دینی اور دنیاوی تعلیم کچھ سوچیں

پاکستان میں مدارس کی تعداد سے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں

پشاور میں بڈھ بیر کے مقام پر پاکستان ایئرفورس کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں کیپٹن اسفندیار سمیت متعدد افراد شہید ہوئے جب کہ تمام 13دہشت گردوں کو ہماری سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔ اس سانحہ پر پوری قوم افسردہ ہے ۔ میں کافی دیر ٹی وی کے سامنے بیٹھا سوچتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک دشمن قوتیں دہشت گرد کارروائیاں کر کے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں ۔ ملک دشمن عناصر ایسی کارروائیاں کرواتے بھی ان افراد سے ہیں جو کم عمر ہوتے ہیں اورانھیں گمراہ کرناآسان ہوتا ہے۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ لوگ ''تیار'' کہاں ہوتے ہوں گے؟ انھیں جنت کی بشارتیں کون دیتا ہوگا؟ ورنہ کوئی مسلمان مسجد میں یوں اندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کو شہید نہ کرتا۔

کتابیں کھولیں،نئے پرانے اخبارات کا مطالعہ کیا، انٹرنیٹ کھنگالا کہ شاید کسی نتیجے پر پہنچ سکوں کہ ایسی کونسی ناگزیر وجوہات ہیں جو خود کش حملہ آور کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کچھ سال پہلے بی بی سی پر ایک خود کش حملہ آور کا انٹرویو دیکھا تھا لیکن تسلی نہیں ہوئی تھی۔ کالم لکھنے کا سوچا تو مجھے لگا کہ یہ حساس موضوع ہے لیکن ایک کالم نگار کے لیے انصاف کا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قلم سے اپنے جذبات کا اظہار کرے اور مکمل تحقیق کے بعد ہی چند کارآمد تجاویز دے۔

پاکستان میں مدارس کی تعداد سے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ۔ ہر حکومت ہر دور میں مختلف اعداد و شمار دیتی آئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ملک بھر میں 245 مدارس تھے، 1988میں 2861 اور دو ہزار میں 6761 ہوگئے تھے اور اب 2015 میں ان مدارس کی تعداد تقریباً 25 ہزار بتائی جاتی ہے۔

جب کہ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ مختلف مکتبہ ہائے فکر سے جڑے 30 ہزار سے زیادہ مدارس رجسٹرڈ ہیں تاہم ایسے مدارس بھی موجود ہیں جو کہیں رجسٹرڈ نہیںہیں۔ حال ہی میں حکومت نے قومی ایکشن پلان کا ایک اہم جز ملک میں قائم مدارس پر نظر رکھنے کو قرار دیا ہے تاہم اس پر عمل درآمد کی راہ میں متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔اب موجودہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر ان مدارس کا احاطہ کیا ہے تو کئی ''خیر خواہ'' جاگ اُٹھے ہیں ۔

ایک مولانا صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ حکومت ان مدرسوں کو فنڈ نہیں دیتی اس لیے اسے ان کی جانچ پڑتال کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ میرے خیال میں اگر ان مدارس کو ریاست کے زیر اہتمام چلائے جانے کی بات ہو رہی ہے تو مل بیٹھ کر بات ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں مخصوص نظریات کے حامل حلقوں میں اسلام کے حوالے سے خود ساختہ تشریح کی بنا پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔

یہاں تعلیم کو دو مختلف نام ''دینی اور دنیاوی'' دے کر دکانداری چلائی جا رہی ہے اور عوام کو لوُٹا جا رہا ہے۔ دینی تعلیم دینے والا طبقہ 'چندے' کے نام سے لوُٹ رہا ہے جب کہ دنیاوی تعلیم دینے والا طبقہ والدین کی جیبیں خالی کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اگر قومی نصاب کو اس معیار کا بنایا جائے کہ دینی و دنیاوی دونوں اس میں آجائیں تو پاکستان کے سو فیصد مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے، مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسلام نے کب منع کیا ہے کہ انگریزی زبان مت سیکھو، یہ کہاں لکھا ہے کہ مسلمان کمپیوٹر کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ جب تک ہم ان چیزوں کو نہیں سیکھیں گے ہم دوسری اقوام کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔


قرآن مجید میں علم اور تعلیم کے الفاظ چار سو پچیس سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں۔ چند ہی ایسے الفاظ ہوں گے جو اس سے زیادہ تعداد میں آئے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین تعلیم پر کتنا زیادہ زور دیتا ہے۔ جنگ بدر میں بہت سے کافر قید ہوئے۔ ان قیدیوں میں سے جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مالی فدیہ طلب کرنے کے بجائے، یہ فرمایا کہ ان میں سے ہر شخص دس دس مسلمانوں بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔

تعلیم کے انتظامات کے سلسلے میں یہ واقعہ ولولہ انگیز ہے۔ آج چند بیوپاری اس پاکیزہ دین کی شکل بگاڑ رہے ہیں کہ ہمارا شمار پست ترین قوموں میں ہونے لگا ہے حالانکہ ہمارے ہی تعلیمی ادارے تھے جنہوں نے ابن خلدون پیدا کیے،ابن سینا پیدا کیے،الجبرے کے موجد پیدا کیے اور ان کی ایجادات پر مغربی دنیا نے اپنی ترقی کا سفر طے کیا۔ پیرس کی ایک معروف شاہراہ کا نام آج بھی ابن سینا کے نام سے موسوم ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہماری شرح خواندگی 40فیصد سے زائد ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کی شرح سو فیصد ہے۔ مسلمان ممالک میں تعلیم کی شرح بلحاظ مجموعی چالیس فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے اندر تعلیم کی شرح دس فیصد سے زیادہ نہیں بنتی۔ اس صورت حال میں بھلا یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرسکیں گے اور یہ کیسے تصور کر لیا جاتا ہے کہ ہمارے درمیان سے ہی چند روپوں کی خاطر خودکش حملہ آور تیار نہیں ہوں گے۔

آج ہم جس مشکل سے دوچار ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی سسٹم کا نہ ہونا ہے ، یہ ہمارے حکمران ہی ہیں جن کی بدولت آج ملک میں کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ ورنہ جہاں نظام موجود ہیں وہاں حکومت کے اجازت نامے کے بغیر مدرسہ کھولنا تو دور کی بات کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، سعودی عرب اور ایران کو ہی دیکھ لیں وہاں حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی مسجد بنا سکتا ہے نہ مدرسہ نہیں کھول سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانون نے دینی اور دنیاوی تعلیم کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو پستیوں کی جانب دھکیل دیا ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی دکانداری کی بنیاد حقیقتاََ 1440ء میں رکھی گئی تھی اور مسلمانوں اور مغرب کے درمیان تعلیم کے فرق کا آغاز بھی اسی صدی سے ہوا تھا جب جرمنی میں گُٹن برگ نے چھاپا خانہ ایجاد کیا تھا۔

اس ایجاد کے ساتھ ہی یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شایع ہونے لگیں اور اگلی دوتین صدیوں میں 80فیصد سے زیادہ لوگ خواندہ ہوگئے۔ یہ چھاپہ خانہ ساڑھے تین سو برس کے بعد کہیں جاکر مسلمان دنیا میں اُس وقت پہنچا جب 1730ء میں ترکی میں پہلا پریس لگا۔ تاہم اْس وقت بھی پریس کو ایک شیطانی آلہ سمجھا جاتا تھا اور ترکی کے شیخ الاسلام نے یہ پابندی لگائی کہ پریس میں مذہبی کتابیں نہیں چھاپی جائیں گی۔

اگر ہمارے مولانا حضرات وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور ہمارے حکمرانوں کے ساتھ مل کر قومی و ملی جذبے کے تحت تمام مدارس و مساجد کو ایک ڈسپلن میں لے آئیں تو ہم بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں، مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار مل سکتا ہے، میری حکمرانوں سے التجاء ہے کہ اس کام کو وطن عزیز کی سلامتی کی خاطر ضرور انجام تک پہنچائیں اور ایک ایسا نظام دیں جس میں سبھی تعلیمی ادارے آجائیں ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور وطن عزیز سے دہشت گردوں کا قلع قمع فرمائے اور پاک فوج کو ضرب عضب میں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story