ضرورت سنجیدہ اقدامات کی ہے
ہمارے ہاں کاغذی اقدامات کی کمی نہیں اصل مسئلہ عملی اقدامات کا ہے۔
LONDON:
ارے واہ یہ میڈیا والے بھی بہت خوب ہیں جتنا بھی چھپاؤکونے کھدرے پہنچ کر دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ آخر انھیں خبریں بھی تو چاہیے ہوتی ہیں وہ بھی بریکنگ نیوز، اب آپ منہ چھپا کر رہیں ورنہ لُٹیا تو ڈوب ہی گئی۔ بہت سے لوگ لُٹیا کا مطلب پوچھیں گے کیونکہ اب لوٹوں کا دور ہے۔ اگر پہلے ''لو'' پر آپ نے ''ن'' کا نقطہ لگالیا تو یہ بن جائے گا لفظ نوٹوں۔ لیکن جناب دونوں صورتوں میں اب ایک ہی ہے۔ ہمارے نزدیک آپ اتفاق کریں یا نہ کریں۔ کچھ لوٹے پیندی والے ہوتے ہیں اورکچھ بغیر پیندی کے جو لڑھکتے رہتے ہیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔
ادھر ادھرکی باتوں میں اصلی بات تو بھول ہی جاتے ہیں۔ خیر اب اصلی کوئی چیز رہ بھی نہیں گئی ہے آپ کو یقین نہیں تو تلاش کرکے دیکھ لیں اصلی شہد اصلی گھی اب تو نقلی پر گزارہ ہے، نقلی پروڈکٹ بازار میں عام ہیں، اب آپ پہچان لیں جب بات ہے۔ اشیا تو دور کی بات ہیں اب تو چہرے بھی اصلی نہیں، سب نقلی، اصل و نقل کے اس ہیرپھیر میں بندہ پریشان ہو جاتا ہے، جائے تو جائے کہاں۔ سب جگہ ایک جیسے حالات ہیں۔ بے سکونی کے دور میں سکون تلاش کرنا بیوقوفی ہے۔
بے وقوفی کے کام تو ہم اکثر کرتے ہیں۔ مثلاً جلد بازی اور عجلت کے فیصلے طیش میں آکر بیان بازی پھر اپنے فیصلوں پر ہم شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ اور بیان واپس بھی لیتے ہیں۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔
پہلے تیر نظر چلتے تھے اب زبان کے تیر چلتے ہیں۔ کچھ تیر ہوا میں بھی چلائے جاتے ہیں۔ نشانے پر لگ گئے تو ٹھیک ہے ورنہ اگر نشانہ غلط ہوگیا تو پھر نشانہ مہنگا پڑتا ہے۔
مہنگے کی تو بات ہی نہ کریں۔ ہم اکثر مہنگے سودے کرتے ہیں۔ مجبوراً۔ مجبوری بھی خوب چیز ہے۔کبھی اوپر والوں کی وجہ سے اور کبھی۔۔۔۔۔ سمجھا کریں ہر بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ ویسے آپ تو بڑے ہیں آج کل تو بچے بھی سمجھدار ہیں یقین نہیں آتا تو بات کرکے دیکھیں ایسے سوال کریں گے کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
چودہ طبق تو ہمارے اس وقت بھی روشن ہوگئے تھے جب ہم چاروں خانے چت فٹ پاتھ پر گرے تھے۔ ہائے کتنی شرمندگی ہوئی تھی لوگ ہنس رہے تھے۔ پہلے زمانے میں گرتوں کو تھاما جاتا تھا۔ اور اب سنبھالنے کے بجائے ہنستے ہیں۔ بچو تمہاری بھی باری آئے گی پھر ہم بھی ہنسیں گے۔ شکر ہاتھ پیرکی ہڈی ٹکرانے سے ٹوٹی نہیں بقول اماں کے ڈھیٹ ہے اثر ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہم سڑک پر گرتے اور کوئی تیز رفتار گاڑی قریب ہوتی تو سوچ کر روح کانپ گئی۔
اپنی زندگی کتنی قیمت ہوتی ہے اور دوسرے کی۔ بس دو لفظوں تک محدود ہوتی ہے کہ ''افسوس ہوا''۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ کچرا جہاں جی چاہے پھینک دو پہلے دادی نانی کہانیاں سناتی تھیں کہ کیلے کا چھلکا ڈسٹ بن میں ڈالو۔ کوئی پھسل نہ جائے کسی کو تکلیف نہ ہو مگر اب جب سے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہوا ہے نانی دادی کے کردار بھی غیر اہم ہوگئے ہیں اور ہمارے بچے اخلاقی تربیت سے محروم ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ دادی ہمارے ابا سے کہا کرتی تھیں کہ بندہ زمین پر گر کر سنبھل سکتا ہے اٹھ سکتا ہے لیکن اگر نظروں سے گر جائے تو کبھی بھی نہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی لگی سو یاد رہی۔ لیکن اب تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے نظروں سے بھی گرتے ہیں دل سے اترتے ہیں اور پھسلتے بھی ہیں لیکن کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا جاتا تھا کہ چکنا گھڑا ہیں۔ شاید مشکل لفظ ہو گھڑا ہم آسان کردیتے ہیں۔ چکنا مٹکا۔ آج کل تو بچوں کی اردو اتنی کمزور ہے کہ ہر محاورے کا مطلب پوچھتے ہیں۔ خیر اب اردو سرکاری زبان کے طور پر رائج ہوجائے گی اور قومی زبان کے قومی رابطے مضبوط ہوں گے کاش 68 برس سے اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے والے دوبارہ سرگرم عمل نہ ہوجائیں۔
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کا فرق معاشرے پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ طبقاتی فرق سے کون واقف نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اہمیت سے انکار ممکن نہیں سیکھنا اور سکھانا احسن قدم ہے لیکن مادری زبان اور قومی زبان کی افادیت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ان موضوعات پر سیمینار بھی ہوتے ہیں اور مضامین بھی لکھے جاتے ہیں لیکن ضرورت سنجیدہ اقدامات کی ہے۔
ہمارے ہاں کاغذی اقدامات کی کمی نہیں اصل مسئلہ عملی اقدامات کا ہے۔ کچھ اقدامات ذاتی مفاد کے لیے کیے جاتے ہیں اور کچھ اقدامات عوامی مفادات کے لیے لیکن ان سے فائدے کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔ مثلاً سڑکوں پر بسوں کا انتظام کرنے سے پہلے چنگ چی کی بندش۔ مسئلے کو ختم کرنے سے پہلے دیگر ردعمل میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی غور کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ غریب بے چارہ سفر کیسے کرے۔ رکشے والا منہ مانگے دام مانتا ہے۔
اب رکشے والوں سے پوچھا جائے کہ بھئی! میٹر کہاں گئے؟ اگر میٹر کے ساتھ رکشے بھی غائب ہوگئے تو سکس سیٹر رکشوں کا دم غنیمت ہے۔دو فیصد غنیمت تو ان کتب خانوں کی بھی ہے جوکہ ابھی تک قائم ہیں۔ ورنہ کتب بینی کا شوق تو بالکل اسی طرح تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے جیسے ہماری قومی اقدار و روایات۔ اب تو نئی نسل کے ہاتھ میں کتاب کی جگہ موبائل ہے۔ موبائل یقینا دور حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ آپ کسی بھی صورت انکار نہیں کرسکتے مگر غیر ضروری استعمال نسل نو کو بربادیوں کا پیش خیمہ بھی بن رہا ہے۔ فری پیکیجز بربادی کا سامنا نہیں تو کیا ہیں۔ نسل نو کو غیر ضروری باتوں میں الجھا دو۔ تاکہ کام کے قابل ہی نہ رہیں۔
اگر غورکیا جائے تو ہماری نئی نسل انتہائی ذہین ہے اگر جدید ٹیکنالوجی کو صحیح مقاصد کے ساتھ استعمال کرکے چاہے تو اعلیٰ مقاصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہی ذہانت اگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہو تو خطرناک اور اگر مثبت راستوں پر تو دنیا کا روشن ستارہ۔ ستارے ٹوٹتے بھی ہیں ستارے ڈوبتے بھی ہیں اور ستارے روشن بھی ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہم کون سا ستارہ بننا پسند کریں گے۔
ارے واہ یہ میڈیا والے بھی بہت خوب ہیں جتنا بھی چھپاؤکونے کھدرے پہنچ کر دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ آخر انھیں خبریں بھی تو چاہیے ہوتی ہیں وہ بھی بریکنگ نیوز، اب آپ منہ چھپا کر رہیں ورنہ لُٹیا تو ڈوب ہی گئی۔ بہت سے لوگ لُٹیا کا مطلب پوچھیں گے کیونکہ اب لوٹوں کا دور ہے۔ اگر پہلے ''لو'' پر آپ نے ''ن'' کا نقطہ لگالیا تو یہ بن جائے گا لفظ نوٹوں۔ لیکن جناب دونوں صورتوں میں اب ایک ہی ہے۔ ہمارے نزدیک آپ اتفاق کریں یا نہ کریں۔ کچھ لوٹے پیندی والے ہوتے ہیں اورکچھ بغیر پیندی کے جو لڑھکتے رہتے ہیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔
ادھر ادھرکی باتوں میں اصلی بات تو بھول ہی جاتے ہیں۔ خیر اب اصلی کوئی چیز رہ بھی نہیں گئی ہے آپ کو یقین نہیں تو تلاش کرکے دیکھ لیں اصلی شہد اصلی گھی اب تو نقلی پر گزارہ ہے، نقلی پروڈکٹ بازار میں عام ہیں، اب آپ پہچان لیں جب بات ہے۔ اشیا تو دور کی بات ہیں اب تو چہرے بھی اصلی نہیں، سب نقلی، اصل و نقل کے اس ہیرپھیر میں بندہ پریشان ہو جاتا ہے، جائے تو جائے کہاں۔ سب جگہ ایک جیسے حالات ہیں۔ بے سکونی کے دور میں سکون تلاش کرنا بیوقوفی ہے۔
بے وقوفی کے کام تو ہم اکثر کرتے ہیں۔ مثلاً جلد بازی اور عجلت کے فیصلے طیش میں آکر بیان بازی پھر اپنے فیصلوں پر ہم شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ اور بیان واپس بھی لیتے ہیں۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔
پہلے تیر نظر چلتے تھے اب زبان کے تیر چلتے ہیں۔ کچھ تیر ہوا میں بھی چلائے جاتے ہیں۔ نشانے پر لگ گئے تو ٹھیک ہے ورنہ اگر نشانہ غلط ہوگیا تو پھر نشانہ مہنگا پڑتا ہے۔
مہنگے کی تو بات ہی نہ کریں۔ ہم اکثر مہنگے سودے کرتے ہیں۔ مجبوراً۔ مجبوری بھی خوب چیز ہے۔کبھی اوپر والوں کی وجہ سے اور کبھی۔۔۔۔۔ سمجھا کریں ہر بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ ویسے آپ تو بڑے ہیں آج کل تو بچے بھی سمجھدار ہیں یقین نہیں آتا تو بات کرکے دیکھیں ایسے سوال کریں گے کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
چودہ طبق تو ہمارے اس وقت بھی روشن ہوگئے تھے جب ہم چاروں خانے چت فٹ پاتھ پر گرے تھے۔ ہائے کتنی شرمندگی ہوئی تھی لوگ ہنس رہے تھے۔ پہلے زمانے میں گرتوں کو تھاما جاتا تھا۔ اور اب سنبھالنے کے بجائے ہنستے ہیں۔ بچو تمہاری بھی باری آئے گی پھر ہم بھی ہنسیں گے۔ شکر ہاتھ پیرکی ہڈی ٹکرانے سے ٹوٹی نہیں بقول اماں کے ڈھیٹ ہے اثر ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہم سڑک پر گرتے اور کوئی تیز رفتار گاڑی قریب ہوتی تو سوچ کر روح کانپ گئی۔
اپنی زندگی کتنی قیمت ہوتی ہے اور دوسرے کی۔ بس دو لفظوں تک محدود ہوتی ہے کہ ''افسوس ہوا''۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ کچرا جہاں جی چاہے پھینک دو پہلے دادی نانی کہانیاں سناتی تھیں کہ کیلے کا چھلکا ڈسٹ بن میں ڈالو۔ کوئی پھسل نہ جائے کسی کو تکلیف نہ ہو مگر اب جب سے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہوا ہے نانی دادی کے کردار بھی غیر اہم ہوگئے ہیں اور ہمارے بچے اخلاقی تربیت سے محروم ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ دادی ہمارے ابا سے کہا کرتی تھیں کہ بندہ زمین پر گر کر سنبھل سکتا ہے اٹھ سکتا ہے لیکن اگر نظروں سے گر جائے تو کبھی بھی نہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی لگی سو یاد رہی۔ لیکن اب تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے نظروں سے بھی گرتے ہیں دل سے اترتے ہیں اور پھسلتے بھی ہیں لیکن کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا جاتا تھا کہ چکنا گھڑا ہیں۔ شاید مشکل لفظ ہو گھڑا ہم آسان کردیتے ہیں۔ چکنا مٹکا۔ آج کل تو بچوں کی اردو اتنی کمزور ہے کہ ہر محاورے کا مطلب پوچھتے ہیں۔ خیر اب اردو سرکاری زبان کے طور پر رائج ہوجائے گی اور قومی زبان کے قومی رابطے مضبوط ہوں گے کاش 68 برس سے اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے والے دوبارہ سرگرم عمل نہ ہوجائیں۔
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کا فرق معاشرے پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ طبقاتی فرق سے کون واقف نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اہمیت سے انکار ممکن نہیں سیکھنا اور سکھانا احسن قدم ہے لیکن مادری زبان اور قومی زبان کی افادیت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ان موضوعات پر سیمینار بھی ہوتے ہیں اور مضامین بھی لکھے جاتے ہیں لیکن ضرورت سنجیدہ اقدامات کی ہے۔
ہمارے ہاں کاغذی اقدامات کی کمی نہیں اصل مسئلہ عملی اقدامات کا ہے۔ کچھ اقدامات ذاتی مفاد کے لیے کیے جاتے ہیں اور کچھ اقدامات عوامی مفادات کے لیے لیکن ان سے فائدے کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔ مثلاً سڑکوں پر بسوں کا انتظام کرنے سے پہلے چنگ چی کی بندش۔ مسئلے کو ختم کرنے سے پہلے دیگر ردعمل میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی غور کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ غریب بے چارہ سفر کیسے کرے۔ رکشے والا منہ مانگے دام مانتا ہے۔
اب رکشے والوں سے پوچھا جائے کہ بھئی! میٹر کہاں گئے؟ اگر میٹر کے ساتھ رکشے بھی غائب ہوگئے تو سکس سیٹر رکشوں کا دم غنیمت ہے۔دو فیصد غنیمت تو ان کتب خانوں کی بھی ہے جوکہ ابھی تک قائم ہیں۔ ورنہ کتب بینی کا شوق تو بالکل اسی طرح تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے جیسے ہماری قومی اقدار و روایات۔ اب تو نئی نسل کے ہاتھ میں کتاب کی جگہ موبائل ہے۔ موبائل یقینا دور حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ آپ کسی بھی صورت انکار نہیں کرسکتے مگر غیر ضروری استعمال نسل نو کو بربادیوں کا پیش خیمہ بھی بن رہا ہے۔ فری پیکیجز بربادی کا سامنا نہیں تو کیا ہیں۔ نسل نو کو غیر ضروری باتوں میں الجھا دو۔ تاکہ کام کے قابل ہی نہ رہیں۔
اگر غورکیا جائے تو ہماری نئی نسل انتہائی ذہین ہے اگر جدید ٹیکنالوجی کو صحیح مقاصد کے ساتھ استعمال کرکے چاہے تو اعلیٰ مقاصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہی ذہانت اگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہو تو خطرناک اور اگر مثبت راستوں پر تو دنیا کا روشن ستارہ۔ ستارے ٹوٹتے بھی ہیں ستارے ڈوبتے بھی ہیں اور ستارے روشن بھی ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہم کون سا ستارہ بننا پسند کریں گے۔