دی پرفیکٹ گائے
ایک پرانی خبر میری نظروں کے سامنے گزری کہ ایکشن فلم‘ دی پرفیکٹ گائے‘ نے باکس آفس پر پہلی پوزیشن حاصل کر لی
ایک پرانی خبر میری نظروں کے سامنے گزری کہ ایکشن فلم' دی پرفیکٹ گائے' نے باکس آفس پر پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔ قدرے چونک کر پڑھا اور فوراََ خبر کی تفصیل میں گیا تو اپنی غلط بینی پر شرمندہ ہوا کہ دراصل یہ The Perfect Guy ہے جیسے اردو میں دی پرفیکٹ گائے لکھا ہوا تھا۔ دراصل آج کی دنیا کی اس قدر جدید ہو گئی ہے کہ کسی بھی خبر کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا اور کسی اہم خبر کو اثر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے جب سے گائے کی ذبیحہ پر پابندی لگائی ہے تب سے گائے یا گائے مختلف نوعیت کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہی ہیں کہ دماغ میں گائے گائے ہونے لگی۔
ٹویٹر پر ایک ایش پڑھنے کو ملا کہ گائے خدا نہیں... غذا ہے۔ سعودی عرب نے اونٹ کی قربانی پر امسال پابندی عائد کر دی تھی، وجہ یہ بیان کی گئی کہ اونٹوں میں مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس پایا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے مہلک ہے۔ میرس وائرس کی وجہ سے اونٹوں کی قربانی کا فتوی سعودی مفتی اعظم نے دیا۔ ظاہر ہے کہ اس فتوی کے بعد کوئی جواز ہی نہیں رہ جاتا کہ کوئی سرتابی کر سکے۔ بھارت سے ایک خبر دارالعلوم دیوبند ہند کی جانب سے منسوب کی گئی کہ ''دارالعلوم دیوبند ہمیشہ ہی سے گائے کے ذیبحہ کے خلاف رہا ہے اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو تلقین بھی کرتا رہا ہے۔''
اس سلسلے میں دارالعلوم کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی کا نام استعمال کرتے ہوئے بھارتی میڈیا نے اس خبر کو خوب پھیلایا کہ ملکی قانون اور ہندو برادری کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عید الاضحی کے موقعے پر گائے کی قربانی نہ کی جائے۔ فوری طور پر دارالعلوم دیوبند ہند سے وضاحتی بیان 12ستمبر کو جاری ہوا کہ ''دارالعلوم دیوبند (ہند) نے اس سال عیدالضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی اپیل یا بیان میڈیا کے ذریعے جاری نہیں کیا۔
عید الاضحی میں ہر سال مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں مختلف حلال چوپایوں، جیسے گائے، بیل، بکرے، مینڈھے، اونٹ اور دیگر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ گائے چونکہ زیادہ گوشت ہونے کی با نسبت سات حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اس لیے صاحب نصاب کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گائے کی قربانی میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں اخراجات کم ہو جاتے ہیں، لیکن یہاں مسئلہ یہ نہیں تھا بلکہ بھارت کی جانب سے گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھنے کے سبب انتہا پسند ہندوؤں نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی۔
بھارت کی جانب سے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ بھارت میں گائے کا گوشت صرف مسلمان ہی نہیں کھاتے۔ قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں ایسے کئی شواہد مل جاتے ہیں کہ اُس دور میں بھی گائے کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا، جب یگیہ ( ایک مذہبی تقریب) ہوتی تھی تب بھی گائے کو قربان کیا جاتا تھا۔ عہد گپت (20-550عیسوی) میں نئے گھر کی آباد ہونے کی رسم کے موقعے پر بھی گائے کی قربانی دی جاتی تھی۔
پانچویں صدی سے چھٹی صدی عیسوی میں چھوٹی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد زمینوں کی کاشت کاری کے لیے گائے، بیل کی اہمیت میں اضافہ ہوا لیکن پھر بھی اس میں یہ نظریہ نہیں تھا کہ گائے ہندو مذہب میں مقدس ہونے کے سبب قربان نہیں کی جا سکتی۔ اس نظریے کو فروغ برہمنوں نے دیا اور آہستہ آہستہ یہ نظریہ برہمن نے ایجاد کیا کہ جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں وہ ''دلت'' ہیں۔
چونکہ ''دلتوں'' کی تعداد چھٹی عیسوی میں بڑھتی چلی گئی تھی، اس لیے برہمن اصولوں نے مذہبی حکم کی جگہ لے لی کہ جو گائے کا گوشت کھائے گا وہ دلت ہو گا۔ اس دوران ایسے قانون کی شکل میں نافذ کر دیا گیا کہ جو گائے ذبح کرے گا اسے کفارہ دینا ہو گا۔ لیکن گائے کُشی کی سزا ایسی بھی نہیں تھی جیسے کہ آج کل مودی سرکار کی جانب سے رکھی جا رہی ہے کہ گائے کو ذبیح کرنے والے اگر گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں تو پاکستان چلے جائیں یا پھر کچھ ریاستوں میں انسانی قتل کی سزا کم اور گاؤ کشی کی سزا زیادہ ہے۔
ہندو مذہب کی کسی کتاب میں یہ کوئی بڑا جرم نہیں ہے، اس لیے زمانہ قدیم میں اس پر کبھی پابندی نہیں لگائی گئی، لیکن یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ مغلوں بادشاہوں کے دور میں جینیوں کے اثر و سوخ کی وجہ سے بعض موقعوں پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی بھی لگی۔ اصل تنازعہ 19 ویں صدی میں پیدا ہوا جب سوامی دیا نند سرسوتی نے ''گہو رکشا'' مہم چلا کر ہندو، مسلم فسادات کی ابتدا کی اور یہ امتیاز سامنے آیا کہ جو گائے کا گوشت کھاتا ہے وہ مسلمان ہے۔ حالانکہ بھارت میں دلت بیف کھاتے ہیں، قبائلی بھی کھلے عام کھاتے ہیں، برہمنوں کو چھوڑ کر سب بیف کھاتے ہیں، تامل ناڈو میں بھی بیف کھایا جاتا ہے۔
پابندی تو پاکستان میں بھی لگائی گئی کہ مادہ حاملہ جانوروں کو حلال نہ کیا جائے، لیکن بھارت نے مسلمانوں کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے، اس پر ان کی مذہبی جنونیت کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت میں غربت کا ہولناک طوفان ہے اور جب بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر نے گو ونش ( گائے کی نسل کے کسی جانور) کے ذبیحے پر مکمل پابندی عائد کی تو اس کاروبار سے منسلک لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے اور چمڑے کی صنعت میں بحران پیدا ہو گیا اور تاجر برادری کے مطابق چمڑے اور گوشت کا سالانہ 1.5 ارب روپے کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے تو دوسری جانب یہ خدشات بھی سامنے آئے کہ جہاں بھارت جیسے غریب ملک میں انسانوں کو ایک وقت کی روٹی بھی وقت پر میسر نہیں، وہاں ان جانوروں کی افزائش کے لیے کس قدر اقدامات کیے جا سکتے ہیں، گو کہ بھارت نے اس کے لیے ایک وزارت بھی بنائی ہے لیکن بھارتی عوام خود بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔
بھارت کے نائب وزیر داخلہ کرن ریجی پریس کانفرنس میں علی اعلان کہہ چکے ہیں کہ ''میں گائے کا گوشت کھاتا ہوں اور مجھے کوئی گوشت کھانے سے نہیں روک سکتا، کیا مجھے کوئی روک سکتا ہے؟'' بھارت میں دلہن کی قیمت گائے سے بھی کم ہے وہاں ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے دلت اور دیگر فرقے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ قربانی کی رسم صرف مسلمانوں میں نہیں رہی ہے بلکہ مختلف مذاہب میں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے اور موسم میں تبدیلی لانے کی استدعا کے طور پر مثلًا عبرانیوں، یونانیوں، رومنوں، قدیم مصریوں میں مایا دیتے رہے ہیں۔ ایزٹک میں یونانی دیہاتی عیسائی آرتھوڈوکس، سینٹس کو خوش کرنے کے لیے بھی قربانی دیتے تھے اس رسم کو ''قوربانیا'' کہا جاتا تھا۔
قدیم اسرائیل میں بھی قربانی کا تصور واضح ہے اور بائیبل کے افتتاحی ابواب میں قربانی کا صحیح صحیح طریقہ تک موجود ہے۔ عیسائیت میں بھی قربانی کا تصور موجود ہے، بائیبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی قربانی کا بیان موجود ہے، مسیحی عالم پادری عمانویل کھوکھر کہتے ہیں کہ ''بائیبل کے مطابق خدا تعالی دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان کس قدر پختہ ہے۔'' بدھ مت میں قربانی کا تصور نہیں، وہ جانداروں کے ذبیحہ کے مخالف تھے، بدھا کا کہنا تھا کہ
اے برہمن، میں لکڑی ڈال کر آگ نہیں جلاتا
میں صرف اندر کی حرارت سے آگ جلاتا ہوں
حتی کہ جنوبی امریکا کے ایزٹک دور میں دیوتاؤں اور ارواح کو خوش کرنے کے لیے انسانوں تک کو قربان کیا جاتا رہا ہے۔ زمانہ قدیم ہو یا زمانہ حاضر اب بھی توہمات کے ہاتھوں انسانوں کے ہاتھوں انسان قربان ہوتے رہے ہیں۔ یہاں صرف مقصود یہی تھا کہ ہندو مت سمیت تمام مذاہب میں گائے کے ذیبحہ پر پابندی کی کوئی روایت قدیم سے جدید دور تک نہیں رہی ہے۔
یہاں صرف یہی نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو زک پہنچائی جائے، ان کے اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جائے اور ان پر جس قدر مصائب لادے جا سکتے ہیں، لاد دیے جائیں۔ بھارت کی جنونی انتہا پسند مودی سرکار کا واحد مقصد صرف مسلمانوں کو ایذا دینا ہے اور اس کے لیے جو جس قسم کی بھی ہتھکنڈے استعمال کر سکتی ہے وہ مسلسل کیے جا رہی ہے۔ لیکن ان منفی عوامل سے بھارت خود اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
جس کی مثال ایک کشمیری خاتون آسیہ انداربی نے بھارتی احکامات ہوا میں اڑاتے ہوئے اپنے گھر کے سامنے گائے کو بھارتی انتہا پسندی کی سوچ سمجھ کر قربانی کر دی جب ایک خاتون مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جھنڈا لہرا سکتی ہے اور بھارتی احکامات پاؤں تلے روند سکتی ہے تو پھر کروڑوں مسلمان بیدار ہوگئے تو؟
ٹویٹر پر ایک ایش پڑھنے کو ملا کہ گائے خدا نہیں... غذا ہے۔ سعودی عرب نے اونٹ کی قربانی پر امسال پابندی عائد کر دی تھی، وجہ یہ بیان کی گئی کہ اونٹوں میں مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس پایا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے مہلک ہے۔ میرس وائرس کی وجہ سے اونٹوں کی قربانی کا فتوی سعودی مفتی اعظم نے دیا۔ ظاہر ہے کہ اس فتوی کے بعد کوئی جواز ہی نہیں رہ جاتا کہ کوئی سرتابی کر سکے۔ بھارت سے ایک خبر دارالعلوم دیوبند ہند کی جانب سے منسوب کی گئی کہ ''دارالعلوم دیوبند ہمیشہ ہی سے گائے کے ذیبحہ کے خلاف رہا ہے اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو تلقین بھی کرتا رہا ہے۔''
اس سلسلے میں دارالعلوم کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی کا نام استعمال کرتے ہوئے بھارتی میڈیا نے اس خبر کو خوب پھیلایا کہ ملکی قانون اور ہندو برادری کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عید الاضحی کے موقعے پر گائے کی قربانی نہ کی جائے۔ فوری طور پر دارالعلوم دیوبند ہند سے وضاحتی بیان 12ستمبر کو جاری ہوا کہ ''دارالعلوم دیوبند (ہند) نے اس سال عیدالضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی اپیل یا بیان میڈیا کے ذریعے جاری نہیں کیا۔
عید الاضحی میں ہر سال مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں مختلف حلال چوپایوں، جیسے گائے، بیل، بکرے، مینڈھے، اونٹ اور دیگر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ گائے چونکہ زیادہ گوشت ہونے کی با نسبت سات حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اس لیے صاحب نصاب کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گائے کی قربانی میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں اخراجات کم ہو جاتے ہیں، لیکن یہاں مسئلہ یہ نہیں تھا بلکہ بھارت کی جانب سے گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھنے کے سبب انتہا پسند ہندوؤں نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی۔
بھارت کی جانب سے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ بھارت میں گائے کا گوشت صرف مسلمان ہی نہیں کھاتے۔ قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں ایسے کئی شواہد مل جاتے ہیں کہ اُس دور میں بھی گائے کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا، جب یگیہ ( ایک مذہبی تقریب) ہوتی تھی تب بھی گائے کو قربان کیا جاتا تھا۔ عہد گپت (20-550عیسوی) میں نئے گھر کی آباد ہونے کی رسم کے موقعے پر بھی گائے کی قربانی دی جاتی تھی۔
پانچویں صدی سے چھٹی صدی عیسوی میں چھوٹی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد زمینوں کی کاشت کاری کے لیے گائے، بیل کی اہمیت میں اضافہ ہوا لیکن پھر بھی اس میں یہ نظریہ نہیں تھا کہ گائے ہندو مذہب میں مقدس ہونے کے سبب قربان نہیں کی جا سکتی۔ اس نظریے کو فروغ برہمنوں نے دیا اور آہستہ آہستہ یہ نظریہ برہمن نے ایجاد کیا کہ جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں وہ ''دلت'' ہیں۔
چونکہ ''دلتوں'' کی تعداد چھٹی عیسوی میں بڑھتی چلی گئی تھی، اس لیے برہمن اصولوں نے مذہبی حکم کی جگہ لے لی کہ جو گائے کا گوشت کھائے گا وہ دلت ہو گا۔ اس دوران ایسے قانون کی شکل میں نافذ کر دیا گیا کہ جو گائے ذبح کرے گا اسے کفارہ دینا ہو گا۔ لیکن گائے کُشی کی سزا ایسی بھی نہیں تھی جیسے کہ آج کل مودی سرکار کی جانب سے رکھی جا رہی ہے کہ گائے کو ذبیح کرنے والے اگر گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں تو پاکستان چلے جائیں یا پھر کچھ ریاستوں میں انسانی قتل کی سزا کم اور گاؤ کشی کی سزا زیادہ ہے۔
ہندو مذہب کی کسی کتاب میں یہ کوئی بڑا جرم نہیں ہے، اس لیے زمانہ قدیم میں اس پر کبھی پابندی نہیں لگائی گئی، لیکن یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ مغلوں بادشاہوں کے دور میں جینیوں کے اثر و سوخ کی وجہ سے بعض موقعوں پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی بھی لگی۔ اصل تنازعہ 19 ویں صدی میں پیدا ہوا جب سوامی دیا نند سرسوتی نے ''گہو رکشا'' مہم چلا کر ہندو، مسلم فسادات کی ابتدا کی اور یہ امتیاز سامنے آیا کہ جو گائے کا گوشت کھاتا ہے وہ مسلمان ہے۔ حالانکہ بھارت میں دلت بیف کھاتے ہیں، قبائلی بھی کھلے عام کھاتے ہیں، برہمنوں کو چھوڑ کر سب بیف کھاتے ہیں، تامل ناڈو میں بھی بیف کھایا جاتا ہے۔
پابندی تو پاکستان میں بھی لگائی گئی کہ مادہ حاملہ جانوروں کو حلال نہ کیا جائے، لیکن بھارت نے مسلمانوں کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے، اس پر ان کی مذہبی جنونیت کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت میں غربت کا ہولناک طوفان ہے اور جب بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر نے گو ونش ( گائے کی نسل کے کسی جانور) کے ذبیحے پر مکمل پابندی عائد کی تو اس کاروبار سے منسلک لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے اور چمڑے کی صنعت میں بحران پیدا ہو گیا اور تاجر برادری کے مطابق چمڑے اور گوشت کا سالانہ 1.5 ارب روپے کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے تو دوسری جانب یہ خدشات بھی سامنے آئے کہ جہاں بھارت جیسے غریب ملک میں انسانوں کو ایک وقت کی روٹی بھی وقت پر میسر نہیں، وہاں ان جانوروں کی افزائش کے لیے کس قدر اقدامات کیے جا سکتے ہیں، گو کہ بھارت نے اس کے لیے ایک وزارت بھی بنائی ہے لیکن بھارتی عوام خود بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔
بھارت کے نائب وزیر داخلہ کرن ریجی پریس کانفرنس میں علی اعلان کہہ چکے ہیں کہ ''میں گائے کا گوشت کھاتا ہوں اور مجھے کوئی گوشت کھانے سے نہیں روک سکتا، کیا مجھے کوئی روک سکتا ہے؟'' بھارت میں دلہن کی قیمت گائے سے بھی کم ہے وہاں ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے دلت اور دیگر فرقے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ قربانی کی رسم صرف مسلمانوں میں نہیں رہی ہے بلکہ مختلف مذاہب میں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے اور موسم میں تبدیلی لانے کی استدعا کے طور پر مثلًا عبرانیوں، یونانیوں، رومنوں، قدیم مصریوں میں مایا دیتے رہے ہیں۔ ایزٹک میں یونانی دیہاتی عیسائی آرتھوڈوکس، سینٹس کو خوش کرنے کے لیے بھی قربانی دیتے تھے اس رسم کو ''قوربانیا'' کہا جاتا تھا۔
قدیم اسرائیل میں بھی قربانی کا تصور واضح ہے اور بائیبل کے افتتاحی ابواب میں قربانی کا صحیح صحیح طریقہ تک موجود ہے۔ عیسائیت میں بھی قربانی کا تصور موجود ہے، بائیبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی قربانی کا بیان موجود ہے، مسیحی عالم پادری عمانویل کھوکھر کہتے ہیں کہ ''بائیبل کے مطابق خدا تعالی دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان کس قدر پختہ ہے۔'' بدھ مت میں قربانی کا تصور نہیں، وہ جانداروں کے ذبیحہ کے مخالف تھے، بدھا کا کہنا تھا کہ
اے برہمن، میں لکڑی ڈال کر آگ نہیں جلاتا
میں صرف اندر کی حرارت سے آگ جلاتا ہوں
حتی کہ جنوبی امریکا کے ایزٹک دور میں دیوتاؤں اور ارواح کو خوش کرنے کے لیے انسانوں تک کو قربان کیا جاتا رہا ہے۔ زمانہ قدیم ہو یا زمانہ حاضر اب بھی توہمات کے ہاتھوں انسانوں کے ہاتھوں انسان قربان ہوتے رہے ہیں۔ یہاں صرف مقصود یہی تھا کہ ہندو مت سمیت تمام مذاہب میں گائے کے ذیبحہ پر پابندی کی کوئی روایت قدیم سے جدید دور تک نہیں رہی ہے۔
یہاں صرف یہی نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو زک پہنچائی جائے، ان کے اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جائے اور ان پر جس قدر مصائب لادے جا سکتے ہیں، لاد دیے جائیں۔ بھارت کی جنونی انتہا پسند مودی سرکار کا واحد مقصد صرف مسلمانوں کو ایذا دینا ہے اور اس کے لیے جو جس قسم کی بھی ہتھکنڈے استعمال کر سکتی ہے وہ مسلسل کیے جا رہی ہے۔ لیکن ان منفی عوامل سے بھارت خود اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
جس کی مثال ایک کشمیری خاتون آسیہ انداربی نے بھارتی احکامات ہوا میں اڑاتے ہوئے اپنے گھر کے سامنے گائے کو بھارتی انتہا پسندی کی سوچ سمجھ کر قربانی کر دی جب ایک خاتون مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جھنڈا لہرا سکتی ہے اور بھارتی احکامات پاؤں تلے روند سکتی ہے تو پھر کروڑوں مسلمان بیدار ہوگئے تو؟