میری بھی بیٹی ہے
اگر راستہ دکھانے والا ہی دوزخ کی آگ میں جلا دے تو پھر ہم جیسے مجبور لوگ کیا کر سکتے ہیں؟
اگر راستہ دکھانے والا ہی دوزخ کی آگ میں جلا دے تو پھر ہم جیسے مجبور لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ جن کے ہاتھ اپنی عزت کی قسم کھائی ہو وہ ہی لوگ ہماری آبرو کو تار تار کر دیں تو پھر آپ بتائیں کہ کس کی گواہی ڈھونڈی جائے۔ جس کے دروازے پر زندگی کی فریاد لے کر جائیں وہ ہی مسیحا اگر قاتل ہو تو پھر کس سے شفا مانگیں۔ ہم جن کی زبان پر ایمان لا کر اپنے بچوں کا مستقبل سونپ دیں اور وہ ہی بدبخت ہماری نسلوں کو تباہ کرنے کی قسم کھا چکا ہو تو کس دیوار پر ماتھا مارا جائے؟
میری آنکھوں سے وہ معصوم بیٹیاں نہیں بھلائی جا رہی ہیں، جن کے ماتھے سے عزت کی چادر اُسی نے اتار دی جس نے سر پر ہاتھ رکھ شفقت کی تھی۔ جس کے ہاتھوں ہم نے اپنی عزت رکھوائی تھی اُسی درندے نے خیانت کی۔ کاش کہ وہ ایک عام سا آدمی ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ جاہل ہے، لیکن وہ تو علم کی اعلیٰ مسند پر بیٹھا تھا وہ کہ جس پر لوگ اپنے آپ سے زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ اسی لیے تو اپنی معصوم بچیوں کو اُس کے ذمے چھوڑ کر آرام سے بیٹھے تھے۔ میں کیسے بتاؤں کہ لوگ اُس کے پیچھے اپنی نماز کو مکمل کرتے تھے۔ اُس کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے نہیں آیا کہ وہ کس مذہب کا نمایندہ ہے۔ اُس بدبخت کو یہ حرکت کرتے ہوئے اتنی بھی شرم نہیں آئی کہ لوگ اُس پر کتنا اعتبار کرتے ہیں۔
کوئی اس ظالم کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہاڑی جا سکتا ہے۔ جس کا نام پولیس کے کاغذ میں امان اللہ درج ہے۔ مگر میاں چنوں کے رہنے والے اس شخص کو وہاڑی کے لوگ بہت عزت دیتے تھے۔ یہ خود کو مذہب کا مبلغ کہتا تھا۔ خود کو پرہیزگار اور متقی ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس لیے لوگ اس کے بہکاوے میں آ گئے اور یہ نواحی چک 7 WB کی مسجد میں امام کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ لوگوں نے اس پر بھروسہ کیا اور اپنی بیٹیوں کو اس کے پاس تعلیم کے لیے بھیجنے لگے۔
اس ظالم کی آنکھوں میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس نے چھوٹی اور معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ سوچیں وہ لوگ جو دوسروں کو ٹھیک راستہ دکھانے کا کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جب ہمارے دلوں پر چھریاں چلاتے ہیں تو ہم کس عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن پر ہم اپنے خدا کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور اُن کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی عبادت کرتے ہیں۔ وہ لوگ کس طرح یہ گھناؤنے کام کرتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے انھیں ایک لمحے کے لیے احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں لوگوں نے اپنے سروں پر بٹھا کر رکھا ہوا ہے۔
اس ظالم کی ہوس شاید اُس وقت بھی نہیں بجھی اور اُس نے دو پھول جیسی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اُن کی ویڈیو بھی بنائی۔ ایک لڑکی کی عمر 12 سال اور دوسری کی 13 سال ہے۔ ہم نے طوفان مچا دیا تھا جب قصور کا سانحہ پیش آیا تھا، لیکن ہماری یادداشت دیکھیں کہ ہم تھوڑے دنوں میں ہی سب کچھ بھول گئے۔ کس کو انصاف ملا؟ کس کی تقدیر جاگی؟ یہ ظالم شخص تو ہمارے سماج کا اہم آدمی تھا۔ وہ کہ جو لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر کافر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔
جس کی بات پر سب لوگ اعتبار کر سکتے ہیں۔ وہ شخص یہ حرکت کر رہا تھا اور پھر اُن لڑکیوں سے کہا ہوا تھا کہ اگر تم نے کسی کو بتایا تو تمھاری یہ ویڈیو سب کو دکھا دونگا۔ لڑکیاں ڈر گئیں۔ وہ اپنی زبان سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ ڈری ہوئی، سہمی ہوئی لڑکیوں پر کیا گزر رہی ہو گی جو ابھی اپنی نوجوانی کی شاید ابتدائی حالت میں بھی نہیں تھی۔
کوئی مجھے بتائے کہ وہ لڑکیاں کیا کرتیں جن کے سامنے ایک درندہ تھا جو انھیں ہر وقت نوچ رہا تھا اور دوسری طرف اُس معاشرے کا ڈر تھا جو اس ویڈیو کے بعد اُن کے تمام راستے بند کر دیتا۔
ایک دن ایک لڑکی کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہو گئی اور پھر یہ بات گھرکی عورتوں کو معلوم ہو گئی۔ جس کے ذریعے لڑکی کے بھائیوں کو معلوم ہوا، اُن کی آنکھوں میں خون آیا ہوا تھا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس مذہبی رہنما کو قتل کر دیں۔ اس بھائی کی بے بسی دیکھیں اور سوچیں کہ جسے معلوم ہو جائے کہ اُس کی بہنوں کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہوا ہے اور ظالم شخص وہ ہے جس کے ہاتھ میں اُس نے اپنی عزت دی تھی۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس ملعون کا تعلق ایک کالعدم جماعت سے بھی ہے۔ ایسی جماعت جس کے خوف کا سایہ ہر جگہ موجود ہے۔ جس کے تعلقات اور اثر کے سامنے غریب آدمی بے بس ہو جاتا ہے، لیکن بھائیوں نے ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور تھانہ صدر میں مقدمہ درج کرا دیا۔
اچھی بات ہوئی کہ پولیس نے بروقت کارروائی کی اور ملزم کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق انھوں نے وہ لیپ ٹاپ اور موبائل برآمد کر لیا ہے جس میں وہ ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہاں ایک بات بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ ہی کالعدم لوگ جو سر عام گھومتے ہیں انھوں نے پولیس پر دباؤ بھی ڈالا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جواس معاشرے میں سب کو سیدھے راستے پر ڈالنے کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہیں وہ لوگ جب گرفت میں آئے ہیں تو ہمارا قانون اُن کے سامنے کتنا سیدھا چلتا ہے۔ یہ وہ ہی لوگ تو ہے جو ساہیوال میں بھی سیدھا راستہ دکھانا چاہتے ہیں۔ جو وہاں پر لڑکیوں، عورتوں کو سرعام ''چاقو'' مارتے ہیں اور پھر سب کے سامنے آرام سے چلے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک واقعہ ہو رہا ہے۔
بتائیں 65 سال کی عمر میں ایک عور ت کتنی بے بس ہوتی ہے اور اُس سے زیادہ لاچار اور بے حس ہماری حکومت اور انتظامیہ ہے۔ ساہیوال میں دو ہفتے سے ہر روز کسی نا کسی عورت کو چاقو سے مارا جا رہا ہے۔
ایک دو نہیں یہاں پر اب تک 9 عورتوں کو زخمی کیا چکا تھا۔ لیکن انتظامیہ سوتی رہی اور اب ایک 65 سال کی عورت کو چاقو مارا گیا جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ مگر قانون سوتا رہا۔ جب ایک دو واقعات پیش آئے تب اُس وقت اگر یہ جاگ پڑتے تو آج اس عورت کو یہ نا دیکھنا پڑتا۔ ساہیوال کی گلیوں میں خوف کا عالم ہے۔ آپ بتائیں کہ وہاڑی کی ان دو معصوم سی بچیوں کے ذہن سے اب خوف کون نکالے گا۔ کیا اب وہ عمر بھر نارمل زندگی گزار سکتی ہیں۔ کیا وہاڑی کے اُس علاقے میں اب سب لوگ اپنی بیٹیوں کو دینی تعلیم کے لیے بھیجیں گے؟ کیا ساہیوال میں ہر روز گھومتا ہوا لفنگا چاقو وہاں کی لڑکیوں کے دل سے ڈر نکال پائے گا۔
ہم اپنے معاشرے کو جنونیوں سے پاک نہیں کر پا رہے۔ لگتا ہے ہمارا دکھ سمجھنے والا یہاں کوئی بھی نہیں۔ یہاں کے تمام لوگوں کو بس مصالحے والی خبریں چاہییں اور دو دن کے بعد دوسرا کھانا چاہیے۔ کاش کے کوئی اس معاشرے کا اصل دکھ سمجھ سکے جہاں کوئی بھی، کہیں پر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ مثال تو شاید کڑوی ہے لیکن ہضم ہو جائے گی کہ ہمارے پڑوس میں واقعہ دشمن کے علاقے میں ایک ریاستی وزیر اعلیٰ ہے جو یہ کہتا ہے کہ میری بیٹی کالج میں پڑھتی ہے اور جب وہاں سے آنے میں دیر ہو جاتی ہے تو میں اور میری بیوی پریشان ہو جاتے ہیں۔
جب میں وزیر اعلیٰ ہو کر اپنی بیٹی کے لیے پریشان ہو جاتا ہوں تو دلی کے عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ اس لیے یہاں سخت سے سخت قانون بننا چاہیے۔ میری بھی بیٹیاں ہیں، میں بھی پریشان رہتا ہوں، کاش کہ ہمارے حکمرانوں، ہمارے مذہبی رہنماؤں، ہمارے سیاسی قائدین کو بھی یہ خیال ہو کہ اُن کی بھی بیٹیاں ہیں اور وہ دلی کے عام وزیر اعلیٰ کی طرح ہمارا دکھ محسوس کرے۔ اور پھر ان جنسی درندوں سے ہماری بیٹیوں کو بچائیں، جو ہماری عزتوں کو پامال کرتے ہیں اور کہیں انھیں عورت ہی ہر برائی کی جڑ لگتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے دماغوں پر چاقو چلانے کی بجائے ان نہتی عورتوں پر چاقو چلاتے ہیں۔