افغان پولیس اور فوج بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث ہیں امریکی اخبار

اس طرح کا فعل افغان ثقافت میں نہ صرف بڑا جرم ہے بلکہ قانون کے تحت بھی غیر قانونی فعل ہے، افغان حکومت


اس طرح کا فعل افغان ثقافت میں نہ صرف بڑا جرم ہے بلکہ قانون کے تحت بھی غیر قانونی فعل ہے، افغان حکومت، فوٹو:فائل

امریکی اخبار نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فوج کے ساتھ تربیت اور آپریشنز کے دوران افغان پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسران افغان بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان فوجی اور اعلیٰ افسران امریکی اور اتحادی فوج کے ساتھ کام کرنے کے دوران افغان بچوں کو اپنے جنسی ہوس کا نشانہ بناتے رہے جب کہ اس دوران امریکی فوجی اس فعل کا علم ہونے کے باوجود اسے نظر انداز کرتے رہے بلکہ ان کی ہائی کمانڈ کی جانب سے انہیں ہدیات جاری کی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں داخل اندازی نہ کریں۔

رپورٹ کے مطابق افغان فوجیوں میں اس فعل کو بوائے پلے کا نام دیا جاتا تھا۔ ایک امریکی فوجی گریگوری بکلے نے اخبار کو بتایا کہ اس کا بیٹا افغان کمانڈر کے ساتھ تعینات تھا اور اسے افسران کی جانب سے ہدایت تھی کہ وہ اس فعل کو دیکھنے کے بعد آنکھیں بند کرلے۔

امریکی فوج نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج کی کبھی بھی یہ پالیسی نہیں رہی کہ وہ افغان فوج کو بچوں کو جنسی تشدد کا نشان بنانے کی اجازت دے یا پھر اس سے نظریں پھیر لے۔ پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جیف ڈیوس کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی کی کبھی بھی یہ پالیسی نہیں رہی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نظر انداز کرے جب کہ وائٹ ہاوس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے لیے اس طرح کی رپورٹ تشویشناک ہیں۔

دوسری جانب افغان حکومت نے بھی ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا فعل افغان ثقافت میں نہ صرف ایک بڑا جرم ہے بلکہ قانون کے تحت بھی غیر قانونی فعل ہے۔ افغان وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے عزم کو ایک بار پھر دہراتی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی ٹھوس ثبوت اس سے متعلق سامنے آئے تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے پولیس اہلکاروں اور فوجیوں سے سختی سے نمبٹا جائے گا اور انہیں سخت سزا دی جائے گی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان کے طاقتور قبائل سردار نوجوانوں کو جنسی فعل کے لیے قید رکھتے ہیں اور اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں سال جولائی میں صوبہ بغلان میں ایک نوجوان لڑکے کے لیے 2 قبائل میں شدید لڑائی ہوئی جس میں 22 افراد مارے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں