بھارت اپنی سخت گیر سوچ میں تبدیلی لائے

بھارت گزشتہ کچھ عرصے سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل اشتعال انگیزی کرتا چلا آ رہا ہے

بھارت پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہشمند ہے اور بہتر تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر 20 روز تک شدید کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات کے بعد گزشتہ روز بریگیڈئیر سطح کی فلیگ میٹنگ ہوئی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق یہ میٹنگ پونچھ سیکٹر میں چاکن داباغ کراسنگ پوائنٹ پر ہوئی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ دونوں جانب سے سرحدوں پر کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے پر اتفاق کیا۔اخبارات میں بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان ایس این اچاریہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فلیگ میٹنگ کے دوران دونوں ممالک کے حکام نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور شہری آبادی کو نشانہ بنائے جانے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور سرحدی کشیدگی کم کرنیکی اہمیت پر زور دیتے ہوئے صورتحال میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔

بھارت گزشتہ کچھ عرصے سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل اشتعال انگیزی کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت کی اس اشتعال انگیزی کے باعث پاکستان میں خاصا جانی نقصان بھی ہوا۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان کی طرف سے ڈی جی رینجرز بھارت گئے تھے جہاں ان کی اپنے ہم منصب سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ بھارت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کی بارڈر سیکیورٹی فورسز فائرنگ میں پہل نہیں کرے گی لیکن اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا اور معاملات جوں کا توں ہی چلے آ رہے ہیں۔

اب اگر کنٹرول لائن پر بریگیڈئیر سطح کی فلیگ میٹنگ ہوئی ہے تو اس کے اچھے اثرات برآمد ہونے چاہئیں۔ بھارتی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ سرحدوں پر جاری معمولی نوعیت کی کشیدگی غلط فہمیوں کے باعث بڑے تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان سرحدوں پر حالات کو پرسکون رکھنے کے لیے ایسا میکنزم تیار کریں جس میں غلطی کا احتمال نہ ہو۔ ضرورت یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت باضابطہ مذاکرات کا عمل بحال کریں ۔


باضابطہ مذاکرات شروع ہونے سے حالات میں خاصی تبدیلی آ سکتی ہے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس کی توجہ شمال مغربی علاقوں کی جانب ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنے کوئی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن انھیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ سرحدوں پر حالات بگاڑ کر بھارت کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا بلکہ اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد اور اختلاف کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر اور دیگر ایسے تنازعات ہیں جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ ایک ذہین اور زیرک قیادت وہی ہوتی ہے جو مسائل کی جڑ تک پہنچے اور اسے اکھاڑنے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک مسائل کی جڑ موجود ہے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر 68 سال سے جاری ہے لیکن اس تنازع کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس تنازع کے حل نہ ہونے کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں بھی لڑی گئی ہیںلہٰذا اب بھی اگر یہ تنازع حل نہیں ہوتا تو معاملات خراب ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

تنازعہ کشمیر کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات بھی موجود ہیں۔ سیاچن کا تنازع بھی حل نہیں ہو سکا اور اسی طرح سرکریک کے معاملات بھی جوں کے توں پڑے ہیں۔ یہ تنازعات کیوں حل نہیں ہو سکے، اس کی وجوہات سے بھارتی پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں جو مذاکرات ہوئے،ان میں نسبتاً کم شدت کے تنازعات کو حل کیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ سرکریک اور سیاچن ایسے تنازعات ہیں جنھیں آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح پانی کے تنازعات بھی حل ہو سکتے ہیں لیکن بھارتی پالیسی ساز کسی ایک تنازع پر بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس صورت حال سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک بھارت کے پالیسی ساز اپنے رویے اور سخت گیر سوچ میں تبدیلی نہیں لاتے پاک بھارت تنازعات کے حل کی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب بھارتی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر مذاکرات بے نتیجہ ہی رہیں گے۔ گزشتہ روز بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان اور چین کی سرحدوں کے اپنے تین روزہ دورے کے دوران کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہشمند ہے اور بہتر تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں ۔ دونوں اطراف کو آگے آنا چاہیے، بھارت پہل کرنے کو تیار ہے۔ سرحد پار دراندازی اور دہشت گردی بند ہونی چاہیے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ ایشیاء کے خطے اور بھارت میں ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوتے، سرحدی تنازعات اور دہشت گردی جیسے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کے ذہن میں تبدیلی آ رہی ہے لیکن یہ تبدیلی عملی شکل بھی اختیار کرنی چاہیے۔اس حوالے سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہیے تاکہ تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت ہو سکے۔
Load Next Story