کے قتل کے سلسلے میں رامون مرکیڈور کو میکسیکو کی عدالت نے بیس سال کی سزا قید سنائی تھی اس نے بیس سال کا عرصہ جیل میں گذارا۔ وہ چار مئی انیس سو ساٹھ کو اپنی سزا پوری کرکے جیل سے رہا ہوا اور رہائی کے فوری بعد کیوبن ائیر لائن کے ذریعے ہوانا پہنچا جہاں اس کے میزبان فیڈل کاسٹرو اور چی گویرا تھے۔ وہ اس کے بعد اٹھارہ سال تک زندہ رہا اور اس نے انیس سو اٹھتر میں ہوانا میں وفات پائی۔ ٹراٹسکی کے قاتل رامون مرکیڈور جو واردات کے دوران ہی گرفتار ہوگئے تھے، ان کی جیب سے ایک خط نکلا جس میں مندرجہ ذیل تحریر درج تھی۔

''میں یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں یہ انصاف پر مبنی عمل کرنے پر مجبور ہوا۔ اس کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں۔میرا تعلق بیکجم کے ایک خاندان سے ہے۔ میں نے پیرس میں صحافت کی تعلیم حاصل کی جہاں کمیونسٹ نوجوانوں سے میرے تعلقات پیدا ہوئے۔ میں صحافت کے ذریعے اپنی روزی روٹی کما کر ناانصافیوں پر مبنی موجودہ نظام کے خلاف زیادہ موثر طریقے سے لڑسکتا تھا۔ اس وقت میرا ترا تسکی کے پیروؤں کو جاننے کا اتفاق ہوا اور میں بھی ترا تسکی کا پیرو بن گیا۔میں نے انقلا بی تحریک کا گہرا مطالعہ کیا ۔

اس زمانے میںچوتھی انٹرنیشنل کے ایک رکن سے میری ملاقات ہوئی جس نے مجھے تجویز دی کہ میں لیون ٹراٹسکی سے ملا قات کے لیے میکسیکو جاؤں۔ یہ تجویز مجھے بے حد پسند آ ئی اور میں امریکا سے ہوتا ہوا میکسیکو پہنچا۔ میرے سفرکا سارا خرچہ اسی نے برداشت کیا۔پہلے مجھے تاکید کی گئی کہ میں خود کو تراتسکی سے دور رکھوں تا کہ کسی کو شک نہ ہو۔ بعد ازاں ٹراٹسکی کے کہنے پر میں نے ان کے گھر جانا شروع کیا۔ انھوں نے آہستہ آہستہ مجھے بتانا شروع کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ سب کچھ میرے لیے انتہائی مایوس کن تھا کیونکہ میں نے محنت کشوں کی جدوجہد کو سمت دینے وا لے ایک سیا سی ر ہنماہ کے بجا ئے خود کو ایک ایسے فرد کے مقابل پایا جو اپنے انتقام اور نفرت کی تسکین چاہتا تھا۔

جو محنت کشوں کی جدوجہد کو صرف اپنے خود غرضانہ مقاصد کو چھپانے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔اس وقت مجھ پر عیاں ہوا کہ ٹراٹسکی کس طرح محنت کشوں کو آپس میں لڑا رہا تھا اورمزدور تحریک میں دراڑیں ڈال رہا تھا۔ مجھے بہت زیادہ مایوسی ہوئی اور میں نے ٹراٹسکی کے لیے اپنے اندر بہت زیادہ نفرت اور حقارت محسوس کی۔ ٹرا ٹسکی نے مجھے تجویز دی کہ میں سوویت یو نین جا کر اسٹالن اوراس کے دیگر ساتھیوں کو ختم کرنے کا انتظام کروں۔ ٹراٹسکی نے مجھے یہ بھی باورکرانے کی کوشش کی کہ اس سلسلے میں سارے ذرائع استعمال ہوسکتے ہیں اور ایک بڑے ملک یعنی امریکا کی حمایت پر بھی بھرو سہ کیا جا سکتا ہے۔

میں اس کے سرمایہ دار ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ میں نے اس لیے اپنی زندگی قربان کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ تحریک کو ایسے قائد نما غدار سے چھٹکارا دلایا جاسکے جس نے اسے نقصان کے سواکچھ نہیں دیا۔ مجھے یقین ہے کہ بعد میں نہ صرف پارٹی بلکہ تاریخ بھی مجھے درست قراردے گی، جب وہ اس حقیقت سے آشنا ہوگی کہ محنت کشوں کا جانی دشمن فنا ہوگیا۔اس ز ما نے میں 'نیو یارک ایو نگ جرنل' کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ '' پارٹی کے اندر اسٹالن ہر قسم کی تنقید حتیٰ کہ ریا ست سے بھی با لاتر ہو چکا ہے۔ اس کے قتل کے سوا اسے ہٹانے کا اورکوئی راستہ نہیں ہے۔ ''

انیس سو سینتیس میں جب ماسکو ٹرائل کا آغاز ہوا تو تیرہ افراد پر سوویت حکو مت کا تختہ الٹنے کا مقد مہ چلا یا گیا تھا جن میں ٹراٹسکی کے علاوہ زینوویف،کامینیف، یوری پیاتا کوف، کارل اڈیک اوردیگر شامل تھے۔ اس مقدمے کے دوران زینو ویف اورکامینیف نے تسلیم کیا کہ انھوں نے ٹراٹسکی کے سا تھ مل کر سازش کی تھی۔

انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے بیرونی طا قتوں کے ایجنٹوں کے ساتھ ملاقات کی تھیں اور حکومت کا تختہ الٹنے اور اسٹالن کے قتل کی منصو بہ بندی بھی کی تھی۔ اس مقدمے کے دوران ایک گواہ نے یہ بھی بتا یا کہ' اس نے کو پین ہیگن میں ٹرا ٹسکی کے سا تھ ملا قات کی تھی، جہاں ٹرا ٹسکی نے اسے اسٹالن، وار شیوف اورکا گینووچ کے قتل کی ہدا یت کی تھی۔''

یہ تحریری واقعات جوکہ ہمارے سامنے ہیں اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اسٹالن کو ٹراٹسکی نے جان سے مر وا نے کی کوشش کی۔ دوسری جانب ٹراٹسکی نواز کمیو نسٹ یہ کہتے ہیں کہ اسٹا لن کے ایجنٹ کے طور پر را مون مرکیڈور سے ٹراٹسکی کو قتل کروایا گیا۔ بالشویک انقلاب کے وقت اور بعد میں لا کھوں انارکسٹوں نے با لشویکوں کے سا تھ مل کر زار شا ہی کو شکست دی۔ بعد ازاں اسی بالشویک کے رہنما ؤں لینن اور ٹرا ٹسکی کی قیادت نے پندرہ ہزار انارکسٹوں کو قید کیا، جلا وطن کیا، تشدد کیا اور قتل کیا۔ عظیم انقلابی انا کسٹ کامریڈ پیترکرو پوتکن کو انقلاب کے بعد ان کے فارم ہا ؤس میں نظر بند کر رکھا۔

ان کے جنا زے میں چند انار کسٹ کار کنوں کو شرکت کی ٹرا ٹسکی نے اجا زت دی۔ اس کے بعد انار کسٹوں کو کبھی بھی جدوجہد کرنے اور کھلے عام سرگرمی کی اجازت نہیں ملی۔ جب کہ یہی انارکسٹ تھے جنھوں نے سترہ سو نواسی میں انقلاب فرانس برپا کیا تھا ، ا ٹھارہ سو اکھترمیں پیرس کمیون قائم کی اور اس کی دو سو رکنی اسمبلی میں چھ مار کسسٹوں کو بھی شامل کیا، اٹھارہ سو چھیاسی میں مزدوروں کے آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کو منوا نے کے لیے جو رہنما پھا نسی پہ چڑھے وہ سارے انار کسٹ تھے۔

چند برس قبل وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جس کی رہنما ئی انارکسٹ کررہے تھے نے کسی بھی با ئیں بازو کے کار کنوں کو تحریک میں شمو لیت سے نہیں رو کا۔ وہ دن جلد آ نے وا لا ہے کہ ایک آ سمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا، کو ئی طبقہ ہو گا ۔ جب انقلا بی صورتحال بنے گی تو عوام خود قیادت کو تخلیق کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں