بھارت کی آبی دہشتگردی اور سندھ ڈیلٹا کی تباہی

فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ اور کوڑا کرکٹ سمندر میں گرنے سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں

حکومتوں نے کوسٹل ایریا کو نظرانداز کیا ہوا ہے، زندگی کی بنیادی سہولتیں، اسکولز، صحت اور انفرااسٹرکچر نام کی کوئی چیز نہیں ہے فوٹو:فائل

بھارت پاکستان کے خلاف اپنی آبی دہشتگردی کے منصوبہ پرعمل پیرا ہے جس کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی آیندہ ایک الگ جامع مذاکرات پر منتج ہوسکتی ہے۔ اس کا اندیشہ ماہرین نے ظاہر کیا ہے جب کہ پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کی حالیہ صورتحال کو مزید خراب کرنے کے لیے بھارت کا اپنی طرف سے پانی چھوڑنے کی حکمت عملی سندھ طاس کے معاہدے سے کھلا انحراف ہے، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی جاری ہے، یہی وقت ہے کہ پاکستان اپنی تشویش سے عالمی برادری کو آگاہ کرے ۔

ملک کے بالائی علاقوں میں شدید بارشوں اور ممکنہ طور پر منگل سے جمعرات کے درمیان بھارت کی جانب سے کسی بھی وقت سیلابی پانی کا ایک بہت بڑا ریلہ چھوڑے جانے کے باعث دریائے جہلم اور چناب میں بدھ کو اونچے اور انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے، سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے ادارے وفاقی فلڈ کمیشن کے مطابق ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے پہاڑی جب کہ دریائے راوی اور چناب کے ندی نالوں میں بھی طغیانی کا خطرہ ہے جب کہ ہیڈ مرالہ بیراج دریا ئے چناب سے بڑا سیلابی ریلہ گزرنے والا ہے جو کہ خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔


ادھر موسمیاتی تبدیلیوں سے سندھ کے ساحلی علاقوں کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے، ڈیلٹا کا 35 لاکھ ایکڑ سمندر برد ہو گیا، فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ اور کوڑا کرکٹ سمندر میں گرنے سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، عالمی اسٹڈی کے مطابق 2040 سال کے دوران ٹھٹھہ اور بدین ڈوب جائیں گے، غیر سرکاری تنظیم آکسفین کی طرف سے ایکسپریس کو کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری، ٹھٹھہ، بدین اور کیٹی بندر گاہ کا دورہ کرایا گیا، اس موقعے پر پاکستان فشریز فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی سزا زیادہ بھگت رہے ہیں۔

حکومتوں نے کوسٹل ایریا کو نظرانداز کیا ہوا ہے، زندگی کی بنیادی سہولتیں، اسکولز، صحت اور انفرااسٹرکچر نام کی کوئی چیز نہیں ہے،1050کلو میٹر کوسٹل ایریا ہے جس میں 700بلوچستان میں کوسٹل ایریا ہے، سرکریک میں دونوں ملک ایک دوسرے کے مچھیرے پکڑ لیتے ہیں اس کا مستقل حل نکالا جائے، زمیندار مچھیرے بن گئے ہیں،81 ہزار ایکڑ زمین سیم زدہ ہوگئی ہے۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ ٹھٹھہ بدین سمیت تمام ساحلی علاقوں کو سمندربرد ہونے سے بچانے کے لیے ماسٹر پلان تیار کرے اور عالمی امداد کی اپیل کرے۔خاموش رہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
Load Next Story